Tuesday 20 February 2018

نقل کرنے سے بہتر

فیل ہونا نقل کرکے پاس ہونے سے بہترہے-  اور فیل ہونے سے بہتر یہ طریقے ہیں جو آزمودہ بھی ہیں اور آسان بھی-  بچوں کو اگر اس بات کی ترغیب دی جاۓ گھر اور اسکولوں میں تو نقل کے رجحان کو بہت حد تک روکا جا سکتا ہے-  

اسکول کالجز کے طلباء میں نقل کا رجحان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اور اب تو بہت سے والدین، طلباء اور خود اساتذہ اور اسکول منجمنٹس بھی اسے کوئی اخلاقی جرم نہیں سمجھتے-  اور اکثر والدین خود اسکی ترغیب بھی دے رہے ہوتے ہیں کہ اپنے دوست سے پوچھ لینا-  دوستوں میں دوستی کی شرط بھی یہی ہوتی ہے کہ امتحان جیسی مشکل میں ساتھ دینا -  

نقل کے رجحان کی وجوہات بہت ساری ہیں-  
١) ہائی اسٹینڈرڈ تعلیم کے نام پر بچوں پر انکی عمر اور ذہنی اور جسمالی صلاحیت یا قابلیت سے زیادہ سلیبس کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے اور بچوں کی ذہانت کو جانچنے کے لئے ان کو مشکل مشکل سوالات اور مشقیں یاد کروائی جاتی ہیں-  جبکہ وہ اپنے بڑوں اور اساتذہ کو کبھی اتنا پڑھتے لکھتے نہیں دیکھتے- 

٢) جلدی کورس ختم کرانے کے چکّر میں تدریس کے غیر معیاری اور مشکل طریقے استعمال کئے جاتے ہیں-  جب بچوں کو کچھ پڑھنے، لکھنے اور یاد کرنے میں مشکل ہوتی ہے تو وہ نقل کا سہارا لیتے ہیں- 

٣) اساتذہ کا طلباء اور تعلیم سے بیزار رویہ ہونا- طلباء کے سوالات کے جوابات نہ دینا-  ان سے روکھے پھیکے انداز میں بات کرنا-  انکے مشاغل اور شخصیت میں دلچسپی نہ لینا- 

٤) بچوں کو اپنے فیل ہوجانے کا خوف، بدنامی کا خوف- پابندیوں کا خوف- 

٥) آۓ دن کے ٹیسٹ اور امتحانات کی وجہ سے سوالات جوابات کے رٹے لگانا جس کی وجہ سے ذہنی صلاحیتوں اور یاداشت پر برا اثر پڑتا ہے- 

٦) ایک جیسا کورس اور ایک جیسے امتحانات کے پیپرز-

٧) گھروں میں نظم و ضبط اور گھر کے افراد کے درمیان تعاون کی کمی- گھروں میں تعلیمی ماحول کا نہ ہونا-  گھروں میں غیر اخلاقی ماحول- 

بچوں میں نقل کے رجحان کو کیسے روکا جا سکتا ہے-  

١) پہلے تو اوپر بیان کی گئیں وجوہات کا سدّباب کیا جاۓ- 

٢) دوسرے یہ کہ بچوں کو اسکول میں اس طرح مشقیں اور سوالات کرنے کی عادت ڈالی جاۓ کہ انکے جوابات ایک دوسرے سے مختلف ہوں- ایک مرتبہ بچے کو انفرادیت کی عادت پڑ جاۓ تو پھر وہ نقل کرنے کے بجاۓ اپنے ہی کسی طریقے کی طرف دھیان دیتا ہے جو اسے منفرد بنانے-  انگلش اور اردو میں حروف سے الفاظ اور الفاظ سے جملے بناتے وقت ہر بچے سے مختلف الفاظ اور جملوں کا تقاضہ کیا جاۓ- مضمون، خط اور درخواست کے لئے ایک ہی جیسے عنوان کے بجاۓ ہر بچے کو مختلف عنوان دئیے جائیں-  حتیٰ کہ اگر ممکن ہو تو امتحانات کے پیپرز بھی ہر بچے کے مختلف ہوں یا پھر سوالات آگے پیچھے کردئیے جائیں-  

٣) بچوں کو اکثر اردو اور انگلش کے سوالات کے جوابات، الفاظ، جملے، مضمون، خط، درخواست اور گرامر یاد کرنے کو دے دی جاتی ہے-  بڑوں کو یہ بات کیوں نہیں سمجھ آتی کہ بچوں کو نہیں پتہ کہ ان سب چیزوں کو یاد کیسے کیا جاتا ہے-  انہیں بتانا پڑتا ہے- خود اس طریقے کو کر کے بچے کو سکھانا ہوتا ہے کہ دیکھو ایسے یاد کیا جاتا ہے-  پہلے اسپیلنگ کو پانچ دس مرتبہ دیکھ کر پڑھو اور پھر پانچ مرتبہ بغیر دیکھ کے کہو اور پھر ایک مرتبہ لکھو اور دیکھو صحیح ہے کہ نہیں-  شروع میں بچے کو الجھن ہوتی ہے پریشانی ہوتی ہے لیکن پھر وہ عادی ہو جاتا ہے-  تھوڑے عرصے بعد بچے کو اتنی محنت نہیں کرنی پڑتی اور جلد اسپیلنگ یاد ہو جاتی ہے-  بلکہ اگر بچے کی اس صلاحیت کی حوصلہ افزائی کی جاۓ تو وہ بغیر خود ہی شوق سے الفاظ اور جملے اور مختلف چیزیں یاد کر کر کے سناتے رہتے ہیں- 

٣) بچوں کا سلیبس ہمیشہ انکی عمر اور ذہنی استعداد کے مطابق ہونا چاہئے اور طریقہ کار آسان اور جلد سمجھ میں آنے والا ہونا چاہیے-  بچوں کو کورس کی کتابوں کا عادی نہیں بنانا چاہئے-  بلکہ اسے کھلے مطالعے کی عادت ڈالنی چاہئے-  تاکہ اسکے مطالعے کا شوق پروان چڑھے اور رٹے رٹاۓ جملوں پر انحصار کم سے کم ہوتا جاۓ- 

٤) بچے کو کلاس میں اور گھر میں کام کرتے وقت اگر صحیح طریقے سے رہنمائی کی جاۓ اور اسکے ساتھ بیٹھ کر اسکے کام کو آسانی سے کرنے میں مدد کی جاۓ تو بچے وہ کام یا موضوع اس دن یا وقت کے حوالے سے یاد رکھتے ہیں-  اور اسکا حوصلہ بڑھتا ہے-  

٥) بچوں میں اگر شروع سے یہ عادت ڈال دی جاۓ کہ جو بات یا موضوع تمہیں سمجھ آگیا ہے اسے کم از کم دو اوربچوں کوسکھائیں- تو اس سے ایک تو بچے کی خود اپنی دہرائی ہو جاتی ہے دوسرے اس میں دوسروں کی مدد کا جذبہ پروان چڑھتا ہے-  اور سب سے بڑھ کر کم عمری میں ہی تدریسی صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں-

بچوں کی شخصیت کا انحصار بچپن کے تجربات پر ہوتا ہے-  اس لئے معاشرے اور ماحول کو بچوں کے لئے محفوظ، خوشگوار اور خوبصورت بنانا ہر با شعور فرد کا فرض اور اسکو قائم رکھنا حکومت کی ذمّہ داری ہے-  



Sunday 18 February 2018

انگریزی زبان

انگریزی بھی ایک عجب زبان ہے- جب تک بچے انگریزی نہ بولیں نہ والدین کو تسلّی ہوتی ہے کہ وہ کچھ سیکھ رہے ہیں اور نہ ہی اسکول والوں کو یہ اطمینان ہوتا ہے کہ وہ کچھ پڑھا رہے ہیں-

بچوں کے لئے انگریزی سیکھنا جتنا شدید ترین مسلہ ہے- اسکولز کے لئے انگریزی سکھانا اتنا ہی بدترین مسلہ ہے- اور سکھانی بھی ہے انگریزوں کے طریقوں سے-  انگریزوں کی تو وہ مادری زبان ہے اس لئے انکے تعلیمی ادارے گرامر پرجلد اور زیادہ توجہ دینے لگ جاتے ہیں-  لیکن جن ملکوں کی مادری اور قومی زبان انگریزی نہیں وہ اس طریقے سے نہیں پڑھا سکتے-  یہ بات یہاں کسی کو سمجھ نہیں آتی- بدقسمتی سے اگر ایک اسکول کسی نہ کسی طرح اپنے طالبعلموں کو انگریزی لکھنا پڑھنا اور بولنا سکھادے توسارے کے سارے اسکول اس کے مقابلے میں آجاتے ہیں- ویسا ہی سلیبس، ویسا ہی کرکیولم، ویسا ہی کورس- 

پرائمری لیول پر پہلی اور دوسری جماعتوں میں ہی بچوں کو انگریزی میں مذکّرمؤنث، واحد جمع، الفاظ کی ضد، ہم آواز الفاظ، ہم معنی الفاظ، اسم، فعل، صفت، سب کچھ سکھانے کی کوشش کی جاتی ہے یہاں تک کہ مضمون یاد کرواۓ جاتے ہیں- اور دوسری تیسری جماعت تک پہنچتے پہنچتے اس میں درخواست، کہانیاں اور تقریریں بھی شامل ہو جاتی ہیں جو کہ اکثر بچے گھروں سے لکھوا کر لا رہے ہوتے ہیں-  اور بچوں کو کچھ سمجھ نہیں آرہا ہوتا- 

کراچی کے تعلیمی اداروں میں سال کے تین سو پینسٹھ دنوں میں سے بمشکل ڈیڑھ سو دن پڑھائی ہوتی ہوگی- پہلی اور دوسری جماعتوں میں انگریزی کے نصاب سے اگر کورس کی کتابیں اور گرامر نکال دی جاۓ تو بچوں کی زندگی بھی آسان ہو جاۓ اور انگریزی سیکھنا بھی- پہلی اور دوسری کلاس میں صرف انگلش قصّے کہانیاں، سچے واقعات پر مبنی اور معلوماتی کتابیں ہونی چاہئیں-  جیسے کہ مونٹیسوری طریقہ تعلیم میں ہر کلاس میں ایک 'بک کارنر' ہوتا ہے جہاں بہت سی کتابیں رکھی ہوتی ہیں تاکہ بچہ جس وقت دل چاہے ان کتابوں کا مطالعہ کرے-  سال کے ڈیڑھ سو دنوں میں بچے جتنی کتابیں پڑھ سکتے ہیں پڑھیں-  ساتھ ساتھ انکے الفاظ کی اسپیلنگ اور معنی یاد کرتے جائیں-  کتابیں آسان ہوں-  کہانیاں مختصر ہوں تاکہ سمجھ آجائیں اور واقعات کی ترتیب اور تسلسل سمجھ اسکے-  الفاظ عام فہم ہوں جنہیں بچے ادا کر سکیں، یاد کر سکیں اور اپنے جملوں میں استعمال کر سکیں-  پہلی اور دوسری کلاس کے تین سو دنوں میں اگر بچے سو چھوٹی بڑی کہانیاں پڑھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور ان کو سمجھ بھی جاتے ہیں تو یہ ان بیکار بے فائدہ کورس کی کتابوں سے بہتر ہے جن کو پڑھ پڑھ کر بچے فیل ہو رہے ہوتے ہیں- 

اس طریقہ تعلیم سے ان دو سالوں میں طلباء کو کیا فائدہ ہوگا- 

١) بچوں میں بیزاری سے کورس کی کتاب جو کہ سب کے پاس ایک جیسی ہوتی ہے، اسے رٹنے کے بجاۓ مطالعے کا شوق بڑھتا ہے اور وہ نئی نئی کتابیں ڈھونڈنے لگ جاتے ہیں-  

٢) اسی شوق میں بچے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لئے بغیر کس نصیحت اور ڈانٹ ڈپٹ کے زیادہ سے زیادہ کتابیں پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں-  

٣) تفہیم کے پہلے درجے میں بچے جتنی زیادہ کتابیں پڑھتے ہیں اتنا ہی انکے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ بہت سے الفاظ بار بار ہر کتاب میں دہراۓ گۓ ہوتے ہیں جننہیں وہ آہستہ آہستہ اپنی گفتگو میں استعمال کرنے لگتے ہیں- اور جو الفاظ نۓ ہوتے ہیں تو تحریر کو سمجھنے کے لئے بچے بار بار ان کا مطلب پوچھتے ہیں- 

٤) تفہیم کے دوسرے درجے میں الفاظ کے ساتھ ساتھ اسم، فعل، صفت، مذکّر مؤنث، واحد جمع، الفاظ کی ضد، ہم آواز الفاظ، ہم معنی الفاظ، جملوں اور زمانوں کی ترکیب بھی غیر شعوری طور پر انکے دماغوں میں جذب ہو رہی ہوتی ہے-  ماضی، حال اور مستقبل کے جملوں کا استعمال غیر ارادی طور پر انکو سمجھ آنے لگتا ہے- 

٥) تفہیم کے تیسرے درجے میں کردار اور حالات و واقعات کا تسلسل اور ترتیب سمجھ آنے لگتی ہے-  جس سے آگے جماعتوں میں کردار سازی اور مختلف انداز تحریر تخلیق کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے- 

٦) بچے جب کوئی دلچسپ کتاب پڑھتے ہیں یا کوئی انوکھی معلومات انھیں ملتی ہے تو وہ ضرور اسے دوسروں سے شیئر کرتے ہیں- اور یہ عمل اگر ایک تسلسل کے ساتھ ہو تو کمیونیکیشن اسکلز یا انداز بیاں بہتر سے بہتر ہوتی جاتی ہیں-  

٧) مختلف موضوعات کی کتابوں کے ذریعے بچوں کا رابطہ پوری کائنات سے جڑ جاتا ہے-  اور انکی امیجینیشن یا تخیلاتی صلاحیتیں یا سادہ الفاظ میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں اجاگر ہوتی ہیں-  وہ کتابیں جن جن ملکوں اور علاقوں میں لکھی گئی ہوتی ہیں ان میں ان علاقوں کے قدرتی مناظر کی عکّاسی کی گئی ہوتی ہے-  اور اکثر میں پھرملکوں ملکوں گھومنے پھرنے کا جذبہ ابھرتا ہے-  

٨) بچوں میں انسانی ہمدردی اور سوچ کی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے-  بچے سوچنے لگ جاتے ہیں کہ دنیا کے سارے انسان ہماری ہی طرح ہیں- ان میں خوشی، غمی، دکھ، کامیابی، ناکامی جیسے جذبات ایک ہی طرح محسوس کئے جاتے ہیں- انکے بھی عقائد ہیں- یہ بھی تہوار مناتے ہیں-  ان کے بھی خاص رسم و رواج ہیں- 

٩) قصّے کہانیوں اور سچّے واقعات میں بچوں کو اخلاقیات کا درس بھی خود بخود ملتا جاتا ہے-  اور اچھی بری خصوصیات والے کرداروں کی صفات انہیں انگریزی میں سمجھ آنے لگتی ہیں-  ان میں تعریفی اور تنقیدی انداز بیان کا فرق واضح ہوتا ہے- 

١٠) سب سے بڑا فائدہ اس طریقہ میں یہ ہے کہ بچے خوشی خوشی کتابیں پڑھتے ہیں- بغیر کسی ڈانٹ ڈپٹ، لیکچر اور نصیحتوں کے- 

اس عمر کے بچوں کی تحریری صلاحیتوں کے معاملے میں بھی بہت زیادہ بوجھ ڈالنے سے احتیاط برتنی چاہئے-  زیادہ سے زیادہ یہ کریں کہ انہیں کوئی پیراگراف نقل کرنے کے لئے دے دیں جس سے انکی آئی ہینڈ کوآرڈینیشن بہتر ہوتی ہے-  اسپیلنگ ٹیسٹ لے لیں-  جملے لکھوا لیں- ڈکٹیشن لے لیں- اور اس سے زیادہ کرنا ہو تو تھوڑے بہت آسان ترین سوال جواب اور کسی ایک چیز کے بارے میں تین چار جملے لکھوا لیں-  سب انگریزی میں- اس سے زیادہ کی صلاحیت بچے میں خود نظر آۓ گی اور وہ اسکا اظہار بھی کرے گا-  البتّہ جن باتوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے وہ یہ ہیں کہ کاپی پر مارجن ضروری ہو-  تاریخ لکھے-  لائن پر لکھے- فل اسٹاپ اور دیگر قوائد کا خیال رکھے- وغیرہ وغیرہ 

اسی طرح پہلی اور دوسری کلاس تک امتحانات سے گریز کرنا چاہئے-  اتنے چھوٹے بچوں کو امتحانات کے چکّروں میں ڈال کر کیا حاصل ہوتا ہے-  سواۓ اس کے کہ وہ تعلیم سے بیزار ہو جاتے ہیں-  فیل ہونے کا خوف ان پر سوار رہتا ہے-  فرسٹ آجائیں تو پھر تو ہر سال یہی پوزیشن چاہئے امّاں ابّا کو-  کم سے کم مضامین ہوں- اور کم وقت میں پڑھاۓ جائیں-  ہوم ورک آسان ہو اور کم ہو-  

ماہر تعلیم اور تعلیم کے شعبے سے وابستہ تمام افراد کی ترجیحات مغربی نصاب سے متاثر ہو کر فانکس، گرامر اور دوسرے مروجہ طریقوں کا نفاذ نہیں بلکہ ایسا طریقہ تعلیم وضع کرنا ہونا چاہئے جس سے یہ زبان با آسانی سمجھ اسکے- اور بچوں کے معصوم ذہنوں پر بوجھ کم سے کم ہو-  

اساتذہ کی پیشہ وارانہ مہارت یا پروفیشنلزم

استاد کسے کہتے ہیں؟  

کیا ایک ایسا شخص جو طالبعلموں کو یہ کہے کہ کل گھر سے خود پڑھ کر آجانا- تو جو طالبعلم خود گھروں سے اور ٹیوشن سے پڑھ کر آئیں اور پاس بھی جو جائیں تو انہیں وہ ذہین طالبعلم کہہ کر تعلیم کا سہرا اپنے سر سجا لے اور اچھا ٹیچر کہلاۓ- اور جن طالبعلموں کے گھروں پر کوئی انکی مدد کرنے والا نہیں اور وہ ٹیوشن بھی افورڈ نہیں کر سکتے انہیں سزا ملے- اس بات کی کہ انکے والدین کیوں تعلیم یافتہ نہیں یا اتنے امیر کیوں نہیں کہ کوئی ٹیوٹر رکھوادیں- 

کیا ایک استاد یا استانی کی پیشہ وارانہ صلاحیتیں صرف ایک بی ایڈ اور ایم ایڈ کی ڈگری کی حد تک ہوتی ہیں؟  اسکے علاوہ اس میں کوئی اور خصوصیات نہیں ہونی چاہئیں؟ کیا ہمارے ہاں استادوں کو بتایا جاتا ہے کہ ڈگری کے علاوہ ان میں کون کون سی اسکلز ہونی چاہئیں؟

جس استاد یا استانی کو یہ احساس جو جاۓ کہ وہ پہلے انسان ہے بعد میں استاد یا استانی-  تو سب سے پہلے اسے اپنی شخصیت پر توجہ دینی چاہئے-  ایک استاد بےایمان، خائن،  لالچی، کام چور اور خودغرض نہیں ہو سکتا-  اگر اسے احساس ہے کہ اس کا کام بچوں کو "صفائی نصف ایمان ہے" کی تلقین کرنا ہے تو وہ جگہ جگہ پان اور گٹکا تھوکتا اور کوڑا پھیلاتا نہیں پھرے گا-  چھینکتے اور کھانستے وقت اسکے ہاتھ میں ٹشو تو ہوگا جسے وہ منہ اور ناک پر بھی رکھے گا-  ہواؤں میں چینکتا اور کھانستا نہیں پھرے گا-  ایسے چلے گا کہ جوتوں سے آواز نہ نکلے-  منہ بند کر کے کھانا کھاۓ گا-  کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ بھی دھو لے گا-  جہاں سے اٹھے وہاں چیزیں بہتر ہوچکی ہوں-  اسکی شخصیت سے لے کر جہاں جہاں وہ جاۓ گا ایک ترتیب، تہذیب اور نظم و ضبط نظر آۓ گا-  وقت کا پابند ہوگا-  اس کے طالبعلم اسے دیکھ کر گھڑی اور وقت کی اہمیت کا اندازہ لگا لیں گے-  ایک آدمی یا عورت جو اپنے طالبعلموں کے لئے انکی پسندیدہ شخصیت ہو- 

استاد کا تعلق علم سے ہوتا ہے تو ایسا لگے بھی تو کہ وہ ایک علم دوست شخص ہے- جس کی باتوں سے کتابوں کی خوشبو آتی ہے-  اور طالبعلموں کو یہ محسوس ہو کہ طالبعلم ہونا اتنی بڑی سعادت ہے کہ انکا استاد ابھی تک خود کو طالبعلم ہی تصوّر کرتا ہے اور علم کی کھوج میں لگا رہتا ہے-  جو طالبعلموں کو فخر سے سال میں دو کتابوں کے نام تو بتا سکے جو اس نے شوق سے پڑھی ہوں- اسے یہ فکر ہونی چاہئے کہ میرے طالبعلموں نے مجھے کتنی مرتبہ لائبریری میں دیکھا اور کتنی مرتبہ میرے ہاتھ میں کوئی کتاب دیکھی-  اور یہ کورس کی کتابیں نہیں ہونی چاہئیں-  بلکہ کورس کی کتابیں ہونی ہی نہیں چاہئیں-  

استاد کا تعلق طالبعلموں سے ہوتا ہے لہٰذا اسے علم کے ساتھ ساتھ علم کی طلب کرنے والوں کا دوست بھی ہونا چاہئے-  نہ کہ انہیں خوف دلانے والا ایک ظالم شخص-  طالبعلموں کو یہ محسوس ہو کہ انکا استاد امید کی وہ کرن ہے جس کے پاس انہیں بہت سے مسلوں کا حل اور کامیاب زندگی کا راستہ مل جاۓ گا- استاد کو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اس کے طالبعلموں میں سے کون بڑے ہو کر کیا بنے گا-  لہٰذا اسے تو زندگی کے مشاہدات اور تجربات اور زندگی کی مجموعی مہارتوں کا منبع ہونا چاہئے-    

رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے فرمایا 
اعمال کا دارو مدار نیّتوں پر ہے-  

نیّت اچھی ہو تو کام آسان ہو جاتے ہیں-  اساتذہ کو اپنا احتساب خود کرنا چاہئے کہ وہ اسکول میں کتنا وقت کیسے گزارتے ہیں-  کیا وہ وقت پر آتے جاتے ہیں یا صرف آنے جانے کی ہی فکر ہوتی ہے-  کلاس کے تیس پینتیس منٹ کے وقت میں وہ یہ سوچتے ہیں کہ کیا پڑھانا اور لکھانا ہے یا وقت ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں-  ان پر کسی انچارج اور پرنسپل کی نہیں بلکہ خود انکے اپنے ضمیر کی نظرہونی چاہئے-  پڑھانا پیشہ نہیں مشن ہونا چاہئے-  اور مشن میں سلیبس اور کرکیولم نہیں بلکہ اخلاص نیّت، محنت اور مسلسل مہارت حاصل کرنے کی تگ و دو کام آتی ہے-  اور اس تمام محنت کی جزا کی امید والدین یا اسکول انتظامیہ سے نہیں بلکہ الله سبحانہ و تعالیٰ سے رکھنی چاہئے-  

بنیادی تعلیم کاروبار نہیں ہے- جس کا مقصد تعلیمی مرحلے کے پہلے دس سال-  لہٰذا کم از کم بنیادی تعلیم کے شعبے سے متعلق اساتذہ کو اسے عبادت اور ذمّہ داری کی نظر سے ہی دیکھنا چاہئے-  ٹیوشن اور کوچنگ کا کاروبار چلانے کے لئے اسکولز اور کالجز کے تدریسی عمل میں خرابیاں پیدا کرنا-  سراسر بدعنوانی ہے-  پڑھانے اور سمجھانے کے بجاۓ انہیں تیّار کردہ نوٹس بیچنا-  سراسر بے ایمانی ہے-  

لیکن اساتذہ بھی کیا کریں-  وہ بھی اسی گلے سڑے معاشرتی نظام کی پیداوار ہیں-  کسی اور کی تعلیم و تربیت کی فکرکیا کریں گے-  سب نہیں لیکن اساتذہ کی اکثریت پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے محروم ہی نہیں بلکہ صلاحیتوں کے احساس محرومی سے محروم اوراحساس جرم سے بھی محروم ہے-  اساتذہ کی تربیتی ادارے، حکومت، تعلیمی بورڈز بھی اس سلسلے میں بے بس اور لاچار ہیں-  اور یہ سب ایک کاروباری سلسلے کے سوا کچھ نہیں-  

کوئی تعلیمی چینل بھی تو نہیں جو اساتذہ کو پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی تربیت دے سکے-  اور انہیں انکے انسان ہونے کا احساس دلاسکے-  

فیل اور پاس کون ہوتا ہے

پری اسکولنگ کر بعد آتا ہے پرائمری تعلیم کا مرحلہ - یعنی پہلی جماعت سے پانچویں جماعت تک کا کورس ختم کرانا-  یہ بھی انسانی ذہنوں کے ساتھ ناانصافی ہے کہ ایک بے انتہا صلاحیتوں والے شاہکار انسانی ذہن کو صرف چند کتابوں، چند سوالوں اور چند اسکلز تک محدود کر دیا جاتا ہے-  یا پھر او لیولز کے نام پر اس عمر سے زیادہ بوجھ ڈال دیا جاتا ہے-  اور تین سو پینسٹھ قیمتی دنوں کے بعد بچے کو پتہ چلتا ہے کہ وہ فیل ہے یا پاس- 

اور ہم نے فیل کی صحیح تعریف بھی متعارف نہیں کرائی ہے-  حالانکہ ہمارے رسول الله صلی الله علیہ وسلّم ہمیں سب بتا کر گۓ ہیں- 

بچے فیل نہیں ہوتے-  فیل کا لفظ بچوں کی زندگی اور انکی رپورٹ کارڈ کا حصّہ نہیں ہونا چاہئے-  فیل گھر کے بڑے ہوتے ہیں بچوں کو سلیقہ، صفائی، سچ، ایمانداری، امانتداری، نظم و ضبط، احترام انسانیت، جانوروں سے نرمی، چیزوں کی عزت سکھانے میں-  فیل اساتذہ ہو جاتے ہیں بچوں کو انکی تعلیم اور زندگی کا تعلق سمجھانے میں- فیل سیاستدان ہو جاتے ہیں بچوں کے لئے اچھا صاف ستھرا خوبصورت معاشرہ تعمیر کرنے میں- فیل پولیس اور ججز ہو جاتے ہیں گلی کوچوں کو بچوں کے لئے پر امن بنانے میں- فیل پڑوسی اور محلّہ دار ہو جاتے بچوں کو تحفّظ کا احساس دینے میں-  اور پھر ایسے بڑوں کے بچے بڑے ہو کر فیل ہو جاتے ہیں- 

فیل وہ شخص ہوتا ہے جس نے عملی زندگی میں دو تین چار سال گزار لئے ہوں اور پھر بھی اپنے آپ کو کچھ کرنے کے قابل نہیں بنایا- جس کو شعوری طور پر اچھائی اور برائی کو پرکھنے کا سلیقہ آگیا ہو اور پھر بھی وہ برائیوں کی طرف مائل ہو-  جس کو تعلیم و تربیت کے مواقع اور عزت و احترام کا ماحول ملا ہو اور پھر بھی وہ تکبّر، تحقیر اور جہالت کا رویہ اپناۓ-  فیل وہ ہوتا ہے جس کو معاشرے سے زیادہ اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے-  جسے ملک و قوم کی عزت و وقار سے زیادہ اپنے مرتبہ کو قائم رکھنے کی فکر ہوتی ہے-  جھوٹ بول کر عزت حاصل کرنے والا اور دلوں کو جیتنے والا فیل ہوتا ہے-  جھوٹ اور دھوکہ دیکر مال کمانے والا فیل ہوتا ہے-  

فیل پاس کا معیار اسکول کالج کے امتحان نہیں- زندگی ہے-  اسکول کالج کے امتحانات تو درجہ بدرجہ تعلیم کا حصّہ ہیں-  جن کا مقصد طالب علم کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ اب جن باتوں اور چیزوں میں کمی ہے اسے کس طرح پورا کیا جاسکتا ہے-  انکو طریقے بتاۓ جاتے ہیں مختلف مضامین کو سمجھنے کے- کسی بھی مضمون یہ کانسپٹ یا اسکلز میں مہارت کیسے لائی جاتی ہے- اسپیلنگز کیسے یاد کی جاتی ہیں- کیسے حساب کتاب کیا جاتا ہے-  اور کیسے یہ سب تعلیم عملی زندگی میں مددگار ثابت ہوتی ہے-
  مثالیں دی جاتی ہیں- ہمّت دلائی جاتی ہے- حوصلہ دیا جاتا ہے-  زمانے کے اتار چڑھاؤ سمجھاۓ جاتے ہیں-  تمام انبیاء اور رسل، اہل بیت، صحابہ کرام، قائداعظم، اقبال، اور وہ پوری ٹیم،ایدھی اور بہت سے ایسے ہی لوگ زندگی کے امتحان میں پاس ہو گۓ-  انکے برعکس، ابو جہل، ابو لھب، امیّہ، فرعون، نمرود، یزید، بہت سے بادشاہ اور شہنشاہ اور ایسے ہی مشہور لوگ زندگی کے امتحان میں فیل ہوگۓ- 

بچے کیسے فیل ہو سکتے ہیں-  بچے تو نہیں بتاتے بڑوں کو کہ کیا کرناہے- وہ تو ان پر بھروسہ کرتے ہیں کہ جو کر رہے ہیں ہمارے بھلے کے لئے کر رہے ہیں-  بچے  تو نہیں بتاتے اساتذہ کو کہ کیا پڑھانا ہے- وہ تو انحصار کر رہے ہوتے ہیں کہ یہ تعلیم یافتہ ہونے کا دعویٰ کرنے والے ہمیں کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنا سکھائیں گے-  لیکن اس بھروسے اور انحصار کر بدلے میں انہیں کیا ملتا ہے-  فیلئیر کا خطاب-  ناکامی کے طعنے- زندگی بھر کامیاب نہ ہونے کا وژن اور بد دعائیں-  

حالانکہ وجہ ہوتی ہے بڑوں کی ہر شعبے میں ایک دوسرے سے تعاون اور اخلاقیات کا فقدان- 

پری اسکولنگ

پچھلے کئی سالوں سے بچوں کو جو دو ڈھائی سال کی عمر میں اسکول بھیجنے کا جو ظالمانہ رواج ہے اس نے بچوں کو نفسیات پر بہت برا اثر ڈالا ہے-  اتنی چھوٹی سی عمر میں بچے کو اپنی ماں کے پیار اور توجہ اور نخرے اٹھوانے کی ضرورت ہوتی ہے جو کوئی اور نہیں دے سکتا-  اسے صبح صبح اٹھا کر جلدی جلدی جیسے تیسے ناشتہ کرا کر اسکول بھیجنا جہاں اسے شو پیسز کی طرح سجے کھلونوں کو دیکھنے کی تو اجازت ہوتی ہے کھیلنے کی نہیں کہ ٹوٹ نہ جائیں- اور اسکول کا خرچہ نہ بڑھ جاۓ-  جہاں وہ اگر کھیل کر تھک جاۓ تو کہیں لیٹنے کی جگہ نہیں ہوتی-  اتنے نرم و نازک جسم کے ساتھ تین چار گھنٹے کرسیوں پر بیٹھ کی دکھانا ہوتا ہے تاکہ اچھے بچے کہلاۓ جاسکیں-  

جہاں ٹیچرز کے نام پر میٹرک اور انٹر پاس، بغیر ٹرینگ کے لڑکیاں موجود ہوتی ہیں جن کی ترجیح پرنسپل اور انچارج کی پسندیدہ بننا ہوتا ہے-  اور دوسرا مقصد تنخواہ لینا-  وہ تنخواہ جس کے کم ہونے کی شکایات کرتے وقت وہ اپنی کم تعلیم، اپنی غلط ترجیحات، اپنی شخصیت کی منفیت اورعیب اور بچوں سے بے توجہی کا رویہ بھول جاتی ہیں- 

اس نازک سی عمر میں بچے کو نظم و ضبط اور الف بے اور ایک دو نہیں بلکہ کھیلنا اور الله سبحانہ و تعالیٰ کی تخلیق کی ہوئی کائنات سے، انسانوں، جانوروں اور چیزوں سے محبّت کرنا سکھایا جاتا ہے-  کھیل نظم و ضبط کے علاوہ ایمانداری، ٹیم ورک، ٹائم مینجمنٹ، سیلف کنٹرول، انداز گفتگو، نرمی مزاجی اور عفو و درگذر جیسی بہت سی صفات پیدا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتے ہیں- اور اسی کھیل کھیل میں وہ ہزاروں چیزوں کے نام اور ساری کی ساری گرامر سیکھ لیتے ہیں- انہیں بیوقوفوں کی طرح پانچ پھلوں، پانچ سبزیوں، پانچ پرندوں کے نام یاد کراکے پاس نہیں کیا جاتا- اس عمر کے بچوں کو چھوٹے چھوٹے تجربات کراۓ جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان میں چیزوں کو پرکھنے اور استعمال کرنے کے لئے سائنٹفک اپروچ پیدا ہوتی ہے- ان کو درختوں اور پہاڑیوں اور رسیوں پر چڑھنا سکھایا جاتا ہے-  مٹی کی کھدائی کرائی جاتی ہے- پودوں کو پانی دلوایا جاتا ہے-  گلدستے بنواۓ جاتے ہیں- سبزیاں کٹوائی جاتی ہیں-  سینڈوچز بنواۓ جاتے ہیں-پرندوں کو دانہ دلوایا جاتا ہے- رنگوں سے کھیلنا سکھایا جاتا ہے-  صفائیاں کرائی جاتی ہیں- مختلف اداروں اور کارخانوں کی سیر کرائی جاتی ہے-  ان کو قصّے کہانیاں سنائی جاتی ہیں جن سے وہ پچھلی اور آج کی دنیا کے درمیان تعلق  کو سمجھتے ہیں-  

لیکن اس طریقہ تعلیم کی کامیابی کی شرائط بھی ہیں-  بچوں کے گھر کا ماحول اور اگر وہ بدقسمتی سے اسکول جا رہے ہیں اس عمر میں تو وہاں کا ماحول نرمی، شفقت، صفائی، ترتیب، خوبصورتی کا نمونہ ہونا چاہئے-  اور انسان کی صورت میں جتنے لوگ بچے کے آس پاس ہیں وہ بہترین صفات کے حامل ہونے چاہئیں-  ایسے ماحول میں نشو و نما پانے والے بچے چھ سال کی عمر تک ہی بہترین شخصیت بن جاتے ہیں-  

وہ باتیں جو دو ڈھائی سے دس گیارہ سال کے بچوں کو منفیت کی طرف لے جاتی ہیں اور انکی شخصیت میں عیب پیدا کرتی ہیں ان سے بچنا چاہئے- یعنی 

١) اس عمر کے بچوں میں مقابلے نہیں کراۓ جاتے کہ کون فرسٹ آیا اور کون فیل ہوا- اور یہ نہیں کہا جاتا کہ تم سب سے آگے ہو-  دیکھو سب پیچھے رہ گۓ-  انہیں مل کر کام کرنا سکھایا جاتا ہے-  آج ہمارے معاشرے میں لوگ ملازمت میں کام کے تقاضوں پر توجہ دینے کے بجاۓ ایک دوسرے کی ٹانگ اسی لئے کھینچتے ہیں وہ اچھے کہلاۓ جائیں اور باس کے پسندیدہ بن جائیں- 

٢) اسلام کے مطابق لمبی امیدیں انسان کی زندگی اور اسکے اعمال برباد کردیتی ہیں-  اس عمر میں یہ سوال نہیں کیا جاتا کہ بڑے ہو کر کیا بنو گے-  اور پھر اس ایک دئیے گۓ خواب میں اس کو زندہ نہیں رکھا جاتا-  اسے خوابوں کے بجاۓ عملی زندگی کی اسکلز سکھائی جاتی ہیں کیونکہ وہ اسے جلد سمجھ آجاتی ہیں-  بچے کو یہ خواب دکھانا کہ ایک دن تم یہ بنو گے تو یہ ہوگا ایک ایسی بات ہے جس کی کوئی ضمانت نہیں اور اس کے پورا نہ ہونے کی صورت میں وہ بکھر سکتا ہے، ناامید ہو سکتا ہے، لوگوں اور معاشرے کو اس ناکامی کا ذمّہ دار سمجھ کر ان سے انتقام لے سکتا ہے- بچے سے چھوٹے چھوٹے کام کراۓ جاتے ہیں جس کا نتیجہ وہ فورا دیکھ لیتا ہے-  اور وہی اسکی کامیابی ہے-  یہ چھوٹی چھوٹی کامیابیاں، جنہیں تھوڑے عرصے بعد وہ خود حاصل کرسکتا ہے اسکو بڑے بڑے کام کرنے کا حوصلہ بخشتی ہیں- 

٣) بڑے آدمی بننے کے خواب دکھانا اچھی بات ہے لیکن بڑے آدمی کی تعریف پیشوں اور عہدوں سے نہیں کرائی جاتی کہ ڈاکٹر، انجینئیر یا پائلٹ یا پھر حافظ بنو گے یا فلاں با اثرشخص کے کارندے بنو گے تو لوگ عزت کریں گے یا دولت اور شہرت ملے گی-  انہیں ایک نارمل انسان کی طرح جینا سکھایا جاتا ہے-  بڑا آدمی وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان کے شر سے لوگ محفوظ ہوں-  بڑا آدمی وہ ہے جو کسی کے دکھ میں کمی کرے اضافہ نہ کرے-  بڑا آدمی وہ ہے جو اپنے لئے پسند کرے وہی دوسروں کے لئے پسند کرے-  بڑے آدمی کی تعریف تو رسول الله صلی الله علیہ وسلّم سمجھا چکے ہیں-  لیکن شاید اب لوگوں کا ایمان انکی باتوں پر رہا نہیں- 

٤) بچوں کو لالچ دے کر کام کرانا کہ اگر یہ کرو گے تو تمہیں یہ ملے گا- انہیں لالچی، مکّار، خود غرض اور دھوکہ باز بنانے کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے-  انہیں یہ تربیت دی جاتی ہے کہ ہر اچھا کام اس لئے کرنا ہے کہ اس سے ماحول اچھا بنتا ہے اور ہم انسان ماحول کو اچھا رکھنے کے ذمّہ دار ہیں- اس سے لوگ خوش رہتے ہیں- اور سب سے بڑھ کر الله سبحانہ و تعالیٰ راضی ہوتے ہیں-  ہر اچھے کام کا انجام خوشی اور ہر برے کام کا انجام اپنی اور دوسروں کی بربادی ہوتا ہے-  

٥) سزا ایک قطعی فیصلہ ہوتا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فلاں غلطی یا جرم یا گناہ ناقابل معافی ہے اس لئے اس کی سزا لازمی ملنی ہے-  
بچوں کو سزا کے بجاۓ کفّارنے کی طرف راغب کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی غلطی، جرم یا گناہ ہو بھی گیا ہے تو اس کا کفّارہ ادا کر کے اس کی تلافی کی جاسکتی ہے-  یہ کفّارہ پیسوں کی صورت میں نہیں ہوتا بلکہ کام کی صورت میں ہوتا ہے-

٦) بچوں کو خود انحصاری سکھائی جاتی ہے نہ کہ انہیں اپنا ماتحت یا غلام بنا کر رکھا جاتا ہے-  انہیں سکھایا جاتا ہے کہ اپنے کام خود کیسے کرنے ہیں اور کس طرح ماحول کو صاف، منظّم اور خوشگوار رکھنے میں بڑوں کی مدد کرنی ہے-  انہیں اپنے احکامات کا پابند نہیں بنایا جاتا بلکہ صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کی جاتی ہے-  

٧) بچے اپنے زمانے میں جینے کا حق رکھتے ہیں-  ہر نسل پر زمانے کی زبان اور طرز زندگی میں فرق آجاتا ہے-  بچوں کو اپنے زمانے اور اپنی امیدوں اور اپنے خوابوں میں زندہ نہیں رکھا جاتا-  انکا حق ہے کہ وہ اپنا زمانے میں جئیں کیونکہ الله نے انہیں اس زمانے کا انسان بنایا ہے-  وہ اگر اپنے زمانے کے مطابق نہیں چلیں گے تو ناکام ہو جائیں گے حتیٰ کہ ایک اچھا انسان بننے میں بھی-  ہاں جس بات کی ان کو اجازت نہیں ملنی چاہئے وہ ہے الله کے بتاۓ ہوۓ اخلاقی میزان کو غیر متوازن کرنا-  کیونکہ اچھی صفات اور بری صفات روز ازل سے قیامت کے آخری دن تک کے لئے ایک جیسی ہوتی ہیں- اچھی صفات اور خصوصیات میں تبدیلی یا ان سے غفلت ہر زمانے اور ہر نسل کے لئے بربادی کی علامت ہے-  

اسلام کی بنیادی تعلیمات، ابن سینا اور ماریہ مونٹسوری کی انسانی ذہن اور شخصیت پر تعلیم و تربیت کے اثرات کی ریسرچ کا جائزہ لیا جاۓ اور انہیں اپنایا جاۓ تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ایک بہترین قوم اور معاشرہ بن کر دنیا کی رہنمائی کر سکیں-