Sunday 17 June 2018

بچوں کی عید

عید کا مطلب ہے خوشی-  بڑوں کی عید تو یہ ہے کہ انہوں نے رمضان کو پا لیا-  اپنے گناہ بخشوا لئے-  اپنے رب کو منا لیا- بچوں کو رب، گناہ، ثواب کا مطلب نہیں پتہ ہوتا- اسی لئے بچوں کی عید کا مطلب ہے صرف خوشی-  

عید ہمیشہ بچوں کی ہی ہوتی ہے- عید اچھی بنانی ہو- معاشرہ اچھا بنانا ہو-  پاکستان اچھا بنانا ہو یا پھر دنیا کا مستقبل اچھا بنانا ہو- اس کا صرف ایک ہی حل ہے کہ 
"ہر شہر اور ہر علاقے اور ہر طبقے کے بچوں کو خوش رکھیں"

بچوں کو خوش رکھنے میں معاشرے کے بے شمار فائدے ہیں جنہیں بیان بھی نہیں کیا جاسکتا-  لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ بچوں کی خوشیوں کو سیاست اور ریاکاری کی نظرنہ کریں- ان پر غریبی اور بے چارگی کا لیبل نہ لگائیں کیونکہ انکی عزت نفس شیشے سے زیادہ نازک، دل آئینے سے زیادہ شفاف اور انکی ذات الله کی نشانیوں کی طرح مقدّس ہوتی ہے- 

بچے بچپن میں خوش رہتے ہیں تو
١) دوسروں کو خوش رکھنا انکی شخصیت کا حصّہ بنتا چلا جاتا ہے-  
٢) ہر حال میں خوش رہنا سیکھ جاتے ہیں-  
٣) چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہونے کے عادی ہو جاتے ہیں- 
٤) دوسروں کو خوشی کو فوقیت دینا شروع کر دیتے ہیں-  
٥) شکایتیں کرنا بھول جاتے ہیں-  
٦) جو انہیں خوش رکھتا ہے اسکی عزت کرتے ہیں- 
٧) انکی زندگی چھوٹی چھوٹی خواہشات کی حسرتوں میں کسی مقام پر رکتی نہیں- 
٨) انکی شخصیت میں اونچ نیچ اور امیر غریب کا احساس پیدا نہیں ہوتا- 
٩) انکے دلوں میں معاشرے کے کسی بھی طبقے کے لئے انتقام نہیں پیدا ہوتا- 
١٠) اچھی سوچیں اور اچھے خواب دیکھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے- 
١١) معاشرے کے بالغ افراد پر بھروسہ کرنے لگتے ہیں- 
١٢) جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں ورغلاۓ نہیں جاتے- 
١٣) اپنے معاشرے اور اپنی قوم سے محبّت کرنا سیکھتے ہیں-
١٤) ایک قوم ہونے کا احساس لے کر بڑے ہوتے ہیں-  

بچوں کی خوشیاں انکے چھوٹے چھوٹے شوق جو کہ انکے خواب ہوتے ہیں انکو پورا کرنے میں چھپی ہوتی ہیں-  بچوں کے خواب بہت سستے ہوتے ہیں- چپس، چھولے چاٹ، آئسکریم، میکڈانلڈز کا برگر، گھوڑے اور اونٹ کی سواری، جھولے، پانی میں چھلانگیں، گھاس پر دور تک دوڑیں لگانا، درختوں پر چڑھنا، بھیڑوں بکریوں کو چرانا، یا پھر کہانیاں سننا اور پڑھنا وغیرہ-  لیکن یہ خواب بہت قیمتی بھی ہوتے ہیں کیونکہ ان سستے خوابوں کی تکمیل سے ہی انکی شخصیت میں یقین اور اعتماد پیدا ہوتا ہے-  

کیا (ایسے معاشرے کے لئے جو دنیا میں خیرات و صدقات دینے کے لئے پہلے نمبر پر ہو) بچوں کے ان خوابوں کو پورا کرنا ناممکن ہے اور وہ بھی فوٹو شیشنز اور میڈیا دکھاوا اور ریاکاری کئے بغیر؟  روزانہ بکروں پہ بکرے ذبح کرکے غریبوں کا پیٹ بھرنے کے لئے کروڑوں کا چندہ لٹانے والے اپنے معاشرے کے بچوں کو ایک محفوظ اور خوشگوار ماحول دینے کے قابل نہیں؟  بچوں کو گوشت خوری کی نہیں بلکہ خوشیوں کی ضرورت ہوتی ہے- 

کتنا خرچہ آتا ہوگا ایک پارک کو بچوں کے نقطہ نظر سے بسانے پر جہاں بچوں کا داخلہ مفت ہو؟  کتنا خرچہ آتا ہوگا کسی علاقے میں بچوں کے لئے گھوڑوں کا اصطبل بنانے پر جہاں بچوں کا داخلہ مفت ہو؟  کتنا خرچہ آتا ہوگا صرف بچوں کے لئے اصلی گھاس اور پھولوں کے میدان بنانے پر اور درخت لگانے پر؟  کتنا خرچہ آتا ہوگا جگہ جگہ چھوٹی چھوٹی لائبریریز بنانے پر جہاں معاشرے کے بزرگ بچوں کو قصّے کہانیاں اور کتابیں پڑھ کے سنائیں؟    

یہ کام حکومت کے تو نہیں ہوتے-  حکومت تو بڑے لیول پر معاشرے میں امن و امان قائم رکھنے اور صحت، تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی ذمّہ دار ہوتی ہے-  عوامی لیول پر معاشرے کے لوگ ایک دوسرے کو تعلیم دیتے ہیں-  معاشرے کے لوگ صحت و صفائی کا خیال رکھتے ہیں-  معاشرے کے لوگ ایک دوسرے کو روزگار فراہم کرتے ہیں-  معاشرے کے لوگ ایک دوسرے کی جان و عزت و مال کے محافظ ہوتے ہیں-  اور بد عنوان اور جرائم پیشہ لوگوں کے لئے پولیس کا محکمہ ہوتا ہے جس میں عام لوگوں میں سے ہی لوگ بھرتی کئے جاتے ہیں کہ وہ عام عوام کی جان و مال و عزت کی حفاظت کے انتظامات کریں-  ان سے اوپر عدالتیں ہوتی ہیں-  

ہر کام حکومتوں پر نہیں ڈالا جاتا کیونکہ حکومتیں کر نہیں سکتیں مائیکرو مینجمنٹ-  شہروں، سڑکوں، گلیوں پر چوبیس گھنٹے لوگ رہتے ہیں اسی لئے لوگوں کا کام ہے سڑکوں، گلیوں اور شہروں کو محفوظ بنانا- 

رسول الله صلی الله علیہ وسلّم کی زیادہ تر احادیث عام لوگوں کے ایک دوسرے پر حقوق سے متعلق ہیں-   

حضرت عبدالله ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے فرمایا، "تم میں سے ہر کوئی راعی ہے اپنے ریوڑ کا-  
حکمران عوام کے-  آدمی اپنے خاندان کا-  
عورت اپنے شوہر کے گھر اور بچوں کی-  
ملازم اپنے مالک کے مال کا-"

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَلَا كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ فَالْإِمَامُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى أَهْلِ بَيْتِ زَوْجِهَا وَوَلَدِهِ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ وَعَبْدُ الرَّجُلِ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ أَلَا فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ

جو معاشرہ اپنے بچوں کی خوشیوں اور انکی جان و عزت کے تحفّظ کا انتظام نہیں کرسکتا وہ دنیا کا سب سے بدترین معاشرہ ہوتا ہے اور اسکے بہترین سے بہترین تعلیم یافتہ اور باہنر افراد  کی صلاحیتیں بھی زیرو ہوتی ہیں-  اور ایسے معاشرے کے تمام عالم جاہل اوردینی علماء و فقہاء کا ایمان صفرہوتا ہے-