Friday 30 September 2022

کہانیوں کے فائدے

 آپکے بچے آپکی ذمّہ داری ہیں-  


سب سے اہم انسان کی زندگی کی وہ کہانی ہوتی ہے جسے وہ خود لکھتا ہے-  دوسروں سے نہیں لکھواتا-  


بچوں کو کہانیاں سننے کا شوق ہوتا ہے- اور پہلے ہر گھر اور ہر خاندان میں کوئی نہ کوئی نہ کوئی ضرور ایسا ہوتا تھا جو بچوں کو ساتھ لیکر بیٹھتا اور کہانیاں سناتا-  


 ہماری باجی، ہمارے دادا ہمیں کہانیاں سناتے تھے-  


ہمارے امّی بابا اپنے بچپن کے واقعات سناتے تھے-  


ریڈیو پر شام سات بجے بچوں کے لئے ایک پروگرام ہوتا تھا جس میں ایک خاتون کہانی سناتی تھیں-  


لیکن آج ہم نے ان سے یہ شوق اور اسکا مزہ چھین لیا ہے-  گھروں میں اور خاندانوں میں ایک استاد نما اور پولیس نما کردار آگۓ ہیں-  جو بچوں کو سیدھی راہ دکھاتے رہتے ہیں-  اور بچے اتنے ہی بگڑتے جارہے ہیں-  اور اجتماعی طور پر معاشرہ بھی بگڑ رہا ہے-  


کہانیاں بہت فائدہ مند ہوتی ہیں-  


- کہانیوں کا سب سے بڑا فائدہ حقیقی زندگی میں یہ ہوتا ہے کہ بچے اور کہانی سنانے والے کے درمیان ایک خوشی کا تعلق پیدا ہو جاتا ہے-  بچے کہانی سنانے والوں کو پسند کرتے ہیں-  ان سے کھل کر بات کرتے ہیں- 

- بچے کہانیوں سے کردار کشی سیکھتے ہیں-  کون سا کردار اچھا کون سا برا-  

- بچے کرداروں کا آپس میں تعلق سیکھتے ہیں-  کس کا کس سے کیا رشتہ تھا- 

- بچے کہانیوں سے واقعات کا ربط سیکھتے ہیں-  کس نے کیا کیا-  اس کے بعد کیا ہوا-   

- بچے ایک کہانی سے دوسری کہانی کا موازنہ کرتے ہیں-  کون سی کہانی اچھی تھی کون سی بے مزہ-  کون سی لمبی کہانی تھی کون سی چھوٹی-  

- کہانی ایک ہی ہوتی ہے-  لیکن ہر بچہ اس کہانی کو سن کر اپنے ذہن میں اپنا سیٹ اپ بناتا ہے-  بادشاہ کا حلیہ-  شہزادی کا حلیہ-  جنگل کا منظر-  محل کا منظر-  سمندر کا سفر-  گھروں کا منظر-  رات کا ماحول-  دن کا ماحول-  وغیرہ وغیرہ 

- بچے سوچنا شروع کردیتے ہیں کہانی کا آغاز اور انجام-  کس کردار کا انجام کیا ہوا-  دوسرے الفاظ میں مکافات عمل-  

- بچے کہانی کے واقعات کو حقیقی زندگی کے واقعات سے موازنہ کرتے ہیں-  کوئی حادثہ-  کوئی خوشی-  کوئی غم-  کوئی تکلیف- کوئی قربانی-  کوئی فیصلہ-  

- کہانیوں سے بچوں کے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ ہوتا ہے-  گرامر اچھی ہو جاتی ہے-  جملوں کی بناوٹ-  الفاظ کا چناؤ-  محاوروں اور ضرب المثال کا استعمال- سب سیکھتے ہیں-  

- کہانیوں سے بچے لب و لہجہ بھی سیکھتے ہیں-  خوشی، خوف، دکھ، کامیابی، ناکامی، مدد، ظلم اور مختلف مواقع پر کہانی سنانے والے کی آواز کا اتار چڑھاؤ- 


بچوں کو کہانیاں مزے کے لئے سنائی جاتی ہیں-  سبق دینے کے لئے-  امتحان اور ٹیسٹ دینے کے لئے نہیں-  کہانیوں بچوں کے پاس اور فیل ہونے کا فیصلہ نہیں کرتیں-  کیونکہ یہ کام خود بخود ہو جاتے ہیں اگر بچوں کو کہانیوں میں مزہ آنے لگے-  

بچے ہانکے جانے والی مخلق نہیں

 آپکے بچے آپکی ذمّہ داری ہیں-  


اور انہوں نے جس معاشرے میں بڑا ہوا ہے وہ معاشرہ بھی آپکی ذمّہ داری ہے-  ورنہ مکافات عمل آپکے گھر اور بچوں تک پہنچے گا-   


آپکے بچوں کو بچوں کو اداروں کی نہیں بلکہ گھروں کی ضرورت ہے-  ان سے گھر چھن گۓ ہیں-  


آپکے بچوں کو کورس کی کتابوں کی ضرورت نہیں-  انکا اعمال نامہ وہ کتاب ہے جو انہوں نے خود لکنی ہے تو انہیں اعمال نامہ لکھنا سکھائیں-   


آپکو بچوں کی تعلیم کی فکر ہے تو پہلے انکی تربیت کریں-  جب اسکول کالجز دنیا میں نہیں تھے تب بچے تربیت کی بنیاد پر علم حاصل کرتے تھے اور عظیم انسان بن جاتے تھے-  آج جتنے لوگوں کا کتابوں میں ذکر ہے ان میں سے کسی کے پاس ڈگری نہیں تھی-  


آآپکے بچوں کو پیشہ وروں کی نہیں انسانوں کی ضرورت ہے-  لیکن آپ خود گدھے بنے ہوۓ ہیں اور بچوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح گھر سے اسکول اور اسکول سے گھر ہانکتے رہتے ہیں-  انہیں انسان بننے کا وقت کہاں ملتا ہے-  


بچوں کی تعلیم کی فکر ہے تو انکو روزانہ کہانیاں سنانے کا وقت نکالیں-  ان کو سچے واقعات سنائیں-  انکو بیماروں کی عیادت کے لئے ساتھ لے کر جائیں-  انکی خوشیوں میں دکھاوے کے بجاۓ مستحقین کو شامل کریں-  ان کے ہاتھ سے لوگوں کو فیض پہنچائیں-  انکو معاف کرنا سکھائیں-  انکو معافی مانگنا سکھائیں-  


بچوں کو اپنے عمل کی ذمّہ داری لینا سکھائیں-  انکو بلاوجہ بچائیں نہیں-  کراچی میں خاص طور پر یہ رویہ ہے کہ دوسروں پر بات ڈال دیتے ہیں-  دوستی دوستی، محلّے داری، رشتہ داری، جان پہچان، کاروبار، تعلیم-  ان سارے معاملات میں کوئی بھی مسلہ ہو دوسرے کو پھنسا دیتے ہیں-  خود کو بچا لیتے ہیں-  


"میرے بچے نے نہیں کیا-  ٹیچر ایسی ہوگی-  فلاں خاتون ہیں ہی ایسی-  آپ تو نہیں چاہتے تھا مگر میں نے ہی خیال کیا..." 


ایسے سینکڑوں جملے معاشرے میں دن رات گردش کرتے رہتے ہیں-  بچے دوسروں پر الزام ڈالنے والا رویہ دیکھتے دیکھتے بڑے ہوجاتے ہیں-  پھر مختلف شعبوں میں اپنے اسی رویے سے معاشرے میں تباہی لاتے ہیں-  جیسے کہ سیاستدان-  


يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا اتَّقُوۡا اللّٰهَ وَقُوۡلُوۡا قَوۡلاً سَدِيۡدًاۙ‏ 

اے ایمان والوں-  ڈرو اللہ سے اور سیدھی بات کہا کرو-  

سوره الاحزاب آیت ٧٠ 


اپنے بچوں کو سیدھی بات کہنا سکھائیں-  ان سے سیدھی بات کیا کریں-  گھما پھر کر بات نہ کریں اور نہ انہیں کرنے دیں-  


اپنے بچوں کے ساتھ جینا سیکھیں-  تاکہ وہ بڑے ہو کر آپکے ساتھ جئیں- 

Tuesday 20 September 2022

سچّے خواب

 آپکے بچے آپکی ذمّہ داری ہیں-  


انکی تعلیم و تربیت کے معاملے میں کسی پر بھروسہ نہ کریں-  بچوں کی زبان، انکے الفاظ، انکے لہجے، انکے جملے-  سب آپکی ذمّہ داری ہیں-  اور اگر آپ ان سب سے لاتعلقی اختیار کرتے ہیں-  تو پھر معاشرے کو اسکا ذمّہ دار نہ ٹھرائیں-  نہ نظام کو برا بھلا کہیں-  نہ نظام چلانے والوں پر انگلی اٹھائیں-  


کیونکہ آپکے بچے ہی بڑے ہو کر نظام چلنے چلانے میں حصّہ لیتے ہیں-  جسطرح کی تربیت ہوتی ہے وہی وہ معاشرے کو لوٹا دیتے ہیں-  


بچوں کی تربیت میں جو سب سے اہم چیز ہے وہ ہے "نہ بکنے کی صلاحیت"-  نہ خود بکیں اور نہ ہی اپنے بچوں کو بکنے دیں-  کیونکہ ایسے بچے بڑے ہوکر پہلے گھر اور خاندان کی عزت اور پھر ملک و قوم تک بیچ دیتے ہیں-  


انہیں بتائیں کہ پیسہ عزت و غیرت سے بڑھ کر نہیں ہوتا-  عزت و غیرت کے نقصان پیسہ کے نقصان سے بڑھ کر ہوتا ہے-   


بالکل ایسے ہی-  جیسے عزت و غیرت کی دولت سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں ہوتی-  اسکی آزمائشیں بہت زیادہ شدید ہوتی ہیں-  


زندگی وقت ہے جو دیا گیا ہے معاملات کو صحیح آپشنز کے ساتھ ڈیل کرنے کے لئے-  صحیح آپشنز کو استعمال کرنا جسے اسلامی اصطلاح میں "حکمت" کہا جاتا ہے-  تو پھر بچوں کو ہر معاملے میں آپشنز اور صحیح آپشن کے انتخاب کا طریقہ سمجھائیں-  


رَبِّ هَبۡ لِىۡ حُكۡمًا وَّاَلۡحِقۡنِىۡ بِالصّٰلِحِيۡنَۙ‏

اے رب مجھے عقل و دانش عطا فرما 

اور مجھے صالحین سے ملا دے-

سوره الشعراء آیت ٨٣

 

بچوں کی آسانی کے لئے-  


- اتوار کے دن کیا آپشنز ہیں دن گزارنے کے لئے؟  اور بہترین کون سے ہیں-  


- ایک ہزار روپے بچ گۓ ہیں انہیں خرچ کرنے کے آپشنز اور بہترین آپشنز کیا ہیں-  


- سالگرہ منانے کے لئے کیا کیا آپشنز ہیں اور بہترین کون سے ہیں-  


- آج دو گھنٹے کی فرصت ہے-  اس فرصت کو استعمال کرنے کی کیا آپشنز ہیں اور کون سی ہیں-  


- آج شاپنگ جانا ہے-  کن بہترین آپشنز کے ساتھ-  


-  گھر کی صفائی کرنی ہے تو کیا پلان ہو سکتے ہیں-  کہاں سے شروع کریں-  کون کیا کرے-  کتنے وقت میں کام ختم کرتے ہیں-  


اور ایسے ہی بہت سے معاملات بچوں کو سکھانے ہوتے ہیں-  اور یہ کوئی استاد نہیں سکھا سکتا-  یہ ذمّہ داری ہے والدین کی-  اور خاص طور پر والدہ کی-  ایسے ہی تو نہیں ماؤں کے قدموں کے نیچے جنّت رکھی-  ایسے ہی تو نہیں ماؤں کو باپوں پر تین درجے فوقیت دی گئی-  


اور ایسے ہی تو نہیں رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ "علم حاصل کرنا ہر مرد و عورت پر فرض ہے"-  


تو ان خوابوں سے نکلیں جو زمانہ آپ پر مسلّط کرتا ہے کیونکہ وہ جھوٹے خواب ہیں-  اور ان خوابوں کی تعبیر ڈھونڈیں جو اللہ ربّ العزت آپکو دکھاتا ہے-  انبیاء علیھم السّلام نے آپکو دکھاۓ ہیں-  کیونکہ وہ سچّے خواب ہیں- 

Sunday 4 September 2022

آسان پڑھنا لکھنا

 مسلہ یہ ہے کہ تعلیم کے بجٹ پر دن رات اعتراض کرنے والی قوم کو تعلیم کی فکر کتنی ہے؟  انکے نزدیک تعلیم کا مقصد اور حاصل کیا ہے؟  


کیا انکے نزدیک تعلیم کا مقصد بچوں میں علمی اور تحقیقی اور زندگی گزرنے کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا اور سخصیت کو سنوارنا ہے یا ڈگری لیکر ملازمت کے لئے خوار ہونا؟   


پچھلے چند سالوں میں علمی طور پر جس زبان کا سب سے زیادہ بیڑہ غرق ہوا ہے وہ ہے "اردو" زبان-  


چار پانچ زبانوں کے الفاظ پر مشتمل ایک وسیع زبان-  جس کو اردو کے اہل زبان نے لاوارث چھوڑا-  لبرلز نے اسے حقیر جانا-  اور اب سوشل میڈیا اسکو ڈبونے کے در پے ہے-  


اہل زبان نے اردو کو کافی عرصے سے "طنز و مزاح، جگت بازی اور چٹکلوں" کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا تھا-  


لبرلز ویسے ہی اس میں بھارتی ہندی کا تلفّظ اور لہجہ شامل کر دیتے ہیں-  کیونکہ یہ فیشن میں ہے-  خاص کر اگر تعلق کراچی سے یا شو بز سے ہو-   اچھی اردو بولنا انکے لئے شرمندگی والی بات ہوتی ہے-  


 رہ گیا سوشل میڈیا- تو سوشل میڈیا والوں نے تو الفاظ کی ایسی شکل بگاڑی ہے کہ انکے حروف ہی بدل دئیے-  یہ صرف کام چلاتے ہیں-  کام اچھا یا خراب ہونے سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی- 


اپنے بچوں کو اس جہالت سے بچانے کے لئے کوئی جدید مغربی طریقوں کی ضرورت نہیں-  


سیدھے سیدھے دو بہترین طریقے سالوں سے رائج تھے اور وہی کافی تھے-  ہماری امّی زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھیں-  لیکن گھر میں وہ ہم کو انہی دو طریقوں سے پڑھاتی تھیں-  اور آگے ہم نے بھی جس جس کو ان دو طریقوں سے پڑھایا اسے فائدہ ہوا-  


١) الفاظ کی ہجے     ٢) املا 


یاد رکھیں کہ بچوں یا بڑوں کی خواندگی یعنی پڑھنے لکھنے کی صلاحیت کو بہتر بنانے کے لئے صرف روزانہ کے تیس منٹ کافی ہیں-  یعنی نوّے منٹ یا ڈیڑھ گھنٹہ روزانہ میں بچہ اردو، عربی اور انگریزی سیکھ سکتا ہے-  لمبے چھوڑے الٹے سیدھے طریقوں سے صرف وقت ضائع ہوتا ہے-  نہ اسکا امتحان لینے کی ضرورت ہے-  نہ ایکسٹرا ورک کی-  صرف ایک تسلسل چاہئے اور ایک آسان نصاب-  جس میں کورس کی کتابیں شامل نہ ہوں-  


١) الفاظ کی ہجے-  یعنی ایک لفظ میں کون کون سے حروف ہیں-  اس سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ کچھ ہم آواز حروف یاد ہو جاتے تھے کہ کون سا حرف کس لفظ میں ہے-  اور اس طریقے کی ضرورت پہلی سے تیسری چوتھی جماعت تک پڑتی ہے-  اسکے بعد اسکی ضرورت نہیں پڑتی-  


مثلا.... س، ص، ث     ذ، ض     ا، ع    ت، ط     ہ، ھ، ح     گ، غ، خ، ک، ق    


منع، طعنہ، صورت، سورة، سیف، صیف، مثال، مصالحہ، تعلق، حلوہ، گزرنا، ذرّہ، ذرا، ذہین، زیادہ، عزت، ذلّت، زمانہ، صلہ، سلسلہ، ثلاثہ، ثالث، بعد، باد، زہر، ظہر، زھرہ، ذخیرہ، بغل، بگل، بہل، بهل، بھالہ، بحال، بہرحال، لہٰذا، بالکل، تارا، طاری, سہرا، صحرا، بیت، بیعت، بعید، بید 


اور ایسے ہی کتنے الفاظ ہیں جو آجکل غلط لکھے جارہے ہیں کیونکہ پڑھے اور بولے غلط جارہے ہیں-  کیونکہ اسکولز میں کچھ سکھایا نہیں جاتا اور گھروں میں فرصت نہیں-  


بچے کو روزانہ پانچ الفاظ کی ہجے یاد کرادیں تو ہفتے ہیں پینتیس، مہینے میں ڈیڑھ سو اور سال میں تقریبا دو ہزار الفاظ کی ہجے یاد کروائی جاسکتی ہے جو کہ ایک اچھا خاصہ الفاظ کا ذخیرہ ہے-  


ابتدائی مراحل میں اگر ان الفاظ سے شروع کیا جاۓ جن میں حروف مکمّل شکل میں موجود ہوتے ہیں تو بچوں کے لئے آسان بھی ہوتا ہے اور انہیں تعلیم سے بیزاری نہیں آتی-  لیکن والدین اور اسکول جلدی جلدی سکھانے کے چکّر میں یہ عمل انکے لئے مشکل بنادیتے ہیں-  حالانکہ میٹرک تو وہ دس سال بعد ہی کریگا اور وہ بھی پچاس سال پرانے کورس پر-  


جو پرائیویٹ اسکولز دیںگے وہ "امپورٹڈ" ہوگا-  جس پر بھروسہ کرنا حماقت ہے-  


مثال کے طور پر مندرجہ ذیل تقریبا دو سو الفاظ...


 آ    آج   آپ   آم   آر   اب  آس    اب   اٹ   اڑ   اس  ان  اے   اف   دب   در  دس   دف   دل  دم   دن   دو   دی   دے    ڈٹ   ڈر   ڈس   ڈش    رب   


 رت   رٹ   رج   رچ   رخ   رد   رس  رش   رک  رگ   رل  رن   رو   رہ   ری  رے    زچ   زد   زر   زک   زم   زن    وا  وہ     


آدم   آرا   آری   آرے   ارے   اڑا   اڑی   آڑے   اڑو   آڑو   ادا   ادب   ارب   اذن   ارم   اوٹ   اور   اوس   اون   اوہ    داب   داد   دار   داغ   دال   دام   درد   


درج   درس   دری   دوا    دور    دوڑ    دوش    ڈاک   ڈال   ڈرا   ڈرو   ڈوب   ڈور    ڈول   ذات   ذرا    رات  راج   راز   راگ   رال   رام   ران   راہ   ردا   


روا   روح   روک   روگ   رول   روم   روی   رزم   رزق    زاد   زار    زرد   زوج   زود   زور    وار   واہ   ورد   ورق   ورم    وزن      


آداب   آرام   آزاد   آزار   آواز   اداس   اذان   اڑان   ادرک   اردن   اردو   اروی   اودا   اودی   اودے    اوڑھ   دادا   دادی   داڑھ   داور   دراز  درزی  درزن  


دروغ   دودھ   دوری   دورے   دورہ    دوڑا   دوڑے   دوڑی    ڈورا  ڈوری   ڈورے    راوی   رازی   وزہ  روزے   رواج    زردی  زردہ   زردے    زوال    وارث   


وارد   وادی   واری   وارو   وداع   وردی   وردہ  


 آزاری  آوارہ   ادراک   ادوار   ادارہ   ادارے   ادارت   ارادہ    ارادی   ارادے   ارواح    ازواج    اڑادی   اڑادو   اڑادے    اوزار   اوراق    اوزان   روزوں    دوروں   دوڑوں   روزوں    وزارت    وزراء  


زرداری    اداروں   ارادوں  آوازوں   


رازداروں    زرداروں    اوزاروں    آہ و زاری    رازداری 


 روزہ داروں 



٢) املا یا ڈکٹیشن-  یعنی بغیر دیکھے-  صرف سن کر الفاظ یا جملے یا مضمون لکھنا- 

اس عمل کا پہلا اقدام ہوتا ہے پڑھنا-  اگر بچے کو صحیح طریقے سے الفاظ یا جملے پڑھاۓ گۓ ہیں تو وہ لکھے گا بھی صحیح-  


املا لکھنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بچے کی سننے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ یاداشت بھی بہتر ہوتی ہے-  اور یہ املا ایک طریقہ کا ٹیسٹ ہی ہوتا ہے جو کہ امتحانات سے بدرجہ بہتر ہوتا ہے اور بہتر نتائج دیتا ہے-  


امتحانات کا مقصد تو بچوں کو ایک ذہنی تشدّد سے گزارنا ہے-  ایک خوف سارا سال ان پر طاری رکھنا-  


اگر والدین کو اپنے بچوں سے ہمدردی ہے اور انکی مستقبل کی کوئی فکر ہے تو انہیں خود اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرنا ہوگا-  


دنیا اسی طرف جا رہی ہے-   پاکستان میں جو اس وقت صورتحال پیدا کی گئی ہے سیلاب لا لا کر-  یہاں تو لوگوں کو دو وقت کی روٹی اور دو جوڑی کپڑے کے لالے پڑے ہیں- جوتے تک نہیں پہننے کے لئے- اب تعلیم کو کون  پوچھے گا؟ 



Saturday 3 September 2022

زندگی کا مقصد

 بچوں کو زندگی کا مقصد بتانا بھی ضروری ہے-  لیکن وہ بڑوں کی طرح نہ زندگی سمجھ سکتے ہیں نہ اسکا مقصد-   


اسکے لئے بچوں کو ترجیحات سکھائی جاتی ہیں-  کام کرنا سکھایا جاتا ہے-  زندگی کا مقصد ہی کام ہے-  اچھے کام-  کون سا کام فرض ہیں-  کون سے کام ضروری ہیں-  کون سے غیر ضروری یا محض انٹرٹینمنٹ-  زندگی انٹرٹینمنٹ نہیں ہوتی-  انٹرٹینمنٹ زندگی کا ایک چھوٹا سا حصّہ ہوتا ہے-  


بچوں کو انکی اپنی اہمیت کا احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ اس گھر اور خاندان کے لئے کتنے اہم ہیں-  اور اس گھر کی خوشیوں میں انکا کیا حصّہ ہے-  گھر کے کتنے لوگ اس بچے کے لئے کیا کر رہے ہیں-  اور کیوں کر رہے ہیں-  

 

بچوں کو ارد گرد کی چیزوں اور لوگوں کی اہمیت بتائی جاتی ہے-  دن کی اہمیت-  رات کی اہمیت-  اللہ پاک کی بنائی ہوئی نعمتوں کی اہمیت-  ہر نعمت کا احساس کرنا-  نعمتوں پر شکر کرنا-  نعمتوں کو دوسروں کے ساتھ بانٹنا-  


بچوں کو سچّی کہانیوں سے زندگی کی سمجھ آتی ہے-  وہ کہانیاں جو وہ سنتے ہیں-  دیکھتے ہیں-  آس پاس کے واقعات سے محسوس کرتے ہیں-  لوگوں کو ہنستے ہوۓ یا روتے ہوۓ دیکھتے ہیں-  


یہی ہوم اسکولنگ ہے-  


ہوم اسکولنگ

اپنے بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو محدود نہ کریں-  ہر بات پر نہ نہ کر کے-  اور ہر بات سے ڈرا کر-  


والدین کی اکثریت خود ان میں سے کسی بات پر عمل نہیں کرتی جو وہ اپنے بچوں میں دیکھنا چاہتے ہیں اور روزانہ اس پر لیکچرز دے رہے ہوتے ہیں-  


"اتنی سی عمر میں قرآن نہیں پڑھ سکتا-  اتنی سی عمر میں اتنی دعائیں کیسے یاد کریگا-  اتنی سی عمر میں انبیاء علیھم السّلام کے قصّے نہیں سن سکتا- ابھی چھوٹا ہے سمجھ نہیں ہے-  بس یہ سوالات کر سکتا ہے اس سے زیادہ نہیں-  اتنے قاریوں سے پڑھا کہ کچھ سیکھ ہی نہیں سکا-  اتنی ٹیچرز نے پڑھایا کہ جو آتا تھا وہ بھی بھول گیا-  انگلش میں ویڈیو کیسے دیکھے اسے تو انگلش سمجھ ہی نہیں آئیگی-  بلاوہ عربی کا بوجھ ڈالیں کون سا اسکا امتحان ہوتا ہے-  حساب تو ہمیں اتنا مشکل لگتا تھا ان بچوں کے لئے تو اور بھی مسلہ ہے- اسے نہ چھوؤ-  اسے نہ چھیڑو-  یہ نہ کرو-  وہ نہ کرو-  ادھر نہ بیٹھو-  وہاں نہ جاؤ-  اس سے نہ ملو"-  وغیرہ وغیرہ وغیرہ 


حقیقت یہ ہے کہ اتنی سی ہی عمر میں بچہ بہت کچھ سیکھ چکا ہوتا ہے-  اچھی چیزوں اور اچھی باتوں کو بچوں کی یاداشت کا حصّہ بنائیں-  کیونکہ بچہ بڑوں سے زیادہ سیکھتا ہے-  سمجھ بھی لیتا ہے-  بس اکثر اظہار نہیں کر پاتا-  بیان نہیں کر پاتا-  بتا نہیں پاتا-  


اسے مسائل کو حل کرنا سکھائیں-  نہ کہ اپنے خواب، اپنی خواہشوں کو بچوں کے لئے مسلہ بنا دیں-  


اگر بچے نے چار قاریوں سے پڑھا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کریں کہ "اس کو چار قاریوں سے سیکھنے کو ملا"-  یا اسی طرح اگر کوئی اور سبجیکٹ چھ سات ٹیچرز سے پڑھنے کو ملا ہو-  کیونکہ ہر استاد کا اپنا انداز ہوتا ہے-  اس میں اساتذہ کا قصور کم ہوتا ہے-  اگر وہ مخلص ہوں-  اور والدین کا زیادہ کیونکہ انکی توقعات ساری کی ساری اساتذہ سے ہوتی ہیں-  کہ وہ بچوں کو جادو کی چھڑی سے سب کچھ سکھا دیں-  


والدین اگر توجہ دیں تو ساری کی ساری پری اسکول کی تعلیم بچا شروع کے تین چار سالوں میں سیکھ سکتا ہے-  نرم یا سخت، ہلکا یا بھاری، گیلا یا خشک، گرم ٹھنڈا، اوپر یا نیچے، دائیں بائیں، آگے پیچھے، آہستہ یا تیز، کم یا زیادہ، چھوٹا یا بڑا، صاف یا گندا، رنگوں کے نام، پھلوں کے نام، سبزیوں کے نام، جسم کے حصّوں کے نام، گھر کے حصّوں کے نام، رشتے، پیشے، موسم، اوقات، خریدنا بیچنا، بھاگنا رکنا، ادب آداب، عبادات اور نہ جانے کون کون سے الفاظ اور علم-  


کیا ضروری کہ اس مفت کے علم کے لئے ایک تو بچے کو اسکول کی عمر سے پہلے ہی گھر سے باہر پھینک دیا جاۓ-  دوسرے خواہ مخواہ ہزاروں روپے کے اخراجات بڑھا کر خود کو معاشی مصیبت میں ڈالا جاۓ-  اور تیسرا بچے کے ساتھ تعلق مضبوط کرنے کے بجاۓ کمزور کر دیا جاۓ-  چوتھے یہ کہ اس بنیادی تعلیم کی وجہ سے گھر کو بھی اسکول اور ماں باپ کو بھی استاد بنا دیا جاۓ-  پانچویں یہ کہ بچوں کو ان کے کھیل کود کے وقت سے محروم کردیا جاۓ اس مستقبل کے لئے جسکا کچھ نہیں پتہ کیا ہو-  


اور کیا ضروری کہ بچہ صرف اردو انگلش ہی سیکھے-  ہر زبان اللہ کی زبان ہے-  


اور کیا ضروری کہ اتنا ہی سیکھے جتنا بتا دیا گیا ہے-  انسان کا ذہن لامحدود ہے-  


اور انہی سے سیکھے جن کو پیسے دئیے گۓ سکھانے کے لئے-  ہر جگہ، ہر وقت، ہر شخص، ہر ملک، ہر قوم, ہر چیز، ہر عمل بچے کو کچھ نہ کچھ سکھاتا رہتا ہے-  بشرطیکہ اسکے ارد گرد بڑے اسے فضول نہ سمجھیں-  


اپنے بچوں کو اپنے ساتھ رکھیں-  خود سمجھائیں-  خود بات کریں-  ایسے کام کریں کہ بچوں کو اپنی مثالیں دے سکیں-   

Saturday 27 August 2022

Order Creates Order

 والدین کے پاس اپنے بچوں کو اچھا انسان بنانے کے بہت سے مواقع مل جاتے ہیں-  


گھر کے اندر سلام و دعا کا رواج-  قرآن کی تلاوت اور نماز اور دعاؤں کا اہتمام-  گھر کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد-  


گھر کے باہر سلام و دعا کا رواج-  گھر اور مسجدوں کا رابطہ-  گھر سے باہر ماحولیات کی ذمّہ داری-  گھر سے باہر عوامی جگہوں اور چیزوں کی ذمّہ داری-  


اسکول میں اساتذہ کے پاس یہ مواقع نہیں ہوتے اور ہونے بھی نہیں چاہئیں-  


استاد کی ذمّہ داری علم دینے کی ہے-  علم پر تحقیق کرنے کی ہے-  تعلیم کا نظام بنانے کی ہے-  اور یہ بہت ہے-  


استاد کو ماہر نفسیات، ڈاکٹر، آرٹسٹ، ناچ گا کر بچوں کو بہلانے والا کھلونا، مولوی، سماجی کارکن، ماں باپ، ماسی، غلام وغیرہ بنانے سے گریز کریں-  ورنہ نقصان آپکے بچے اور آپکا ہوگا-  


اسکولوں کو کلینک، لائبریری، اسٹوڈیو، آرٹس کونسل، کھیلوں کا اکھاڑا، مسجد، خیراتی ادارہ، گھر وغیرہ بنانے سے گریز کریں-  


تمام والدین ذرا سوچیں-  کہ کیا استاد کا گھر اور خاندان نہیں ہوتا؟  استاد غلام نہیں ہوتا-  یہ استاد کے ساتھ ظلم ہے کہ آنے جانے کا وقت شامل کریں تو وہ دس دس گیارہ گیارہ گھنٹے کی جان توڑ ملازمت کرے-  نہ گھر کے رہتے ہیں نہ اسکول کے قابل-  


والدین کو چاہئے کہ مطالبہ کریں کہ تعلیمی عمل تین چار گھنٹے سے زیادہ کا نہ ہو-  جس میں بہت ہی ضروری مضامین پڑھاۓ جائیں-  تاکہ استاد گھر کی زندگی بھی انجواۓ کرے-  اور بچے بھی گھر جا کر کچھ سکھ کا سانس لیں-  


باقی مشاغل کے لئے معاشرے میں جگہیں ہونی چاہئیں-  کھیلوں کے میدان-  لائبریریاں-  کمپیوٹرز سیکھنے کے ادارے-  وغیرہ 


یہی وہ کاروبار ہوتے ہیں جن سے معاش ملتی ہے-  روزگار بنتا ہے-  یہ سب کچھ مفت میں اسکول میں ملے گا تو نہ تو بچہ ان سے سیکھ سکے گا اور نہ انکا لطف اور فائدہ اٹھا سکے گا-  


آج بچے اردو بھی صحیح لکھ اور بول نہیں پاتے-  کیونکہ صبح سے شام سات آٹھ گھنٹے کی مزدوری کرتے ہیں بے چارے-  تھکی تھکائی غلام ٹیچرز کی ڈگڈگی پر ناچتے ہیں جو انہیں اسکول کی مینجمینٹ نے تھمائی ہوتی ہے-  


اپنے بچوں کو ان سب بے ہودگیوں سے نکال کر ایک آزاد اور با صلاحیت انسان بنانے میں اپنا کردار ادا کریں-  انکو حسن بیان سکھائیں-  انکو کھیلوں کے اصول سکھائیں-  زندگی میں نظم و ضبط پیدا کرنا سکھائیں-  انکو قرآن کے اور سچّے قصّے کہانیاں سنائیں-  انکے ساتھ وقت گزاریں-  انکو سیر کے لئے لے جائیں-  


اللہ نے بچے آپکو دئیے ہیں-  اس لئے انکی ذمّہ داری آپ اٹھائیں-  


جب والدین ہی اپنے بچوں سے بیزار ہوں اور ان سے دور بھاگیں گے تو بھلا اور کون ان سے مخلص ہوگا؟ 


ویسے تو اب جو حالات پیدا ہو چکے ہیں بدتر اور جسکا پورا معاشرہ پوری قوم ذمّہ دار ہے-  قدرت خود بخود اسی طرف لیکر جارہی ہے کہ قوم کو دھوکہ دینے کے لئے بناۓ جانے والے ادارے برباد ہو رہے ہیں-  


جس چیز اور جن لوگوں کی دنیا کو ضرورت نہ ہو وہ ضائع اور تباہ ہی ہو جاتی ہیں-  اور جن نعمتوں کی قدر نہ کی جاۓ وہ چھن جاتی ہیں-  وقت بھی ان میں سے ایک ہے-  وقت اپنے برباد کرنے والوں کو برباد کر کے چھوڑتا ہے-  


خود کو اور اپنے بچوں کو دنیا کے قابل بنائیے-  اللہ کی دنیا کو ایک نظم و ضبط والا نظام-  کیونکہ ایک عالم نے کہا تھا  


Order creates order.

Disorder creates disorder.  

Monday 8 August 2022

اسکول جانے سے پہلے

 اپنے بچوں کو بڑا آدمی بننے کے خواب نہ دکھائیں-  

 

اچھا انسان بننے کے خواب دکھائیں-  

 

کیونکہ اچھا آدمی ہی بڑا بھی ہوتا ہے-   


اپنے بچوں کو مستقبل میں بڑے کام کرنے کے خواب دکھانے کے غم میں مبتلا کرنے کے بجاۓ اسی وقت چھوٹے چھوٹے کام کرنے کی خوشیاں دیں-  کیونکہ بڑے کام تعداد میں کم اور چھوٹے کام تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں-  اور یہ چھوٹے چھوٹے کام دوسروں کی تعریف حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ اللہ کی رضا اور دل کا سکون حاصل کرنے کے لئے ہوتے ہیں-  اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ لوگ ان چھوٹے کاموں کو اہمیت دیتے ہیں یا نہیں-  

 

ہمارے معاشرے کو بڑا آدمی بننے کے خوابوں نے بہت چھوٹا اور غیر محفوظ بنادیا ہے-  جو معاشرے کے طے کردہ اصولوں کے مطابق 'بڑا آدمی" نہیں بن پاتا وہ حسرت و یاس میں مبتلا ہو جاتا ہے-  ناشکرا ہو جاتا ہے-  اسکا اپنی صلاحیتوں سے اعتبار آٹھ جاتا ہے-  اسکا اپنی نیکیوں سے یقین آٹھ جاتا ہے-  وہ اپنے اوپر نازل ہونے والی کروڑوں خیر و برکات کو نظر انداز کردیتا ہے-  رب سے  شکوہ-  لوگوں کی شکایتیں-  حکمرانوں پر الزامات-  زمانے کو برا کہنا-  

 

بچوں کو آزاد رہنا سکھائیں-  اپنے بچوں کے عقائد اپنے گھروں میں مضبوط کریں-  اپنے بچوں کا ایمان اپنے گھروں میں پختہ کریں-  اپنے بچوں کی تربیت کی ذمّہ داری آپکی ہے تو اسے خود پورا کریں-  اپنے بچوں کی ابتدائی تعلیم کا انتظام اپنے گھروں میں کریں-  اپنے بچوں کے اخلاق خود سنواریں-  اپنے بچوںکو  ادب، عزت و احترام کرنا اپنے گھروں میں سکھائیں-  اپنے بچوں کو سوال کرنا اپنے گھروں میں سکھائیں-  


اپنے بچوں کو چیزوں کا احترام سکھائیں-  چیزیں استعمال کرنے کے لئے ہوتی ہیں-  ضائع کرنے کے لئے نہیں-  خراب کرنے کے لئے نہیں-  ہمارے آس پاس کے وسائل پر دوسروں کا بھی حق ہے-  دوسروں کو انکے حق سے محروم کر کے ہم دوسروں کو ہمارے حق سے محروم ہونے کی اجازت دے رہے ہوتے ہیں-  


اپنے بچوں کو اپنے کام سے کام رکھنا سکھائیں-  سواۓ اس وقت کے کہ کسی کی جان پر بنی ہو-  کوئی شدید تکلیف میں مبتلا ہو-  کسی پر کوئی حادثہ گزرا ہوا-  کسی کا کوئی بہت بڑا نقصان ہو گیا ہو-  معاشرہ مصیبت میں ہو-  ماحول آلودہ ہو-  انسانیت خطرہ میں ہو-  ظلم ہو رہا ہو-  لوگوں کا حق مارا جا رہا ہو-  


اپنے بچوں کو اچھے لوگوں کی سچی کہانیاں سنائیں-  اس پر بحث کریں-  کہانی میں برے کردار اچھے ہوتے یا اچھے کردار برے ہوتے تو کیا ہوتا-  اچھے کے اچھے ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے-  برائی کو ختم کرنا کیوں ضروری ہے-  


یہ سب کچھ کریں اس سے پہلے کہ آپکا بچہ اسکول جانے کے قابل ہو-  یہی اصل ہوم اسکولنگ ہے- 


ورنہ آپکا بچہ گھر سے باہر وہ سب کچھ سیکھے گا جس پر آپ بعد میں پچھتاتے ہیں-  

Saturday 2 April 2022

بچوں کی تعلیم

 اللہ کا لاکھ لاکھ شکر احسان کہ ہماری ماؤں کو اس نے شعور عطا فرنایا-   امّی نے ہمیشہ اس بات کا احساس دلایا کہ "ہم تمہیں تعلیم اس لئے دلوا رہے ہیں کہ کل تمہیں اپنی اولادوں کے لئے دوسروں کے آگے خوار نہ ہونا پڑے"- 


اور یہ بات ہم بہن بھائیوں نے یاد رکھی اور اپنے بچوں کو صرف اسکولوں کے آسروں پر نہیں چھوڑا-  ٹیوشنز کبھی نہیں دلوائیں-   خود ہی ان پر توجہ دی-  تعلیمی عمل میں انکو وقت دیا-  


بچوں کی تعلیم و تربیت والدین کا فرض ہے-  


بالخصوص کرونا وائرس کا بعد سے جو دنیا کے حالات چل رہے ہیں اب وہ پلٹنے والے نہیں-  اور آگے بہت چیلنجز قطار لگاۓ کھڑے ہیں- 


ایسے میں والدین کو دوبارہ اپنی ذمّہ داری سنبھالنی ہوگی-  ورنہ یہ نسل اور آگے کی نسلیں جہالت اور گمراہی کی نظر ہو جائیں گی-   


اب زمانہ واپس ہوم اسکولنگ پر آگیا ہے-  ہوم اسکولنگ کوئی نئی چیز نہیں-  اسکولز نہ ہونے سے پہلے لوگ گھروں میں ہی تعلیم دیا کرتے تھے-  


باہر ملکوں میں پچھلے پچیس تیس سالوں میں بہت سے لوگ ہوم اسکولنگ کو ترجیح دینے لگے اور اپنے بچوں کو اسکولوں سے ہٹا لیا-  کیونکہ انہیں اس حقیقت کا اندازہ ہو چکا تھا خاص طور پر سرکاری اسکولز بچوں کی زندگی، انکی اخلاقیات، انکی شخصیت برباد کرنے کے لئے استعمال ہو رہے ہیں-  


بد قسمتی سے پاکستان میں لوگ ابھی تک پرائیویٹ اسکولز کی تعلیم اور انگریزی زبان کو ہی ترقی کا راستہ سمجھتے ہیں-  اور سرکاری اسکولز کو بہتر بنانے میں اپنا کوئی کردار بھی ادا نہیں کرتے-  

Friday 3 April 2020

پھول اور خوشبو جیسے لوگ

میری نانی بہت سیدھی سادھی خاتون تھیں-  اپنے زمانے کی ٩٩ فیصد خواتین کی طرح گھر سے تنہا اور بلاوجہ نکلنے کی عادت نہیں تھی انہیں-  حیا اور پاکیزگی کی علمبردار-  نانا کے زندگی میں ایک مرتبہ ڈولی والے نے ایک گلی آگے چھوڑ دیا تو پریشان ہو گئیں کہ یہ کہاں چھوڑ گیا-  اسی لئے کبھی ہمارے ساتھ گھومنے پھرنے نہیں گئیں کہ پتہ نہیں وہاں کون ہوگا-  

ہمّت اتنی تھی کہ نانا کے انتقال کے بعد ساری زندگی انکی محبّت میں گزار دی-  عصر وقت اکثر مناجات پڑھتیں تو نانا سے بھی مناجات کی طرح گفتگو کرتیں- باجی بتاتی ہیں کہ ١٩٧١ کی جنگ میں جب سائرن بجتا تو نانی امّی سارے بچوں کو لے کر بیڈ کے نیچے گھس جاتیں اور سب کو کہتیں کہ کپڑا منہ میں رکھ لو-  دعائیں کرتی رہتیں-  

محبّت اتنی کہ اپنی اولادوں اور پھر انکے بچوں کے لئے بھی پریشان ہو جاتیں-  چوٹ نہ لگ جاۓ-  گر نہ جاۓ- کوئی لے نہ جاۓ-  کھو نہ جاۓ-  سو گیا کہ نہیں-  جاگ گیا کہ نہیں-  کھانا کھا لیا کہ نہیں-  اسکول سے آگیا کہ نہیں-  دیر کیوں ہو گئی-  طبیعت خراب تو نہیں-  دوا کھلادی دی کہ نہیں-  ہزاروں فکروں میں گھری ہوتیں لیکن تمام فکریں دوسروں سے متعلق-  

عزت اتنی تھی کہ انکے صبر، حیا اور سمجھداری کی وجہ سے محلّے والے ادب کر تے تھے-  خود تو محلّے میں جاتی نہیں تھیں-  خواتین ہی آتی تھیں کہ بچے کے سر پر ہاتھ رکھ دیں تو اسے شفاء مل جاۓ گی-  یا گھریلو حالات ٹھیک ہونے کی دعا دے دیں-  وغیرہ وغیرہ-  سوشل نہیں تھیں اور نہ ہی بلاوجہ باتیں کرنے کی عادت-  اس لئے کام کی بات ختم ہوتے ہی محلّے والیوں کو گھر بھیج دیتیں-  خواتین بھروسہ کرکے اپنی امانتیں بھی رکھوا جاتیں-  

نانی امّی کے بچپن کے زمانے کے کھانے بڑے سادے ہوتے تھے-  اس وقت لوگ پراٹھا یا روٹی اچار، مختلف قسم کی چٹنیوں اور آم سے بھی کھا لیا کرتے تھے-  سفید چاول بچ جائیں تو دوسرے وقت اس میں دودھ چینی ڈال کر کھا لیتے-  روٹیاں بچ جاتیں تو انکو دال اور مصالحہ میں ڈال کر گھٹالہ بنا لیا جاتا- سوجی کے حلوے کے ساتھ پوریاں، سویّاں، میٹھا پراٹھا چاۓ کے ساتھ-  سالن پکانا ضروری نہیں سمجھا جاتا تھا-  گوشت میں آلو گوشت ہی مشہور تھا جو کہ شادیوں میں پکتا تھا تندور کی روٹیوں کے ساتھ پیش کیا جاتا تھا-  یا اسکے علاوہ شامی کباب-  اور مہمان اکثر رشتہ دار ہی ہوتے تھے جو چند گھنٹوں کے لئے نہیں آتے تھے بلکہ رکا کرتے تھے ایک دو دن-  تو انکے لئے بھی کوئی تکلّفات نہیں ہوتے تھے-  جو گھر میں روز پکتا تھا وہی مہمان بھی کھاتے-  


اس وقت فقیر لوگ چند محلّوں کا انتخاب کرتے اور یا تو دوپہر ورنہ اکثر مغرب کے وقت سدا لگاتے-  پتہ ہے کیوں؟  کیونکہ پہلے رات کا کھانا مغرب کے وقت تک پکایا اور کھا لیا جاتا تھا-  اور جو بچ جاتا تو وہ مانگنے والوں کو دے دیا جاتا-  کیونکہ فرج تو ہوتے نہیں تھے اس زمانے میں-  

نانی امّی کو اپنے چپل اور اپنا دوپٹہ بہت عزیز تھا کہ کوئی ادھر سے ادھر نہ کردے صفائی میں-  اس لئے ہر وقت دھیان رکھتیں انکا-  بس میں انکو اس معاملے میں بہت تنگ کرتی تھی کہ انکی چپلیں دروازے پر رکھ کر آجاتی تھی اور پھر وہ امّی سے شکایت کرتی تھیں-  اور مجھے ڈانٹ پڑتی تھی- 

نانی امّی کو گھڑی دیکھنی نہیں آتی تھی-  وقت کا اندازہ وہ دھوپ سے لگاتیں-  اگر دھوپ سیڑھیوں تک آگئی تو ایک بجا ہے اور اگر دھوپ دیوار تک آگئی تو تین بجے ہیں-  اسی حساب سے انکو بچوں کے اسکول کالج سے آنے کا پتہ چلتا تھا-  لہٰذا وہ دھوپ کا بہت خیال رکھتیں-  

١٩٨٢ میں شعبان میں جب انکا انتقال ہوا تو ہم بچوں سمیت سب روزانہ قرآن پڑھتے-  اورچالیسویں تک ہم گھروالوں نے ہی چالیس قرآن ختم کر لئے تھے-  

شروع شروع میں تو سخی حسن جاتے تھے انکی قبر پر-  پھر ہم سب اپنی اپنی زندگی میں مگن ہو گۓ-  اور بس شعبان میں ہی نانا، نانی، دادا، دادی کی نیاز دلا دیتے-  کیونکہ نانا کا انتقال بھی شعبان میں ہوا تھا-  بس بڑی خالہ کا ایک نوکر تھا جو مرتے دم تک اس قبر کا دھیان کرتا رہا- پھر اسکے بعد وہیں کے کسی شخص نے خیال رکھنا شروع کردیا جسے پیسے دے دیے جاتے-  

چند سال پہلے میں نے نانی کی قبر کو ڈھونڈنا شروع کیا-  وہ قبرستان اتنا بھر گیا ہے کہ قبر ڈھونڈنا مشکل ہوگیا-  ہر شعبان میں کوشش ہوتی کہ شاید نانی کی قبر مل جاۓ-  ڈھونڈتے ڈھونڈتے مغرب ہو جاتی-  لیکن کامیابی نہیں ہوتی تھی-  اور گلاب کے پھول اورعرق گلاب دوسری قبروں پر ڈال کر واپس آنا پڑتا-

پچھلے سال شعبان میں بھی اس امید کے ساتھ قبرستان گئی-  اور مغرب سے چند منٹ پہلے ناکامی کے ساتھ واپس آرہی تھی تو گیٹ تک چلتے چلتے میں نے دعا کی کہ یا اللہ اس مرتبہ تو دکھا ہی دیں نانی کی قبر-  گیٹ پر پہنچ کر میں نے ایسے ہی پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک گلی نظر آئی-  جی میں آیا کہ اس گلی کو بھی دیکھ ہی لوں-  میں واپس پلٹ کر اس گلی کے کونے تک گئی تو دیکھا وہاں ایک شخص کھڑا تھا-  اس نے اشارے سے پوچھا کس کی قبر تلاش کر رہیں ہیں-  میں نے کہا اپنی نانی کی-  انکا نام محمودہ بیگم ہے-  اس نے کہا انکے شوہر کا نام محمود حسن رضوی ہے-  میں کہا ہاں-  تو اس نے مجھے اشارے سے اپنی والی سائیڈ پر بلایا اور کہا کہ یہ رہی قبر-  وہ قبر ٣٧ سال کے بعد بھی ویسی ہی تھی-  سواۓ اسکے کہ اسکے آس پاس قبریں ہی قبریں تھیں-  اس دن مجھے یقین آیا کہ اگر تڑپ ہو تو دعائیں چند سیکنڈز میں اس طرح قبول ہوتی ہیں-   

اس آدمی نے بتایا کہ اسے پیسے ملتے ہیں ماہانہ اور وہ قبر کا خیال رکھتا ہے-  میں نے اسی سے اور گلاب کے پھول منگواۓ اور قبر کے کنارے بیٹھ کر سورہ الفاتحہ، چند آیات سورہ البقرہ، چاروں قل اور درود شریف پڑھا-  اور واپس جانے کی کی-  اور چلتے چلتے احساس ہوا کہ ایک خوشبو ساتھ ساتھ چل رہی ہے-  میں نے اپنے ہاتھ سونگھے کہ شاید گلاب کے پھولوں یا عرق گلاب کی ہے-  لیکن یہ مخلتف خوشبو تھی-  تیز-  اور وہ قبرستان کے گیٹ تک میرے ساتھ رہی-  اور پھر ساتھ چھوڑ گئی-  

میں نے امّی اور باجی سے اس بات کا ذکر کیا- تو انہوں نے پہلی بات یہی کہی کہ نہایت صابر اور حیا دار تھیں-  

ایسے ہوتے تھے خوشبو اور پھولوں جیسے لوگ-  جن سے رحمتیں گھر میں برستی تھیں-  

لیکن پھر ہم نے ترقی کرنی شروع کردی- 

اور اب پھولوں اور خوشبوؤں جیسے لوگ ڈھونڈے سے نہیں ملتے- 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ میرے ان تمام بزرگوں کو جو انتقال فرما چکے ہیں-  انکی مغفرت فرمائیں اور وہ نور اور خوشبو کے ساتھ قیامت کے دن اٹھاۓ جائیں-  آمین