Thursday 30 January 2014

بچوں کی تعلیم کے لئے کن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے؟



بچوں کی تعلیم کے لئے کن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے؟ کسی سے انفرادی طور پر پوچھیں یا اک بحث و مباحثے کی محفل سجا لیں- مادّی اور معنوی اشیاء کا ڈھیر گنوا دیا جاۓ گا اور اسکے جسمانی، روحانی، معاشرتی اور بین الا قوامی اثرات بیان کرتے کرتے صدیاں بیت جائیں گی- یہاں تک کہ یہ بچے بڑے ہو جائیں گے اور پھر وہ اپنے بچوں کے لئے اسی بحث کا حصہ بن جائیں گے-  اور ساری کی ساری بحث کا محور یا تو دینی محرکات ہوں گے یا پھر مغربی دنیا کی ترقی (جو پتہ نہیں کیا چیز ہوتی ہے)-

پیدائش سے لے کر بارہ سال تک کے بچوں کی تعلیم و تربیت پر جتنا زور دیا اور لگایا جاتا ہے اگر اتنا زرو بالغ ماں باپ اور  اساتذہ اپنی تعلیم و تربیت پر لگائیں تو بچے ان کو دیکھ کر ہی وہ کچھ سیکھ جائیں جو وہ اپنی چودہ سولہ سالہ تعلیم میں نہیں سیکھتے- مثال کے طور پر یہ کہ انکے والدین اور اساتذہ کو بھی کتابوں اور پڑھنے لکھنے سے دلچسپی ہے- 

بچے کو تعلیم دینے کا مقصد اسے محتاج بنانا نہیں بلکہ آزاد اور خود مختار بنانا ہے-  تاکہ کم از کم اپنی زندگی خود گذار سکے، اپنے اعمال کا خود زمہ دار ہو اور دوسروں پر کم سے کم انحصار کرے- اور اسکے لئے پڑھنے، لکھنے اور گننے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ ہنر بھی ضروری ہے- 

بچے کی دس بارہ سال تک کی تعلیم کو اگر آسان، ترتیب وار اور متوازن بنادیا جاۓ تو بچہ آگے کے مراحل خود طے کرنے لگتا ہے- 

پیدائش سے لیکر نو دس سال تک کے بچے کی تعلیم کے لئے صرف ماحول کی ضرورت ہوتی ہے- 
١- ایک ایسا ماحول جس میں مکھیوں اور مچھروں کو برا اور بلیوں، کتوں اور پرندوں کو اچھا سمجھا جاتا ہو-  
٢- ایک ایسا ماحول جہاں بچے اپنے والد اور دوسرے بالغ مردوں کو جگہ جگہ تھوکتے ہوۓ اور بالغ مرد عورتوں کو جگہ جگہ کوڑا پھینکتے ہوۓ نہ دیکھتے ہوں- 
٣- ایک ایسا ماحول جہاں اساتذہ فخر سے بچوں کو یہ بتایا کریں کہ انہوں نے آج یہ کتاب یا یہ اقتباس یا یہ حوالہ پڑھا اور یہ سمجھا- 
٤- ایک ایسا ماحول جہاں کچھ بھی نہ ہو تو استاد یا استانی مٹی پر حروف لکھہ کر پڑھنا سکھا دے، کوئلے سے لکھنا سکھا دے- درخت کے گرے ہوۓ پتوں اور زمین پر بکھرے ہوۓ کنکروں سے گننا، جمع اور تفریق کرنا سکھا دے-  یہ سوچتے ہوۓ کہ علم ہر جگہ اور ہر چیز میں ہے اور کسی جگہ اور چیز کا محتاج نہیں-
٥- ایک ایسا ماحول جہاں چلتے پھرتے بچے کو رنگ اور اشکال سکھادی جائیں-  ہلدی زرد، مرجائیں سرخ، بھنڈی سبز، مولی سفید، سٹا/چھلی پیلا، آسمان نیلا- میز، کتابیں، کھڑکیاں، دروازے  مستطیل، پلیٹیں اور پہیے گول، انڈا بیضوی، وغیرہ- 
٦- چلتے چلتے سبزی، پھل، میوہ یا کسی بھی دکان پر رکیں اور بچے کو نام سکھا دیں بلکہ اٹھا کر بھی دکھا دیں کہ یہ کیسا ہے- نرم ہے، سخت ہے، چکنا ہے، کھردرا ہے- 
٧- کھانے کے وقت اسے بتائیں کہ کس چیز کا کیا ذائقہ ہے- اچار اور لیموں کھٹے ہیں، سالن مسالہ دار ہے- چاول نمکین ہیں- گاجر میٹھی ہے- مولی تیکھی ہے- 
٩- گھر کا ایک چکر لگا کر بتادیں کہ یہ غسل خانہ ہے، یہ باورچی خانہ ہے، یہ بالکونی ہے، یہ صحن ہے، یہ برآمدہ ہے- وغیرہ 
١٠- گھر سے باہر نکلیں بچے کو بتائیں یہ عمارت ہے، یہ گھر ہے، یہ ڈاکٹر کا کلینک ہے، یہ اسکول ہے، یہ مسجد ہے، یہ ڈاک خانہ ہے- وغیرہ 
١١- فالتو اخبار، رسالے، کاغذ میں سے بچے کو تصویریں کاٹنے کے لئے دے دیں تاکہ اس کی کٹائی کی مشق ہو جاۓ- 
١٢- بازار جائیں تو بچے کے ہاتھ سے پیسے وغیرہ دلوائیں تاکہ اسے سکّوں اور نوٹوں کو پہچان ہو جاۓ- 
١٣- سفر کریں تو بچے کو سڑکوں کے نام اور راستے میں آنے والے مقامات کے بارے میں بتادیں- 
١٤- اپنے بچپن کے قصے، پیغمبروں کی زندگی، مشہور لوگوں کے واقعات  انھیں سنائیں تاکہ وہ تاریخ اور معاشرتی علوم سے واقف ہونا شروع ہوجائیں- 
١٥- گھر میں اسے پانی، بجلی، گیس کو صحیح استعمال کے طریقے بتائیں اور یہ کہ انھیں ضایع نہ کریں- 
١٦- بچے کو گھر میں ہی ہاتھہ دھونا، دانت صفائی کرنا، بستر ٹھیک کرنا، جوتے جگہ پر رکھنا، کام کاج میں ایک دوسرے کی مدد کرنا سکھائیں- 

ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کو سکھانے کے لئے ہزاروں روپے فیس دینا اور پھر ٹیوشن پر خرچ کرنا اور اسکے لئے خود کو اتنا تھکا لینا کہ دینی ذمہ داریوں اور دوسروں کے حقوق کا خیال ہی نہ رہے- چے کو جسمانی اور ذہنی طور پر بلاوجہ تھکانا- بچے کے نازک جسم پر دس دس کلو کے بستوں کا بوجھہ ڈال کر انکو بوڑھا کرنا- یہ سب ظلم ہے اور الله ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا یہ قرآن کہتا ہے-  

چھوٹے بچوں کو کم از کم نو گھنٹے نیند چاہیے ہوتی ہے- بچے کی وقت گذاری کا سامان کرنا ہے تو یہ ہزاروں روپے فیس بچا کر بچے کو تیراکی، مارشل آرٹس اور پتہ نہیں کیا کیا سکھایا جا سکتا ہے-  

الله پاکستان کے والدین اور اساتذہ کو اس ظلم سے بچانے کی ہدایت دے- آمین 











Tuesday 28 January 2014

Jigsaw Puzzle Map of Asia in Montessori - Is it the part of conspiracy against Pakistan?

The purpose of Montessori material is to let the child understand what is the whole world about through visualization at first and then in detail through different sources and using other senses too.
Wonder who designed the Jigsaw Puzzle map of Asia in Montessori material that is showing the incomplete map of Pakistan, it is missing Azad Kashmir and it is being taught all over the world.
I wonder why so called educationists never noticed it?
THIS PARTICULAR MATERIAL SHOULD BE CHANGED ALL OVER THE WORLD INSTANTLY.



Saturday 25 January 2014

Course books are not books

If there were no course books in Pakistan,
especially the imported one, 
the children would have grown
thoughtful, powerful, cheerful, truthful, insightful, 
logical, responsible, original,
visionary, trustworthy, 
peculiar, initiator, good listener, 
courageous, ambitious, curious, generous,
candid, skilled, balanced, 
cooperative,sensitive, proactive,
interesting, challenging, leading, 
enthusiastic, 
result-driven, 
self-motivated, contented, 
compassionate, 
wise
consistent and independent.




Friday 24 January 2014

Introduction to Urdu Grammar in Elementary Classes - اردو قواعد


جو بھی زبان جس زمانے میں بولی گئی وہ کسی قاعدے کے تحت بولنا شروع نہیں کی گئی- قاعدے تو ہر زبان کے اہل علم لوگوں نے دریافت کیے- صرف بولنے کے لئے تو کسی زبان کے قاعدے قوانین سیکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی-  اس کی ضرورت ہوتی ہے تحریری صلاحیتوں کے لئے-  کچھ بھی لکھنے کے لئے یہ جاننا ضروری ہوتا ہے کہ تقریر کا کون سا حصہ کہاں آۓ گا تاکہ پڑھنے والے کو بات سمجھ آجاۓ-  خط، درخواست، دعوت نامہ، رسید، مضمون، کہانی، تشریح، وضاحت، نظم - یہ سب ہی تحریر کی مختلف شکلیں ہیں- لیکن بچہ ان سب تو شاید پڑھنا تو جلدی سیکھ لے لیکن خود سے لکھ نہیں سکتا جب تک ان تمام قسم کی تحریروں کے کم از کم بیس پچیس نمونے دیکھ اور پڑھ نہ لے-  بچوں کو قواعد سکھانے کا کیا مطلب ہے؟  زبان تو بچہ پیدا ہوتے ہی آس پاس کے ماحول سے سیکھنا شروع کر دیتا ہے-  اگر ڈھائی تین سال کی عمر میں اسکول جانا شروع کردے تو پھر حروف تہجی اور نہ صرف الفاظ بنانا بلکہ مرکبات اور جملے بنانا بھی سیکھ لیتا ہے-  پہلی دوسری جماعت میں بھی ذخیرہ الفاظ اور پڑھنے لکھنے کی صلاحیت پر ہی زور دینا چاہیے- بچے کے اندر یہ سمجھ کہ فلاں لفظ اسم ہے تو فلاں فعل ہے جب شروع ہوتی ہے جب وہ بہت سی کہانیاں اور نظمیں سن اور پڑھ چکا ہو اور ان میں بیان کے گۓ واقعات کی سمجھ بھی ہو- اس وقت اگر اسے تقریر کے حصے سکھاۓ جائیں تو اس کے ذہن میں اتنے الفاظ جمع ہو چکے ہوں گے کہ وہ با آسانی مثالیں سمجھ بھی سکتا ہے اور دے بھی سکتا ہے-  تیسری جماعت کا بچہ آٹھہ یا نو سال کا ہوتا ہے-  یہ ہو سکتا کہ کوئی بچہ چھ سات سال کی عمر میں ہی قواعد سمجھ لے- لیکن ہر بچے سے یہ توقع رکھنا اور پھر اسے ایک معیار بنا دینا درست نہیں- خالی خولی تعریفیں اور مثالیں رٹوانے سے کوئی فائدہ نہیں- 

تیسری جماعت تک پہنچتے پہنچتے بچے کو کارڈز کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ وہ کافی حد تک پڑھنا لکھنا سیکھ چکا ہوتا ہے اور کارڈز کے ذریعے پڑھنا یا جملے بنانا اسے اپنی رفتار میں رکاوٹ محسوس ہوتا ہے- جو کہ ایک اچھی علامت ہے-  اس عمر کے بچے کو قواعد سکھانے کے لئے البتہ ایک فہرست بنا کر دی جا سکتی ہے- اور فہرست کے لئے مختلف رنگوں کی چارٹ شیٹ کو استعمال کیا جاسکتا ہے- مثال کے طور پر اسم کے لئے گلابی، فعل کے لئے نیلے اور صفت کے لئے سبز-  بچہ رنگوں کے حوالے سے انھیں یاد رکھہ سکتا ہے-  اس درجہ پر اسم، فعل اور صفت کی پہچان کافی ہے- 


بچے کو سکھانے کے لئے یہی تعریف کافی ہے کہ اسم ہر چیز کے نام کو کہتے ہیں-  اور آس پاس کی سینکڑوں چیزوں سے اسکو مثالیں دی جا سکتی ہیں- پانی، فرش، دیوار، کتاب، ہاتھ، منہ، دروازہ، کھڑکی، برتن، آئینہ، جوتے، الماری، میز، کرسی، لڑکی، لڑکا، بچے وغیرہ- اسم کو بہت سی قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے-  مثلا اسم ذات، اسم علم، اسم  جامد، اسم خیالی/ معنوی، اسم مجموعہ، اسم معرفہ، اسم نکرہ، اسم مصدر، اسم مشتق، اسم  ضمیر،اسم اشارہ، اسم صفت،اسم آلہ،  اسم صوت، اسم ظرف، وغیرہ- انسان، آزادی، گاۓ، لکھائی،  لکھنا، قینچی، مصور، یہ، وہ، میاؤں میاؤں ، قائداعظم، کتاب، گروہ - یہ سارے اسم بچہ پڑھ تو سکتا ہے لیکن ان کی قسموں کا تعین نہیں کر سکتا- لہذا بہتر ہے کہ اس درجے میں بچے کو یہی بتایا جاۓ کہ اسم کیا ہوتا ہے- 

اس تصویر میں دائیں جانب والی فہرست میں اسم عام اور بائیں جانب والی فہرست پر اسم خاص ہیں- 


عربی زبان کی طرح اردو میں بھی مصدر سے کئی فعل بنتے ہیں- مثال کے طور پر 'آنا' مصدر ہے اور اس سے بننے والے فعل کتنے ہو سکتے ہیں- 
آنا  آ  آؤ  آئیے   آئیں آیا  آئی   آۓ   آئیں
آگیا  آگئی  آگۓ 
آچکا  آچکی  آچکے  آچکو   آچکوں آچکیں
آتا   آتی  آتے  آتیں  آرہا  آرہی  آرہے آرہیں
آۓ گا   آۓ گی   آئیں گے    آئیں گی
آسکا   آسکو   آسکی   آسکے  آسکوں  آسکیں
آسکتا  آسکتی  آسکتے   آسکتیں

اسی طرح 'پڑھنا' مصدر ہے اور اس سے بننے والے فعل ہیں
پڑھنا  پڑھ  پڑھو  پڑھیں  پڑھیے  پڑھا  پڑھی  پڑھے  پڑھیں
پڑھ لیا   پڑھ لی   پڑھ لئے  پڑھ لیں
پڑھ چکا  پڑھ چکی  پڑھ چکے  پڑھ چکو   پڑھ چکوں   پڑھ چکیں
پڑھتا  پڑھتی  پڑھتے  پڑھ رہا  پڑھ رہی   پڑھ رہے   پڑھ رہیں
پڑھے گا  پڑھے گی  پڑھیں گے   پڑھیں گی  پڑھو گے
پڑھ سکا   پڑھ سکی   پڑھ سکو   پڑھ سکے   پڑھ سکیں    پڑھ سکوں
پڑھ سکتا  پڑھ سکتی   پڑھ سکتے    پڑھ سکتیں

پہلی یا دوسری جماعت کا بچہ ان تمام افعال کو پڑھ تو سکتا ہے لیکن اس کے لئے یہ بات سمجھنا کہ یہ سب فعل ہیں اور ان میں کون سے زمانے پاۓ جاتے ہیں کافی مشکل ہو سکتا ہے- لہذا فعل سکھانے کا طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ مصادر کی ایک فہرست تیار کر کے بچے کو دی جاۓ کیونکہ مصدر میں کوئی زمانہ نہیں پایا جاتا- اور اس درجہ میں زمانہ جاننے کی ضرورت بھی نہیں-  اور اسکو اتنی تعریف بتادی جاۓ کہ کوئی بھی کام جو تم کرتے ہو وہ فعل ہوتا ہے- جیسے کہ آنا، جانا، لکھنا، پڑھنا، بھاگنا، چڑھنا، کھانا، پینا، کھیلنا، وغیرہ- اکثر بچوں کو دس بارہ جملے دے دیے جاتے ہیں کہ ان میں فعل ڈھونڈیں- ان جملوں میں فعل مختلف زمانوں کا اظہار کررہا ہوتا ہے جیسے کہ ماضی، حال، مستقبل، استمراری، امر وغیرہ-  اکثر بچے فعل کی اس تقسیم کو سمجھ بھی نہیں پاتے- لہذا یا تو ایک وقت میں ایک ہی زمانہ سکھائیں اور اسی کی اچھی طرح مشق کرائیں اور پھر دوسرے زمانے پر جائیں- یا پھر مصدر کے ذریعے ہی سکھائیں-  اور بچے کے اگلے درجے میں پہنچنے کا انتظار کریں- 



بچے جب بولنا شروع کرتے ہیں اس سے بھی پہلےغیرارادی اورغیر شعوری طور پر صفت کو جانتے ہیں لیکن اس کی تعریف سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں-  چھوٹا سا بچہ بھی نیا، بڑا، میٹھی، زیادہ، رنگین چیزوں کو پسند کرتا ہے اور اسی کا مطالبہ کرتا ہے-  حالانکہ اسے یہ سمجھ نہیں ہوتی کہ وہ 'صفت' کی بنیاد پر چیزوں کو پسند کر رہا ہے-  سات آٹھہ سال کا بچہ البتہ تھوڑی سی کوشش سے جلد ہی صفت کا مطلب جان سکتا ہے- مثال کے طور پر ایک کھلونا گاڑی بچے کے سامنے رکھیں اور اس سے کہیں کہ اس کے بارے میں بتاؤ کہ یہ کیسی ہے-  اور ایک صفحے پر وہ الفاظ لکھتے جائیں- فرض کریں بچے نے کہا کہ یہ گاڑی سفید ہے، چھوٹی ہے، صاف ہے، نئی ہے-  اس طرح چار صفات یعنی 'سفید، چھوٹی، صاف اور نئی' کاغذ پر لکھ لیں اور بچے کو بتائیں کہ یہ چاروں الفاظ یا کلمات صفت ہیں کیونکہ یہ گاڑی کا نام یا کام نہیں بلکہ اس کے بارے میں بتاتے ہیں کہ یہ کیسی ہے- اسی طرح بچے سے پوچھیں کہ تمہارا گھر کیسا ہے اور وہ ان الفاظ کو کاغذ پر لکھ سکتا ہے- بچے کو کچھ اور چیزیں دے کر اس کی مشق کروائی جا سکتی ہے- اکثرعملی کتابوں میں ایک تصویر بنی ہوتی ہے اور اسکے ارد گرد کچھ سطریں بنی ہوتی ہیں جن پر بچوں کو اس تصویر کے بارے میں لکھنا ہوتا ہے-  اسی طرح وہ تصویر کی صفات بھی لکھہ سکتے ہیں- 








Spelling Bee - الفاظ کی ہجے

بچوں میں اردو یا انگریزی زبان کے الفاظ کی جوڑ توڑ سمججھنے کے لئے اور یہ ذہن نشین کرنے کے لئے کہ کون سا لفظ کن الفاظ سے ملکر بناتا ہے 'سپیلنگ بی' یا 'الفاظ کی ہجوں کا کھیل یا مقابلہ' ایک بہت پرانا لیکن بہترین طریقہ ہے-  اسی طریقے کا تحت ہمارے بچپن میں ہمیں پڑھنا بھی سکھایا جاتا تھا-  یہ طریقہ صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ دنیا کے بہت سے ملکوں میں سالوں سے اختیار کیا جاتا رہا ہے اور آج بھی مقبول ہے-

آج کل جس قسم کا تعلیمی نصاب تیار کیا جاتا ہے اس میں کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لکھائی پڑھائی پر زور دیا جاتا ہے اور بچوں کو بچوں کے بجاۓ بڑوں کے موضوعات اور اگلے سے اگلے درجوں کے اسباق پڑھنے اور سمجھنے کے لئے دے دیے جاتے ہیں-  جو کہ بچوں کے لئے شدید ذہنی دباؤ اور پریشانی کا باعث  تو بنتا ہی ہے لیکن ساتھہ ساتھہ انکے روحانی  اور نتیجتا جسمانی نظم و ضبط میں بگاڑ بھی پیدا کرتا ہے اور بچے اس کا اظہار بدتمیزیوں، جھوٹ، ضد اور نافرمانی کی صورتوں میں کرتے ہیں-

بچوں میں پیدائش کے بعد عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ قدرتی طور پر ایک قسم کا روحانی نظم و ضبط بھی پروان چڑھ رہا ہوتا ہے-  اس نظم و ضبط کے تحت وہ اپنے  ارد گرد کے ماحول کو پرسکون دیکھنا چاہتے ہیں، ہر شے تک پہنچنے کی جستجو کرتے ہیں- چیزوں کو چھونے اور چکھنے کے نتیجے میں اپنے تجربات سے جو اچھا یا برا سیکھتے ہیں اسی سے ان کی ذہنی پرورش ہوتی ہے-  لیکن یہ نظم و ضبط ارد گرد کے ماحول سے بہت زیادہ متاثر بھی ہوتا ہے-  ماحول کے عناصر میں بے ترتیبی انکی شخصیت میں غیر ذمہ داری، بیزاری اور کاہلی پیدا کردیتی ہے جسکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچہ اپنے ماحول سے مایوس اور غافل ہوتا چلا جاتا ہے-  جبکہ ماحول میں ترتیب اور جمالیات بچے کو نہ صرف ذہنی سکون فراہم کرتی ہے بلکہ ذہنی اور جسمانی طور پر اسکی شخصیت متوازن رہتی ہےاور وقت کے ساتھہ ساتھ اسے ناپسندیدہ اور مشکل حالات میں جینے کے سلیقہ بھی پیدا کرتی ہے- لہذا ابتدائی نصاب تیار کرتے وقت بچے کی روحانی تربیت کا بھی خیال رکھنا چاہیے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب بچے کا تعلیمی ماحول اسکی عمر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو-

جہاں تک الفاظ کی ہجے اور جوڑ توڑ کا تعلق ہے تو یہ ترکیب بچے کے لئے پریشانی کا باعث نہیں بنتی کیونکہ بچے کا مزاج چھوٹی عمرمیں چیزوں کی جوڑ توڑ کا ہی ہوتا ہے-  اس ترکیب کی ابتداء ان الفاظ سے کرنی چاہیے جو حروف کی مکمل اشکال سے بنتے ہیں-  اور اس کا طریقہ بھی تصوراتی نہیں بلکہ حقیقی ہونا چاہیے- مطلب یہ کہ بچے کو اسم خیالی/ معنوی یعنی آرزو، ارادہ، آزردہ، روزہ دار قسم کے الفاظ دینے کے بجاۓ وہ الفاظ دیے جائیں جنھیں وہ عام زندگی میں دیکھ، چھو، چکھہ، سن اور محسوس کرسکتے ہوں یا انکی تصویر دکھائی جا سکتی ہو-  جیسے کہ آم، آڑو، اروی، ادرک، زردی، اذان، آواز،  درد، دوا، دن،  رات، درزی، درزن، دودھ، دروازہ، داغ، ڈال، اون، ورق، داڑھ، ڈوری، ڈورا  وغیرہ- اور پھر اسباق کی ترتیب کی مناسبت سے اس ترکیب کو آگے درجات تک بڑھانا چاہیے- یہی طریقہ انگریزی زبان کے الفاظ کے لئے بھی ہونا چاہیے-  فرق صرف اتنا ہے کہ انگریزی زبان کے الفاظ میں حروف الگ الگ اور مکمل ہی لکھے جاتے ہیں لہذا ابتداء کے لئے تین یا چار حرفی الفاظ کی 'سپیلنگ بی' ہونی چاہیے اور پھر اس سلسلے کو پانچ، چھہ اور کئی  حرفی الفاظ تک آگے بڑھانا چاہیے-

اس کا طریقہ کار شروع میں اس طرح کا ہونا چاہیے کہ جن الفاظ کی ہجے سکھانا درکار ہو اسکی تصویر بھی بچے کو دکھائی جاۓ-  اسکے لئے تین انچ مربع کے کارڈز بنا کر انکے ایک طرف تصویر بنائی یا چپکائی جاۓ اور دوسری طرف وہ لفظ لکھ دیا جاۓ تاکہ بچہ پلٹ کر دیکھ سکے-  بعد میں اسے پلٹ کر دیکھنے کی ضرورت نہیں رہے گی کیونکہ اسے حروف یاد ہو چکے ہوں گے-

نیچے دی گئی  تصویروں میں سے پہلی تصویر پر ایک طرف چیزوں کی تصویر ہے اور دوسری تصویر میں ان کے پیچھے کی جانب لکھے گۓ حروف اور نام ہیں- 






















Thursday 16 January 2014

New Technique for Urdu Writing - اردو تحریر کا نیا اسلوب بچوں کے لئے

 پہلی جماعت یا اس سے پہلے کے درجات میں بچے کو اردو کے مرکبات  اور جملے سکھانے کے لئے ایک آسان اسلوب وضع کیا گیا ہے-  ابتدائی درجات  کے اسباق میں سے آسان اور عام  گفتگو میں استعمال ہونے والے الفاظ کے دو مربع انچ کے کارڈز بنا کر انھیں مختلف رنگوں کے ذ ریعے ممیز کیا ہے- ان کارڈز کے  چاروں طرف یا دونوں جانب کے بجاۓ نیچے رنگ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بچے کے ذہن میں نیچے حاشیہ کا تصور رہے اور کارڈز اسی طرح رکھے تاکہ الفاظ ہمیشہ سیدھے نظر آئیں- چاروں طرف رنگ کرنے کی صورت میں بچہ کارڈز کسی بھی طرح رکھ سکتا ہے اور اس وقت اسے یہ سمجھانا کہ الفاظ اس طرح سیدھے ہوتے ہیں وقت ضا یع کرنا ہے- 


ابتدائی طور پر الفاظ کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے-  اور یہ تقسیم قواعد کے لحاظ سے نہیں اور نہ ہی اس طرح کہ الفاظ کتنے حروف سے ملکر بنے ہیں اور آیا کہ دو حرفی، تین حرفی یا چار حرفی ہیں- بلکہ ابتدئی اسباق کے لحاظ سے کی گئی ہے- اور ہر زمرے میں اسم، فعل، ضمیر، صفت، وغیرہ سب ہو سکتے ہیں-  اس کی وجہ وہی ہے کہ ابتدائی خاکہ نصاب کا مطلب دوسری جماعت تک کے بچے کو قواعد میں الجھانا نہیں بلکہ اسکے پڑھنے اور لکھنے کی صلاحیت کو ابھارنا ہے- اس اسلوب کا خاص مقصد بچے کی تحریری صلاحیتوں اور الفاظ سے مرکبات اور جملے بنا کر اسکی تفہیم کو بڑھانا ہے- بچہ ان کارڈز اور رنگوں کے ذریعے الفاظ کی تحریری بناوٹ سے ان کو پہچاننا سیکھتا ہے-  بچے کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ الفاظ اسم ہیں کہ فعل ہیں کہ کچھ اور-  البتہ اگر بچہ خود دلچسپی ظاہر کرے تو اس کی حوصلہ افزائی ضرور کی جاۓ - دوسری جماعت تک کا بچہ اگر خود سے پچاس ساٹھ آسان جملے بنانا سیکھ لیتا ہے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ اسے مشکل قسم کے دس بارہ جملے رٹواۓ جائیں اور وہ ان کو ہی یاد کرتے کرتے تھک جاۓ اور پڑھنے لکھنے کے عمل سے بیزار ہوجاۓ- 

پہلے زمرے میں وہ  الفاظ ہیں جو حروف کی مکمل شکل سے مل کر بنتے ہیں اور الگ الگ لکھے جاتے ہیں- یہ سارے کے سارے حروف بھی ہیں اور لفظ بھی- انھیں سرخ رنگ دیا گیا ہے کیونکہ بچے سرخ رنگ کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں اور بچہ پیدائش کے بعد سرخ رنگ سب سے پہلے پہچانتا ہے- 
آ  آج  اب  اس  ان  اف  دو  دی  دے  وہ
اور   اوہ   ذرا
First writing pattern - words with complete letters

 دوسرے زمرے میں وہ لفظ ہیں جو کہ الف، واؤ، ی  اور ے  کو ملا کر بنتے ہیں اور ان میں با بو بی بے کا رسم الخط موجود ہوتا ہے- انھیں نیلا رنگ دیا گیا ہے- جیسے کہ
سا  کا  لا  یا  تو  جو  سو  کو  ہو  جی  کی  لی  ہی  سے  کے نے ہے
رہا  ہاں  وہاں  ساتھہ  رہو  ہوں  یوں
اسی  رہی  وہی  بھی  ابھی اسے رہے

Second writing pattern - joining with ے، ی، و، ا 
Second writing pattern - words with ے، ی، و، ا 
















تیسرے زمرے میں وہ الفاظ آتے ہیں جو حروف کی آدھی اشکال کو ملا کر لکھے جاتے ہیں- انھیں سبز رنگ دیا گیا ہے- جیسے کہ
تب  جب  سب  کب  جن  جس  بس پر  کر  ہر تک  پھر
صرف  آپس  اگر طرح   تاکہ  ہرگز  شاید
Third writing pattern - words with half form of letters


چوتھے زمرے میں ان الفاظ کو رکھا گیا ہے جو ہ کی آواز پر ختم ہوتے ہیں لیکن ان کے لکھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی-  بچے اکثر انھیں الف یا 'ے' کی آواز کے ساتھ لکھتے ہیں- انھیں جامنی رنگ دیا گیا ہے-  جیسے کہ
یہ  پہ  نہ  کہ  ورنہ بلکہ

Fourth writing pattern - words ending on 'hay'


پانچویں زمرے میں وہ الفاظ ہیں جن میں تین یا تین سے زیادہ حروف کی آدھی اشکال کو ملا کر لکھا جاتا ہے-  انھیں پیلا رنگ دیا گیا ہے- جیسے کہ
یہی  کسی  بہت  ہیں میں  کیا  لئے  کچھ جلد مگر
نہیں  کبھی  کوئی  ادھر یہاں

Fifth writing pattern - words written by joining half shapes of three or more letters


ان الفاظ میں گو کوئی اسم، صفت یا ظاہر فعل نہیں ہیں- لیکن آسان اور مندرجہ بالا اسباق کے مطابق بننے والے اسماء، صفت اور فعل کے کارڈز بنا کر شامل کے جاسکتے ہیں - یا اسم کے لئے کسی بھی چیز کی تصویر یا کھلونا استعمال ہو سکتا ہے- جیسے کہ ان تصاویر سے ظاہر ہے 



















phrases and sentences 






Wednesday 15 January 2014

Introducing Parts of Speech in Montessori

White cards of size 3x3 are coded in different colours to represent parts of speech.

Nouns bordered in black
Adjective bordered in blue


















Verbs bordered in red
verbs and adverbs - adverbs bordered in yellow


















Two sets of strips are prepared to play Logical Adjective Game.  Blue strips of size 2x6 represent adjectives while black strips of same size represent nouns.  The child pairs the noun with an adjectives that describes it the best.

Logical Adjective Game - pairing nouns with adjectives

Logical Adjective Game - pairing nouns with adjectives 





Saturday 11 January 2014

Pink, Blue and Green Series - Reading Material

Pink Series 

Picture Card with matching names
Phrase and sentence


























Blue Series











Green Series 



Homograph
Rhyming Words

Double letter


Silent letters


Sentence Strip


Word List

Compound Words