Saturday, 26 April 2014

اتوار بازار

اس بچے کا نام سہیل ہے-  کوئی چودہ پندرہ ہفتوں پہلے میری اس سے پہلی ملاقات ہوئی اتوار بازار میں-  جب سے اب تک شاید پانچ چھ مرتبہ ہم مل چکے ہیں-  پہلی اتوار کو یہ گھر تک میرا سامان چھوڑنے آیا-  میری رفتار سے تقریبا پندرہ بیس منٹ کا پیدل فاصلہ ہے-  دوسری اتوار یہ خود ہی گھر تک آ گیا کہ اگر مجھے ضرورت ہو- میں نے اس کو منع کردیا کہ اگر مجھے آنا ہو گا تو میں آجاونگی- تم میرے گھر مت آنا-  یہ ہر اتوار بازار میں میرا انتظار  کرنے لگا اور میں نے اس کی یہ عادت چھڑانے کے لئے اتوار بازار جانا کم کردیا-  

بازار سے گھر تک راستے میں، میں اس سے بہت سی باتیں پوچھتی اور وہ بڑی عقلمندی سے جواب دیتا-  اچھا خاصہ ڈپلومیٹ لگتا-  اسے پہلی ہی دفعہ یہ اندازہ ہوگیا کہ میرے موضوعات کیا ہوتے ہیں بات کرنے کے لئے-  

بقول اسکے - اسکی عمر دس سال ہے اور اپنے آٹھہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہے-  پانچ بھائی اور تین بہنیں چھوٹی-  نانا، دادا اور یہ خود اتوار بازاروں میں سامان اٹھاتے ہیں-  ماں گھروں میں کام کرتی ہے-  چچا کی شادی اپریل میں ہے یعنی اسی مہینے-  وہ مزدوری کرتا ہے-  یہ خود سرکاری اسکول جاتا ہے اور اس کو اچھا نہیں لگتا کہ اسکول والے کتابیں بیچتے اور فیس لیتے ہیں-  کبھی کبھی یہ اپنے دوستوں کے ساتھ ایف نائن پارک بھی جاتا ہے-  

پہلی مرتبہ جب ہم واپس گھر آرہے تھے تو اس نے راستے میں بھٹہ یا سٹہ کھایا اور کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا- میں نے اسے کہا کہ اسے اس بڑے سے ٹینک میں ڈالو- پھر میں نے اسے تھوڑا لیکچر دیا-  اسکے بعد ہم جب وہاں سے گذرتے وہ اکثر کوڑے پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتا- اکثر بتاتا کہ فلاں جگہ بھی کوڑا پڑا تھا تو اسے اچھا نہیں لگا-  اور دوسرے بچوں کو بھی بتایا کہ یہ بری بات ہے-  گھر میں بھی ذکر کیا-  

اس نے پہلی مرتبہ مجھے آنٹی کہا تو میں نے اسے کہا کہ مجھے مس خان کے نام سے پکارنا-  تو اس نے یہ بات یاد رکھی-  اور باقاعدہ مجھے جتاتا  کہ دیکھیں میں آپ کو مس خان کہتا ہوں-  

ایک دن اس انے ایک دکان سے چند چاول کے دانے اٹھا کر منہ میں ڈال لئے-  میں نے ٹوکا اور دکاندار کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ تم نے ان سے پوچھے بغیر کیوں دانے منہ میں ڈالے-  اس نے فورا کہا کہ آئندہ نہیں کروں گا-  

میں نے اسکی تصویر لی تو بولا کہ مس خان آپ اسے چھاپیں گی میں نے کہا ہاں کمپیوٹر پر چھاپوں گی-  

کبھی وہ بڑوں کے انداز میں کہتا کہ بس جی دو وقت کی روٹی عزت سے مل رہی ہے-  شکر ہے-  

 پھر اس نے مجھ سے اپنے ایسے واقعات شئیر کرنے شروع کردیے جس میں نیکی کا پہلو نمایاں تھا-  مجھے یہ بھی اندازہ ہوا کہ کوئی اور اس سے اتنی باتیں نہیں کرتا ہے -  بلکہ شاید اسکی طرف دیکھتا بھی نہیں -

اپنے تجربے کی بنیاد پر میں یہ کہ سکتی ہوں کہ اسکی باتوں میں سے شاید پچاس فیصد بھی درست نہیں تھیں-  وہ میری نظروں میں اپنا اچھا تاثر پیدا کرنے کے لئے میری مرضی کی باتیں کرتا-    

اور اس کی وجہ کیا تھی-  پہلی اتوار کو میں نے اسے دو سو روپے دے-  جب دوسری اتوار وہ خود میرے گھر آگیا تو مجھے لگا کہ میں نے یقینا اسکی توقع سے زیادہ اجرت دے دی-  حالانکہ میرے لحاظ سے ٹھیک تھی-  کیونکہ میں ٹیکسی بھی لوں تو بھی سو روپے تو اس نے بھی لے ہی لینے تھے دس بارہ گلیوں کے فاصلے کے-  اکثر میں اس سے کہتی کہ تھوڑا سامان میں اٹھا لوں گی باقی تم اٹھا لو اور وہ خوش ہو جاتا-  میں نے اس سے پوچھا کہ تم کو دن پھر میں کتنی مزدوری مل جاتی ہے-  کہنے لگا کبھی سو کبھی ڈیڑھ سو- میں نے پوچھا کہ ایک فیملی کتنے پیسے دے دیتی ہے- کہنے لگا کہ کبھی دس کبھی بیس-  پھر بولا کہ ایک آنٹی مجھے آپ کے گھر سے بھی دور اپنے گھر تک لے گئیں اور انہوں نے پچاس روپے دیے یہ کہہ کر کہ بنتے تو تیس تھے لیکن میں پچاس دے رہی ہوں-  

میں یہ سوچتی ہوں کہ اس بچے کی ذہانت اور معاملہ فہمی کئی ڈگری ہولڈرز سے بڑھ کر ہے-  لیکن اس کو غلط راہ پر ہم نے ہی لگایا ہے-  ہمارے بچے روزانہ سو روپے کے چپس اور جوس کھا پی لیتے ہیں-  لیکن اس بچےکو سو ڈیڑھ سو روپوں کے لئے دن پھر لوگوں کے آگے پیچھے پھرنا پڑتا ہے اپنے نازک نازک کندھوں پر سامان اٹھانا پڑتا ہے-  اپنے گھر والوں کے معاش میں ہاتھ بٹانے کے لئے-  معاشرتی ناانصافی اور طبقات کے اس فرق کی وجہ سے آہستہ آہستہ اسکے دل سے محنت کا تصور ختم ہو جاۓ گا اور یہ بھی انتقام کی آگ میں جلنے لگے گا-  اور سب کے لئے دہشت گردی اور خوف کا باعث بنے گا- 

آزادی اور مساوات کے نام پر ہم نے بہت سے لوگوں کا سکون برباد کر دیا ہے-  یہ وہ لوگ ہیں جنھیں صرف تھوڑی عزت اور دو روٹی چاہیے ہوتی ہے-  اور یہ اسی پر شاکر ہوتے ہیں-  

کیا یہ بھی فوج کا قصور ہے؟ کیا یہ بھی فوج کی ذمّہ داری ہے؟ 
کیا سیلانی والوں کو ان گھرانوں کا خیال آیا کبھی؟
کیا حکومت کے وزیر اعظم سے لے کر نیچے تک تمام جرائم پیشہ افراد کے پاس ان بچوں کے لئے کوئی پلاننگ ہے؟ 


اور یہ تین سال کی بچی ہے-  نام تو نہیں پتہ-  بلڈنگ کے پیچھے خیموں میں رہتی ہے-  اسکے بھائی سرکاری اسکولوں میں جاتے ہیں-  اب سے ایک سال پہلے مجھے بلڈنگ کے باہر ملی اور پولیس والوں کے انداز میں مجھ سے 'پاپڑی' دلانے کی فرمائش کرنے لگی-  پاپڑی یعنی چپس-  میں نے دلادئیے تو اپنے پاس کھڑے بھائیوں کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگی کہ انھیں بھی دلاؤ-  پھر اس نے میرے آنے جانے کے وقت کا اندازہ لگالیا اور جب میرے آنے کا وقت ہوتا اس وقت سڑک پر آجاتی-  ایک دن بازار سے واپسی پر اس نے میرے ہاتھ میں تھیلے دیکھے تو کہنے لگی مجھے بھی دو-  میں نے کہا یہ ارویاں ہیں- یہ پکا کر کھائی جاتی ہیں کچی نہیں-  تو کہنے لگی کوئی گل نئی-  اور ایک اروی لے کر اسے دیکھنے لگی کہ ہے کیسی-  میں نے کہا اچھا تم کھڑی ہو میں تمہاری تصویر بناتی ہوں تو بڑی تمیز کے ساتھہ کھڑی ہو گئی-  پھر موبائل میں اپنی تصویر دیکھ کر خوش ہو گئی- کبھی کبھی اسکے بھائی ایک پلاسٹک کی تھیلی کے آگے دھاگہ باندھ کر بھاگتے ہیں تو تھیلی غبّارے کی طرح انکے پیچھے ہوا میں اڑتی ہے-  اپنے کھلونے خود ایجاد کر لیتے ہیں- 






No comments:

Post a Comment