Saturday 27 August 2022

Order Creates Order

 والدین کے پاس اپنے بچوں کو اچھا انسان بنانے کے بہت سے مواقع مل جاتے ہیں-  


گھر کے اندر سلام و دعا کا رواج-  قرآن کی تلاوت اور نماز اور دعاؤں کا اہتمام-  گھر کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد-  


گھر کے باہر سلام و دعا کا رواج-  گھر اور مسجدوں کا رابطہ-  گھر سے باہر ماحولیات کی ذمّہ داری-  گھر سے باہر عوامی جگہوں اور چیزوں کی ذمّہ داری-  


اسکول میں اساتذہ کے پاس یہ مواقع نہیں ہوتے اور ہونے بھی نہیں چاہئیں-  


استاد کی ذمّہ داری علم دینے کی ہے-  علم پر تحقیق کرنے کی ہے-  تعلیم کا نظام بنانے کی ہے-  اور یہ بہت ہے-  


استاد کو ماہر نفسیات، ڈاکٹر، آرٹسٹ، ناچ گا کر بچوں کو بہلانے والا کھلونا، مولوی، سماجی کارکن، ماں باپ، ماسی، غلام وغیرہ بنانے سے گریز کریں-  ورنہ نقصان آپکے بچے اور آپکا ہوگا-  


اسکولوں کو کلینک، لائبریری، اسٹوڈیو، آرٹس کونسل، کھیلوں کا اکھاڑا، مسجد، خیراتی ادارہ، گھر وغیرہ بنانے سے گریز کریں-  


تمام والدین ذرا سوچیں-  کہ کیا استاد کا گھر اور خاندان نہیں ہوتا؟  استاد غلام نہیں ہوتا-  یہ استاد کے ساتھ ظلم ہے کہ آنے جانے کا وقت شامل کریں تو وہ دس دس گیارہ گیارہ گھنٹے کی جان توڑ ملازمت کرے-  نہ گھر کے رہتے ہیں نہ اسکول کے قابل-  


والدین کو چاہئے کہ مطالبہ کریں کہ تعلیمی عمل تین چار گھنٹے سے زیادہ کا نہ ہو-  جس میں بہت ہی ضروری مضامین پڑھاۓ جائیں-  تاکہ استاد گھر کی زندگی بھی انجواۓ کرے-  اور بچے بھی گھر جا کر کچھ سکھ کا سانس لیں-  


باقی مشاغل کے لئے معاشرے میں جگہیں ہونی چاہئیں-  کھیلوں کے میدان-  لائبریریاں-  کمپیوٹرز سیکھنے کے ادارے-  وغیرہ 


یہی وہ کاروبار ہوتے ہیں جن سے معاش ملتی ہے-  روزگار بنتا ہے-  یہ سب کچھ مفت میں اسکول میں ملے گا تو نہ تو بچہ ان سے سیکھ سکے گا اور نہ انکا لطف اور فائدہ اٹھا سکے گا-  


آج بچے اردو بھی صحیح لکھ اور بول نہیں پاتے-  کیونکہ صبح سے شام سات آٹھ گھنٹے کی مزدوری کرتے ہیں بے چارے-  تھکی تھکائی غلام ٹیچرز کی ڈگڈگی پر ناچتے ہیں جو انہیں اسکول کی مینجمینٹ نے تھمائی ہوتی ہے-  


اپنے بچوں کو ان سب بے ہودگیوں سے نکال کر ایک آزاد اور با صلاحیت انسان بنانے میں اپنا کردار ادا کریں-  انکو حسن بیان سکھائیں-  انکو کھیلوں کے اصول سکھائیں-  زندگی میں نظم و ضبط پیدا کرنا سکھائیں-  انکو قرآن کے اور سچّے قصّے کہانیاں سنائیں-  انکے ساتھ وقت گزاریں-  انکو سیر کے لئے لے جائیں-  


اللہ نے بچے آپکو دئیے ہیں-  اس لئے انکی ذمّہ داری آپ اٹھائیں-  


جب والدین ہی اپنے بچوں سے بیزار ہوں اور ان سے دور بھاگیں گے تو بھلا اور کون ان سے مخلص ہوگا؟ 


ویسے تو اب جو حالات پیدا ہو چکے ہیں بدتر اور جسکا پورا معاشرہ پوری قوم ذمّہ دار ہے-  قدرت خود بخود اسی طرف لیکر جارہی ہے کہ قوم کو دھوکہ دینے کے لئے بناۓ جانے والے ادارے برباد ہو رہے ہیں-  


جس چیز اور جن لوگوں کی دنیا کو ضرورت نہ ہو وہ ضائع اور تباہ ہی ہو جاتی ہیں-  اور جن نعمتوں کی قدر نہ کی جاۓ وہ چھن جاتی ہیں-  وقت بھی ان میں سے ایک ہے-  وقت اپنے برباد کرنے والوں کو برباد کر کے چھوڑتا ہے-  


خود کو اور اپنے بچوں کو دنیا کے قابل بنائیے-  اللہ کی دنیا کو ایک نظم و ضبط والا نظام-  کیونکہ ایک عالم نے کہا تھا  


Order creates order.

Disorder creates disorder.  

Monday 8 August 2022

اسکول جانے سے پہلے

 اپنے بچوں کو بڑا آدمی بننے کے خواب نہ دکھائیں-  

 

اچھا انسان بننے کے خواب دکھائیں-  

 

کیونکہ اچھا آدمی ہی بڑا بھی ہوتا ہے-   


اپنے بچوں کو مستقبل میں بڑے کام کرنے کے خواب دکھانے کے غم میں مبتلا کرنے کے بجاۓ اسی وقت چھوٹے چھوٹے کام کرنے کی خوشیاں دیں-  کیونکہ بڑے کام تعداد میں کم اور چھوٹے کام تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں-  اور یہ چھوٹے چھوٹے کام دوسروں کی تعریف حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ اللہ کی رضا اور دل کا سکون حاصل کرنے کے لئے ہوتے ہیں-  اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ لوگ ان چھوٹے کاموں کو اہمیت دیتے ہیں یا نہیں-  

 

ہمارے معاشرے کو بڑا آدمی بننے کے خوابوں نے بہت چھوٹا اور غیر محفوظ بنادیا ہے-  جو معاشرے کے طے کردہ اصولوں کے مطابق 'بڑا آدمی" نہیں بن پاتا وہ حسرت و یاس میں مبتلا ہو جاتا ہے-  ناشکرا ہو جاتا ہے-  اسکا اپنی صلاحیتوں سے اعتبار آٹھ جاتا ہے-  اسکا اپنی نیکیوں سے یقین آٹھ جاتا ہے-  وہ اپنے اوپر نازل ہونے والی کروڑوں خیر و برکات کو نظر انداز کردیتا ہے-  رب سے  شکوہ-  لوگوں کی شکایتیں-  حکمرانوں پر الزامات-  زمانے کو برا کہنا-  

 

بچوں کو آزاد رہنا سکھائیں-  اپنے بچوں کے عقائد اپنے گھروں میں مضبوط کریں-  اپنے بچوں کا ایمان اپنے گھروں میں پختہ کریں-  اپنے بچوں کی تربیت کی ذمّہ داری آپکی ہے تو اسے خود پورا کریں-  اپنے بچوں کی ابتدائی تعلیم کا انتظام اپنے گھروں میں کریں-  اپنے بچوں کے اخلاق خود سنواریں-  اپنے بچوںکو  ادب، عزت و احترام کرنا اپنے گھروں میں سکھائیں-  اپنے بچوں کو سوال کرنا اپنے گھروں میں سکھائیں-  


اپنے بچوں کو چیزوں کا احترام سکھائیں-  چیزیں استعمال کرنے کے لئے ہوتی ہیں-  ضائع کرنے کے لئے نہیں-  خراب کرنے کے لئے نہیں-  ہمارے آس پاس کے وسائل پر دوسروں کا بھی حق ہے-  دوسروں کو انکے حق سے محروم کر کے ہم دوسروں کو ہمارے حق سے محروم ہونے کی اجازت دے رہے ہوتے ہیں-  


اپنے بچوں کو اپنے کام سے کام رکھنا سکھائیں-  سواۓ اس وقت کے کہ کسی کی جان پر بنی ہو-  کوئی شدید تکلیف میں مبتلا ہو-  کسی پر کوئی حادثہ گزرا ہوا-  کسی کا کوئی بہت بڑا نقصان ہو گیا ہو-  معاشرہ مصیبت میں ہو-  ماحول آلودہ ہو-  انسانیت خطرہ میں ہو-  ظلم ہو رہا ہو-  لوگوں کا حق مارا جا رہا ہو-  


اپنے بچوں کو اچھے لوگوں کی سچی کہانیاں سنائیں-  اس پر بحث کریں-  کہانی میں برے کردار اچھے ہوتے یا اچھے کردار برے ہوتے تو کیا ہوتا-  اچھے کے اچھے ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے-  برائی کو ختم کرنا کیوں ضروری ہے-  


یہ سب کچھ کریں اس سے پہلے کہ آپکا بچہ اسکول جانے کے قابل ہو-  یہی اصل ہوم اسکولنگ ہے- 


ورنہ آپکا بچہ گھر سے باہر وہ سب کچھ سیکھے گا جس پر آپ بعد میں پچھتاتے ہیں-