پری اسکولنگ کر بعد آتا ہے پرائمری تعلیم کا مرحلہ - یعنی پہلی جماعت سے پانچویں جماعت تک کا کورس ختم کرانا- یہ بھی انسانی ذہنوں کے ساتھ ناانصافی ہے کہ ایک بے انتہا صلاحیتوں والے شاہکار انسانی ذہن کو صرف چند کتابوں، چند سوالوں اور چند اسکلز تک محدود کر دیا جاتا ہے- یا پھر او لیولز کے نام پر اس عمر سے زیادہ بوجھ ڈال دیا جاتا ہے- اور تین سو پینسٹھ قیمتی دنوں کے بعد بچے کو پتہ چلتا ہے کہ وہ فیل ہے یا پاس-
اور ہم نے فیل کی صحیح تعریف بھی متعارف نہیں کرائی ہے- حالانکہ ہمارے رسول الله صلی الله علیہ وسلّم ہمیں سب بتا کر گۓ ہیں-
بچے فیل نہیں ہوتے- فیل کا لفظ بچوں کی زندگی اور انکی رپورٹ کارڈ کا حصّہ نہیں ہونا چاہئے- فیل گھر کے بڑے ہوتے ہیں بچوں کو سلیقہ، صفائی، سچ، ایمانداری، امانتداری، نظم و ضبط، احترام انسانیت، جانوروں سے نرمی، چیزوں کی عزت سکھانے میں- فیل اساتذہ ہو جاتے ہیں بچوں کو انکی تعلیم اور زندگی کا تعلق سمجھانے میں- فیل سیاستدان ہو جاتے ہیں بچوں کے لئے اچھا صاف ستھرا خوبصورت معاشرہ تعمیر کرنے میں- فیل پولیس اور ججز ہو جاتے ہیں گلی کوچوں کو بچوں کے لئے پر امن بنانے میں- فیل پڑوسی اور محلّہ دار ہو جاتے بچوں کو تحفّظ کا احساس دینے میں- اور پھر ایسے بڑوں کے بچے بڑے ہو کر فیل ہو جاتے ہیں-
فیل وہ شخص ہوتا ہے جس نے عملی زندگی میں دو تین چار سال گزار لئے ہوں اور پھر بھی اپنے آپ کو کچھ کرنے کے قابل نہیں بنایا- جس کو شعوری طور پر اچھائی اور برائی کو پرکھنے کا سلیقہ آگیا ہو اور پھر بھی وہ برائیوں کی طرف مائل ہو- جس کو تعلیم و تربیت کے مواقع اور عزت و احترام کا ماحول ملا ہو اور پھر بھی وہ تکبّر، تحقیر اور جہالت کا رویہ اپناۓ- فیل وہ ہوتا ہے جس کو معاشرے سے زیادہ اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے- جسے ملک و قوم کی عزت و وقار سے زیادہ اپنے مرتبہ کو قائم رکھنے کی فکر ہوتی ہے- جھوٹ بول کر عزت حاصل کرنے والا اور دلوں کو جیتنے والا فیل ہوتا ہے- جھوٹ اور دھوکہ دیکر مال کمانے والا فیل ہوتا ہے-
فیل پاس کا معیار اسکول کالج کے امتحان نہیں- زندگی ہے- اسکول کالج کے امتحانات تو درجہ بدرجہ تعلیم کا حصّہ ہیں- جن کا مقصد طالب علم کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ اب جن باتوں اور چیزوں میں کمی ہے اسے کس طرح پورا کیا جاسکتا ہے- انکو طریقے بتاۓ جاتے ہیں مختلف مضامین کو سمجھنے کے- کسی بھی مضمون یہ کانسپٹ یا اسکلز میں مہارت کیسے لائی جاتی ہے- اسپیلنگز کیسے یاد کی جاتی ہیں- کیسے حساب کتاب کیا جاتا ہے- اور کیسے یہ سب تعلیم عملی زندگی میں مددگار ثابت ہوتی ہے-
مثالیں دی جاتی ہیں- ہمّت دلائی جاتی ہے- حوصلہ دیا جاتا ہے- زمانے کے اتار چڑھاؤ سمجھاۓ جاتے ہیں- تمام انبیاء اور رسل، اہل بیت، صحابہ کرام، قائداعظم، اقبال، اور وہ پوری ٹیم،ایدھی اور بہت سے ایسے ہی لوگ زندگی کے امتحان میں پاس ہو گۓ- انکے برعکس، ابو جہل، ابو لھب، امیّہ، فرعون، نمرود، یزید، بہت سے بادشاہ اور شہنشاہ اور ایسے ہی مشہور لوگ زندگی کے امتحان میں فیل ہوگۓ-
بچے کیسے فیل ہو سکتے ہیں- بچے تو نہیں بتاتے بڑوں کو کہ کیا کرناہے- وہ تو ان پر بھروسہ کرتے ہیں کہ جو کر رہے ہیں ہمارے بھلے کے لئے کر رہے ہیں- بچے تو نہیں بتاتے اساتذہ کو کہ کیا پڑھانا ہے- وہ تو انحصار کر رہے ہوتے ہیں کہ یہ تعلیم یافتہ ہونے کا دعویٰ کرنے والے ہمیں کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنا سکھائیں گے- لیکن اس بھروسے اور انحصار کر بدلے میں انہیں کیا ملتا ہے- فیلئیر کا خطاب- ناکامی کے طعنے- زندگی بھر کامیاب نہ ہونے کا وژن اور بد دعائیں-
حالانکہ وجہ ہوتی ہے بڑوں کی ہر شعبے میں ایک دوسرے سے تعاون اور اخلاقیات کا فقدان-
No comments:
Post a Comment