Sunday, 18 February 2018

پری اسکولنگ

پچھلے کئی سالوں سے بچوں کو جو دو ڈھائی سال کی عمر میں اسکول بھیجنے کا جو ظالمانہ رواج ہے اس نے بچوں کو نفسیات پر بہت برا اثر ڈالا ہے-  اتنی چھوٹی سی عمر میں بچے کو اپنی ماں کے پیار اور توجہ اور نخرے اٹھوانے کی ضرورت ہوتی ہے جو کوئی اور نہیں دے سکتا-  اسے صبح صبح اٹھا کر جلدی جلدی جیسے تیسے ناشتہ کرا کر اسکول بھیجنا جہاں اسے شو پیسز کی طرح سجے کھلونوں کو دیکھنے کی تو اجازت ہوتی ہے کھیلنے کی نہیں کہ ٹوٹ نہ جائیں- اور اسکول کا خرچہ نہ بڑھ جاۓ-  جہاں وہ اگر کھیل کر تھک جاۓ تو کہیں لیٹنے کی جگہ نہیں ہوتی-  اتنے نرم و نازک جسم کے ساتھ تین چار گھنٹے کرسیوں پر بیٹھ کی دکھانا ہوتا ہے تاکہ اچھے بچے کہلاۓ جاسکیں-  

جہاں ٹیچرز کے نام پر میٹرک اور انٹر پاس، بغیر ٹرینگ کے لڑکیاں موجود ہوتی ہیں جن کی ترجیح پرنسپل اور انچارج کی پسندیدہ بننا ہوتا ہے-  اور دوسرا مقصد تنخواہ لینا-  وہ تنخواہ جس کے کم ہونے کی شکایات کرتے وقت وہ اپنی کم تعلیم، اپنی غلط ترجیحات، اپنی شخصیت کی منفیت اورعیب اور بچوں سے بے توجہی کا رویہ بھول جاتی ہیں- 

اس نازک سی عمر میں بچے کو نظم و ضبط اور الف بے اور ایک دو نہیں بلکہ کھیلنا اور الله سبحانہ و تعالیٰ کی تخلیق کی ہوئی کائنات سے، انسانوں، جانوروں اور چیزوں سے محبّت کرنا سکھایا جاتا ہے-  کھیل نظم و ضبط کے علاوہ ایمانداری، ٹیم ورک، ٹائم مینجمنٹ، سیلف کنٹرول، انداز گفتگو، نرمی مزاجی اور عفو و درگذر جیسی بہت سی صفات پیدا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتے ہیں- اور اسی کھیل کھیل میں وہ ہزاروں چیزوں کے نام اور ساری کی ساری گرامر سیکھ لیتے ہیں- انہیں بیوقوفوں کی طرح پانچ پھلوں، پانچ سبزیوں، پانچ پرندوں کے نام یاد کراکے پاس نہیں کیا جاتا- اس عمر کے بچوں کو چھوٹے چھوٹے تجربات کراۓ جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان میں چیزوں کو پرکھنے اور استعمال کرنے کے لئے سائنٹفک اپروچ پیدا ہوتی ہے- ان کو درختوں اور پہاڑیوں اور رسیوں پر چڑھنا سکھایا جاتا ہے-  مٹی کی کھدائی کرائی جاتی ہے- پودوں کو پانی دلوایا جاتا ہے-  گلدستے بنواۓ جاتے ہیں- سبزیاں کٹوائی جاتی ہیں-  سینڈوچز بنواۓ جاتے ہیں-پرندوں کو دانہ دلوایا جاتا ہے- رنگوں سے کھیلنا سکھایا جاتا ہے-  صفائیاں کرائی جاتی ہیں- مختلف اداروں اور کارخانوں کی سیر کرائی جاتی ہے-  ان کو قصّے کہانیاں سنائی جاتی ہیں جن سے وہ پچھلی اور آج کی دنیا کے درمیان تعلق  کو سمجھتے ہیں-  

لیکن اس طریقہ تعلیم کی کامیابی کی شرائط بھی ہیں-  بچوں کے گھر کا ماحول اور اگر وہ بدقسمتی سے اسکول جا رہے ہیں اس عمر میں تو وہاں کا ماحول نرمی، شفقت، صفائی، ترتیب، خوبصورتی کا نمونہ ہونا چاہئے-  اور انسان کی صورت میں جتنے لوگ بچے کے آس پاس ہیں وہ بہترین صفات کے حامل ہونے چاہئیں-  ایسے ماحول میں نشو و نما پانے والے بچے چھ سال کی عمر تک ہی بہترین شخصیت بن جاتے ہیں-  

وہ باتیں جو دو ڈھائی سے دس گیارہ سال کے بچوں کو منفیت کی طرف لے جاتی ہیں اور انکی شخصیت میں عیب پیدا کرتی ہیں ان سے بچنا چاہئے- یعنی 

١) اس عمر کے بچوں میں مقابلے نہیں کراۓ جاتے کہ کون فرسٹ آیا اور کون فیل ہوا- اور یہ نہیں کہا جاتا کہ تم سب سے آگے ہو-  دیکھو سب پیچھے رہ گۓ-  انہیں مل کر کام کرنا سکھایا جاتا ہے-  آج ہمارے معاشرے میں لوگ ملازمت میں کام کے تقاضوں پر توجہ دینے کے بجاۓ ایک دوسرے کی ٹانگ اسی لئے کھینچتے ہیں وہ اچھے کہلاۓ جائیں اور باس کے پسندیدہ بن جائیں- 

٢) اسلام کے مطابق لمبی امیدیں انسان کی زندگی اور اسکے اعمال برباد کردیتی ہیں-  اس عمر میں یہ سوال نہیں کیا جاتا کہ بڑے ہو کر کیا بنو گے-  اور پھر اس ایک دئیے گۓ خواب میں اس کو زندہ نہیں رکھا جاتا-  اسے خوابوں کے بجاۓ عملی زندگی کی اسکلز سکھائی جاتی ہیں کیونکہ وہ اسے جلد سمجھ آجاتی ہیں-  بچے کو یہ خواب دکھانا کہ ایک دن تم یہ بنو گے تو یہ ہوگا ایک ایسی بات ہے جس کی کوئی ضمانت نہیں اور اس کے پورا نہ ہونے کی صورت میں وہ بکھر سکتا ہے، ناامید ہو سکتا ہے، لوگوں اور معاشرے کو اس ناکامی کا ذمّہ دار سمجھ کر ان سے انتقام لے سکتا ہے- بچے سے چھوٹے چھوٹے کام کراۓ جاتے ہیں جس کا نتیجہ وہ فورا دیکھ لیتا ہے-  اور وہی اسکی کامیابی ہے-  یہ چھوٹی چھوٹی کامیابیاں، جنہیں تھوڑے عرصے بعد وہ خود حاصل کرسکتا ہے اسکو بڑے بڑے کام کرنے کا حوصلہ بخشتی ہیں- 

٣) بڑے آدمی بننے کے خواب دکھانا اچھی بات ہے لیکن بڑے آدمی کی تعریف پیشوں اور عہدوں سے نہیں کرائی جاتی کہ ڈاکٹر، انجینئیر یا پائلٹ یا پھر حافظ بنو گے یا فلاں با اثرشخص کے کارندے بنو گے تو لوگ عزت کریں گے یا دولت اور شہرت ملے گی-  انہیں ایک نارمل انسان کی طرح جینا سکھایا جاتا ہے-  بڑا آدمی وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان کے شر سے لوگ محفوظ ہوں-  بڑا آدمی وہ ہے جو کسی کے دکھ میں کمی کرے اضافہ نہ کرے-  بڑا آدمی وہ ہے جو اپنے لئے پسند کرے وہی دوسروں کے لئے پسند کرے-  بڑے آدمی کی تعریف تو رسول الله صلی الله علیہ وسلّم سمجھا چکے ہیں-  لیکن شاید اب لوگوں کا ایمان انکی باتوں پر رہا نہیں- 

٤) بچوں کو لالچ دے کر کام کرانا کہ اگر یہ کرو گے تو تمہیں یہ ملے گا- انہیں لالچی، مکّار، خود غرض اور دھوکہ باز بنانے کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے-  انہیں یہ تربیت دی جاتی ہے کہ ہر اچھا کام اس لئے کرنا ہے کہ اس سے ماحول اچھا بنتا ہے اور ہم انسان ماحول کو اچھا رکھنے کے ذمّہ دار ہیں- اس سے لوگ خوش رہتے ہیں- اور سب سے بڑھ کر الله سبحانہ و تعالیٰ راضی ہوتے ہیں-  ہر اچھے کام کا انجام خوشی اور ہر برے کام کا انجام اپنی اور دوسروں کی بربادی ہوتا ہے-  

٥) سزا ایک قطعی فیصلہ ہوتا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فلاں غلطی یا جرم یا گناہ ناقابل معافی ہے اس لئے اس کی سزا لازمی ملنی ہے-  
بچوں کو سزا کے بجاۓ کفّارنے کی طرف راغب کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی غلطی، جرم یا گناہ ہو بھی گیا ہے تو اس کا کفّارہ ادا کر کے اس کی تلافی کی جاسکتی ہے-  یہ کفّارہ پیسوں کی صورت میں نہیں ہوتا بلکہ کام کی صورت میں ہوتا ہے-

٦) بچوں کو خود انحصاری سکھائی جاتی ہے نہ کہ انہیں اپنا ماتحت یا غلام بنا کر رکھا جاتا ہے-  انہیں سکھایا جاتا ہے کہ اپنے کام خود کیسے کرنے ہیں اور کس طرح ماحول کو صاف، منظّم اور خوشگوار رکھنے میں بڑوں کی مدد کرنی ہے-  انہیں اپنے احکامات کا پابند نہیں بنایا جاتا بلکہ صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کی جاتی ہے-  

٧) بچے اپنے زمانے میں جینے کا حق رکھتے ہیں-  ہر نسل پر زمانے کی زبان اور طرز زندگی میں فرق آجاتا ہے-  بچوں کو اپنے زمانے اور اپنی امیدوں اور اپنے خوابوں میں زندہ نہیں رکھا جاتا-  انکا حق ہے کہ وہ اپنا زمانے میں جئیں کیونکہ الله نے انہیں اس زمانے کا انسان بنایا ہے-  وہ اگر اپنے زمانے کے مطابق نہیں چلیں گے تو ناکام ہو جائیں گے حتیٰ کہ ایک اچھا انسان بننے میں بھی-  ہاں جس بات کی ان کو اجازت نہیں ملنی چاہئے وہ ہے الله کے بتاۓ ہوۓ اخلاقی میزان کو غیر متوازن کرنا-  کیونکہ اچھی صفات اور بری صفات روز ازل سے قیامت کے آخری دن تک کے لئے ایک جیسی ہوتی ہیں- اچھی صفات اور خصوصیات میں تبدیلی یا ان سے غفلت ہر زمانے اور ہر نسل کے لئے بربادی کی علامت ہے-  

اسلام کی بنیادی تعلیمات، ابن سینا اور ماریہ مونٹسوری کی انسانی ذہن اور شخصیت پر تعلیم و تربیت کے اثرات کی ریسرچ کا جائزہ لیا جاۓ اور انہیں اپنایا جاۓ تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ایک بہترین قوم اور معاشرہ بن کر دنیا کی رہنمائی کر سکیں-  

No comments:

Post a Comment