Saturday 26 April 2014

اتوار بازار

اس بچے کا نام سہیل ہے-  کوئی چودہ پندرہ ہفتوں پہلے میری اس سے پہلی ملاقات ہوئی اتوار بازار میں-  جب سے اب تک شاید پانچ چھ مرتبہ ہم مل چکے ہیں-  پہلی اتوار کو یہ گھر تک میرا سامان چھوڑنے آیا-  میری رفتار سے تقریبا پندرہ بیس منٹ کا پیدل فاصلہ ہے-  دوسری اتوار یہ خود ہی گھر تک آ گیا کہ اگر مجھے ضرورت ہو- میں نے اس کو منع کردیا کہ اگر مجھے آنا ہو گا تو میں آجاونگی- تم میرے گھر مت آنا-  یہ ہر اتوار بازار میں میرا انتظار  کرنے لگا اور میں نے اس کی یہ عادت چھڑانے کے لئے اتوار بازار جانا کم کردیا-  

بازار سے گھر تک راستے میں، میں اس سے بہت سی باتیں پوچھتی اور وہ بڑی عقلمندی سے جواب دیتا-  اچھا خاصہ ڈپلومیٹ لگتا-  اسے پہلی ہی دفعہ یہ اندازہ ہوگیا کہ میرے موضوعات کیا ہوتے ہیں بات کرنے کے لئے-  

بقول اسکے - اسکی عمر دس سال ہے اور اپنے آٹھہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہے-  پانچ بھائی اور تین بہنیں چھوٹی-  نانا، دادا اور یہ خود اتوار بازاروں میں سامان اٹھاتے ہیں-  ماں گھروں میں کام کرتی ہے-  چچا کی شادی اپریل میں ہے یعنی اسی مہینے-  وہ مزدوری کرتا ہے-  یہ خود سرکاری اسکول جاتا ہے اور اس کو اچھا نہیں لگتا کہ اسکول والے کتابیں بیچتے اور فیس لیتے ہیں-  کبھی کبھی یہ اپنے دوستوں کے ساتھ ایف نائن پارک بھی جاتا ہے-  

پہلی مرتبہ جب ہم واپس گھر آرہے تھے تو اس نے راستے میں بھٹہ یا سٹہ کھایا اور کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا- میں نے اسے کہا کہ اسے اس بڑے سے ٹینک میں ڈالو- پھر میں نے اسے تھوڑا لیکچر دیا-  اسکے بعد ہم جب وہاں سے گذرتے وہ اکثر کوڑے پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتا- اکثر بتاتا کہ فلاں جگہ بھی کوڑا پڑا تھا تو اسے اچھا نہیں لگا-  اور دوسرے بچوں کو بھی بتایا کہ یہ بری بات ہے-  گھر میں بھی ذکر کیا-  

اس نے پہلی مرتبہ مجھے آنٹی کہا تو میں نے اسے کہا کہ مجھے مس خان کے نام سے پکارنا-  تو اس نے یہ بات یاد رکھی-  اور باقاعدہ مجھے جتاتا  کہ دیکھیں میں آپ کو مس خان کہتا ہوں-  

ایک دن اس انے ایک دکان سے چند چاول کے دانے اٹھا کر منہ میں ڈال لئے-  میں نے ٹوکا اور دکاندار کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ تم نے ان سے پوچھے بغیر کیوں دانے منہ میں ڈالے-  اس نے فورا کہا کہ آئندہ نہیں کروں گا-  

میں نے اسکی تصویر لی تو بولا کہ مس خان آپ اسے چھاپیں گی میں نے کہا ہاں کمپیوٹر پر چھاپوں گی-  

کبھی وہ بڑوں کے انداز میں کہتا کہ بس جی دو وقت کی روٹی عزت سے مل رہی ہے-  شکر ہے-  

 پھر اس نے مجھ سے اپنے ایسے واقعات شئیر کرنے شروع کردیے جس میں نیکی کا پہلو نمایاں تھا-  مجھے یہ بھی اندازہ ہوا کہ کوئی اور اس سے اتنی باتیں نہیں کرتا ہے -  بلکہ شاید اسکی طرف دیکھتا بھی نہیں -

اپنے تجربے کی بنیاد پر میں یہ کہ سکتی ہوں کہ اسکی باتوں میں سے شاید پچاس فیصد بھی درست نہیں تھیں-  وہ میری نظروں میں اپنا اچھا تاثر پیدا کرنے کے لئے میری مرضی کی باتیں کرتا-    

اور اس کی وجہ کیا تھی-  پہلی اتوار کو میں نے اسے دو سو روپے دے-  جب دوسری اتوار وہ خود میرے گھر آگیا تو مجھے لگا کہ میں نے یقینا اسکی توقع سے زیادہ اجرت دے دی-  حالانکہ میرے لحاظ سے ٹھیک تھی-  کیونکہ میں ٹیکسی بھی لوں تو بھی سو روپے تو اس نے بھی لے ہی لینے تھے دس بارہ گلیوں کے فاصلے کے-  اکثر میں اس سے کہتی کہ تھوڑا سامان میں اٹھا لوں گی باقی تم اٹھا لو اور وہ خوش ہو جاتا-  میں نے اس سے پوچھا کہ تم کو دن پھر میں کتنی مزدوری مل جاتی ہے-  کہنے لگا کبھی سو کبھی ڈیڑھ سو- میں نے پوچھا کہ ایک فیملی کتنے پیسے دے دیتی ہے- کہنے لگا کہ کبھی دس کبھی بیس-  پھر بولا کہ ایک آنٹی مجھے آپ کے گھر سے بھی دور اپنے گھر تک لے گئیں اور انہوں نے پچاس روپے دیے یہ کہہ کر کہ بنتے تو تیس تھے لیکن میں پچاس دے رہی ہوں-  

میں یہ سوچتی ہوں کہ اس بچے کی ذہانت اور معاملہ فہمی کئی ڈگری ہولڈرز سے بڑھ کر ہے-  لیکن اس کو غلط راہ پر ہم نے ہی لگایا ہے-  ہمارے بچے روزانہ سو روپے کے چپس اور جوس کھا پی لیتے ہیں-  لیکن اس بچےکو سو ڈیڑھ سو روپوں کے لئے دن پھر لوگوں کے آگے پیچھے پھرنا پڑتا ہے اپنے نازک نازک کندھوں پر سامان اٹھانا پڑتا ہے-  اپنے گھر والوں کے معاش میں ہاتھ بٹانے کے لئے-  معاشرتی ناانصافی اور طبقات کے اس فرق کی وجہ سے آہستہ آہستہ اسکے دل سے محنت کا تصور ختم ہو جاۓ گا اور یہ بھی انتقام کی آگ میں جلنے لگے گا-  اور سب کے لئے دہشت گردی اور خوف کا باعث بنے گا- 

آزادی اور مساوات کے نام پر ہم نے بہت سے لوگوں کا سکون برباد کر دیا ہے-  یہ وہ لوگ ہیں جنھیں صرف تھوڑی عزت اور دو روٹی چاہیے ہوتی ہے-  اور یہ اسی پر شاکر ہوتے ہیں-  

کیا یہ بھی فوج کا قصور ہے؟ کیا یہ بھی فوج کی ذمّہ داری ہے؟ 
کیا سیلانی والوں کو ان گھرانوں کا خیال آیا کبھی؟
کیا حکومت کے وزیر اعظم سے لے کر نیچے تک تمام جرائم پیشہ افراد کے پاس ان بچوں کے لئے کوئی پلاننگ ہے؟ 


اور یہ تین سال کی بچی ہے-  نام تو نہیں پتہ-  بلڈنگ کے پیچھے خیموں میں رہتی ہے-  اسکے بھائی سرکاری اسکولوں میں جاتے ہیں-  اب سے ایک سال پہلے مجھے بلڈنگ کے باہر ملی اور پولیس والوں کے انداز میں مجھ سے 'پاپڑی' دلانے کی فرمائش کرنے لگی-  پاپڑی یعنی چپس-  میں نے دلادئیے تو اپنے پاس کھڑے بھائیوں کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگی کہ انھیں بھی دلاؤ-  پھر اس نے میرے آنے جانے کے وقت کا اندازہ لگالیا اور جب میرے آنے کا وقت ہوتا اس وقت سڑک پر آجاتی-  ایک دن بازار سے واپسی پر اس نے میرے ہاتھ میں تھیلے دیکھے تو کہنے لگی مجھے بھی دو-  میں نے کہا یہ ارویاں ہیں- یہ پکا کر کھائی جاتی ہیں کچی نہیں-  تو کہنے لگی کوئی گل نئی-  اور ایک اروی لے کر اسے دیکھنے لگی کہ ہے کیسی-  میں نے کہا اچھا تم کھڑی ہو میں تمہاری تصویر بناتی ہوں تو بڑی تمیز کے ساتھہ کھڑی ہو گئی-  پھر موبائل میں اپنی تصویر دیکھ کر خوش ہو گئی- کبھی کبھی اسکے بھائی ایک پلاسٹک کی تھیلی کے آگے دھاگہ باندھ کر بھاگتے ہیں تو تھیلی غبّارے کی طرح انکے پیچھے ہوا میں اڑتی ہے-  اپنے کھلونے خود ایجاد کر لیتے ہیں- 






Thursday 17 April 2014

سائنس - کفر یا ایمان کی تجدید ?Science - Is it kufr or way to Iman

 سائنس لاطینی زبان کے  لفظ  سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں 'علم  knowledge'-  اور لفظ 'علم' عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے 'جاننا یا معلومات ہونا'-  اور علم ہی وہ خصوصیت ہے جس کی بنیاد پر تمام ملائک نے حضرت آدم کو سجدہ کیا تھا- 

سائنسی اصطلاح میں سائنس چیزوں اور واقعات 'علم' حاصل کرنے کا وہ طریقۂ کار ہے جس میں مشاہدے observation، مفروضات hypothesis، تجربات experiments  اور استدلال inferences  کے ذریعے نتائج اخذ کئے جاتے ہیں-  اور انہیں کسی اصول یا قاعدے کی شکل دی جاتی ہے- 

یہ طریقۂ کار بالترتیب انجام دیے جاتے ہیں- 
١- مشاہدہ یعنی چیزوں یا واقعات کا حواس خمسہ کے ذریعے جانچ پڑتال کر کے ابتدائی معلومات حاصل کرنا-  مشاہدہ کا سبب انسان کا فطری تجسس یا ضرورت ہوتی ہے-   
٢- ابتدائی معلومات کی بنیاد پر کچھ سوالات، مفروضات، قیاس اور نظریات کا جنم لینا- اور انکو تحریر کرنا- 
٣- ان سوالات، مفروضات اور نظریات پر بحث اور تحقیق کرنا یا تجربات کرنا- اور اس کے نتیجے میں ٹھوس حقائق اخذ کرنا-  
٤- مشاہدات، مفروضات اور تجربات کے بعد دلائل کو کسی منطقی اصول یا قاعدے کی شکل دینا-  

اکثر علماء کرام اور دینی لوگ سائنس یعنی 'جاننے اور پرکھنے کے طریقۂ کار' کو 'کفر' قرار دیتے ہیں-  اور اسکی وجہ شاید انکا قرآن کی صرف چند آیات پر ایمان ہے-  یہ آیات ہیں جن میں بن دیکھے ایمان لانے والوں کے لئے جنّت اور آگ سے آزادی کی خوش خبریاں ہیں-  اور یہ آیات پڑھتے وقت وہ یہ بھول جاتے ہیں قرآن ہی بن دیکھے ایمان لانے کے ساتھ ساتھ اپنے دل کے اطمینان کے لئے پرکھنے کی اجازت بھی دیتا ہے- حتیٰ کہ پیغمبروں تک نے یہ طریقہ اپنایا-


"بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے بدل بدل کے آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں- جو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹوں پر لیٹے (ہر حال میں) خدا کو یاد کرتے اور آسمان اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے (اور کہتے ہیں) کہ اے پروردگار! تو نے اس کو بے فائدہ نہیں پیدا کیا- تو پاک ہے تو (قیامت کے دن) ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائیو"- 
سوره آل عمران 


اکثر عوام الناس علماء اور مولویوں کے اس قسم کے فتوؤں سے بے یقینی کا شکار ہو جاتی ہے کہ آیا وہ جو بھی علم حاصل کر رہے ہیں وہ کفر تو نہیں اور پھر حاصل بھی کرتے ہیں تو اس شک کے ساتھ کہ وہ گناہ کر رہے ہیں لیکن کیا کریں یہ تو ضروری ہے-  اکثر میڈیکل کے طلباء، انجینرنگ کے طلبا، تیسرے چوتھے سال سے تعلیم چھوڑ کر گشتوں میں شامل ہو جاتے ہیں-  ساری زندگی فضائل اعمال کو رٹتے ہوۓ اور رائیونڈ کے جلسوں میں دین سیکھتے گزار دیتے ہیں-  اور میڈکل اور انجینئرنگ میں کافروں کے ثمرات، جہاد، علم اور ایجادات کو اپنے مطلب کے وقت الله کی مصلحت قرار دے کر استعمال کرتے ہیں-  بہت سے دوسری آسمانی کتابوں کو تو کیا قرآن کو ہی ہاتھہ نہیں لگاتے کہ پتہ نہیں کیا سے کیا سمجھ لیں-  
علامہ اقبال نے کہا 
سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار 
غلامی سے بد تر ہے بے یقینی 

 لفظ 'کفر' کا مادّہ ہے ک ف ر-  اور اسکا مطلب ہے انکار کرنا، رد کرنا، جھٹلانا یعنی سچ معلوم ہوتے ہوۓ بھی غلط بات پر اڑے رہنا-  اور عرف عام میں یہ اچھائی کے رد کرنے اور انکار کرنے اور برائی کے رد کرنے اور انکار کرنے کے معنی دیتا ہے-  ایک مومن شیطانی تعلیمات کا انکار کرتا ہے-  ایک باشعور انسان اپنی غلط خواہشات اور غلط جذبات کا انکار کرتا ہے یا انھیں رد کرتا ہے- 

"یہ خدا کی نعمتوں سے واقف ہیں۔ مگر (واقف ہو کر) اُن سے انکار کرتے ہیں
 اور یہ اکثر ناشکرے ہیں"-
 سوره النحل

شرعی اصطلاح میں اسلام کے کسی بھی ارکان یا شعائر, پیغمبروں، فرشتوں، آسمانی کتابوں، آخرت کا انکار کرنا، انکی سچائی ثابت ہونے کے باوجود انھیں جھوٹ یا غلط ثابت کرنا، ان کا مذاق اڑانا، ان کی تحقیر یا مٹانے کے لئے کوششیں کرنا- یہ سب کفر ہے-   جبکہ  شیطانی تعلیمات کا انکار، اپنی غلط خواہشات اور غلط جذبات کا انکار کرنا یا انھیں رد کرنا ایمان ہے-  


"اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور ان کے بھائی ہارون کو مددگار بنا کر ان کے ساتھ کیا- اور کہا کہ دونوں ان لوگوں کے پاس جاؤ جن لوگوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی۔ (جب تکذیب پر اڑے رہے) تو ہم نے ان کو ہلاک کر ڈالا"-
 سوره الفرقان 

"اور نوح کی قوم نے بھی جب پیغمبروں کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں غرق کر ڈالا اور لوگوں کے لئے نشانی بنا دیا۔ اور ظالموں کے لئے ہم نے دکھ دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے- اور عاد اور ثمود اور کنوئیں والوں اور ان کے درمیان اور بہت سی جماعتوں کو بھی (ہلاک کر ڈالا)"-  
سوره الفرقان 


"اور سب کے (سمجھانے کے لئے) ہم نے مثالیں بیان کیں اور (نہ ماننے پر) سب کا تہس نہس کردیا"-
 سوره الفرقان 

اسلام میں سوال کرنا کفر نہیں-  اعتراض کرنا بھی کفر نہیں-  اپنے دل کی تسلی کے لئے پرکھنا بھی کفر نہیں-  البتّہ تمام مراحل کے نتیجے میں نا حق پر اڑے رہنا کفر ہے-  اگر سوال کرنا، اعتراض کرنا یا پرکھنا کفر ہوتا تو پھر یہ رویہ فرشتے اور رسول کبھی نہ اپناتے- 

اور نہ ہی قرآن اسلامی تعلیمات اور عقیدے کی سچائی کے لئے خود کوئی دلائل پیش کرتا اور نہ یہ کہتا کہ 

"اور یہ لوگ تمہارے پاس جو (اعتراض کی) بات لاتے ہیں ہم تمہارے پاس اس کا معقول اور خوب مشرح جواب بھیج دیتے ہیں"- 
سوره الفرقان 

"(اے پیغمبر ان سے) کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو دلیل پیش کرو"-
 سوره البقرہ، آیت ١١١

" کہہ دو کہ (مشرکو) اگر تم سچے ہو تو دلیل پیش کرو"-
 سوره النمل، آیت ٦٤

"اور اگر تم کو اس (کتاب) میں، جو ہم نے اپنے بندے (محمدﷺ عربی) پر نازل فرمائی ہے کچھ شک ہو تو اسی طرح کی ایک سورت تم بھی بنا لاؤ اور الله کے سوا جو تمہارے مددگار ہوں ان کو بھی بلالو اگر تم سچے ہو"-  
سوره البقرہ  ٢٣

"کہہ دو کہ ملک میں چلو پھرو پھر دیکھو
کہ گنہگاروں کا انجام کیا ہوا ہے"-
 سوره النمل

"کیا ہم فرمانبرداروں کو نافرمانوں کی طرح  محروم کردیں گے؟
 تمہیں کیا ہوگیا ہے کیسی تجویزیں کرتے ہو؟
 کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں (یہ) پڑھتے ہو-
 کہ جو چیز تم پسند کرو گے وہ تم کو ضرور ملے گی- 
 یا تم نے ہم سے قسمیں لے رکھی ہیں جو قیامت کے دن تک چلی جائیں گی کہ جس شے کا تم حکم کرو گے وہ تمہارے لئے حاضر ہوگی- 
 ان سے پوچھو کہ ان میں سے اس کا کون ذمہ لیتا ہے؟
 کیا (اس قول میں) ان کے اور بھی شریک ہیں؟
اگر یہ سچے ہیں تو اپنے شریکوں کو لا سامنے کریں"-
سورہ القلم

"تم کیسے لوگ ہو، کس طرح کا فیصلہ کرتے ہو-
 بھلا تم غور کیوں نہیں کرتے- یا تمہارے پاس کوئی صریح دلیل ہے-
 اگر تم سچے ہو تو اپنی کتاب پیش کرو"- 
سوره الصفات 

" (اے افتراء پردازو) تمہارے پاس اس (قول باطل) کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ تم خدا کی نسبت ایسی بات کیوں کہتے ہو جو جانتے نہیں"- 
سوره یونس 

ذرا قرآن کے لہجے اور انداز گفتگو پر غور کریں-  کیا ملک میں چلنا پھرنا ایک دن میں ہوجاتا ہے؟  کیا چلنے پھرنے کا مطلب یہاں ہوا خوری ہے یا آثار قدیمات پر غور و فکر؟  کیا یہ کھدائیاں ایک دن میں ہو جاتی ہیں یا کہیں سجی سجائی رکھی ہوتی ہیں؟  کیا فرعون کی لاش ایک دن میں مل گئی-  الله چاہتے تو لاش کی جگہ کی نشاندہی کردیتے؟  کیا قرآن کے مقابلے پر ایک سورہ یا آیت ایک دن میں بن جاتی ہے اور اسکے لئے جو الله نے مددگاروں کو بلانے کا کھلا چیلنج دیا ہے کیا وہ ایک دن میں ہو جاتا ہے؟

اور بھلا کیا ضرورت تھی الله کو سائنسی دلائل دینے کی- اس لئے کہ یہی طریقۂ کار انسان کے علم کا ذریعہ ہے- فرشتے تو صرف انبیاء اور رسولوں پر نازل ہوتے ہیں-  جب قرآن پڑھیں تو دیکھیں کہ سائنس یعنی علوم کی طرف رغبت کرنے والوں کو الله نے 'عقل والوں'، 'سوچنے والوں'، 'غور کرنے والوں'، 'شکر کرنے والوں' کا درجہ دیا ہے- بشرطیکہ وہ اس سے الله کی طرف راغب رہیں- 

دلیل کیسے پیش کی جاتی ہے-  دلیل کسی بھی سیکھنے یا جاننے کے عمل کا آخری مرحلہ ہوتا ہے جسے کسی اصول یا قاعدے کی شکلدینا باقی ہوتا ہے-   اور اس سے پہلے مشاہدات، مفروضات، قیاس آرائیاں، سوالات، بحث، تحقیق، تجربات کے مراحل سے گذرنا پڑتا ہے-  اور نہ تو یہ کسی عدالت کا طریقۂ کار ہوتا ہے اور نہ ہی قرآنی حکمت عملی ہے-  کہ سنے سناۓ بیان یا الزام پر یا صفائی اور صلح کے موقع دیے بغیر سزائیں سنا دی جائیں- 


قرآن کی نزولی کے متعلق اعتراض  کا جواب 
"اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر قرآن ایک ہی دفعہ کیوں نہیں اُتارا گیا۔
 اس طرح (آہستہ آہستہ) اس لئے اُتارا گیا کہ اس سے تمہارے دل کو قائم رکھیں۔ اور اسی واسطے ہم اس کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے رہے ہیں"- 
سوره الفرقان 


فرشتوں کا الله سے سوال
"اور جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں (اپنا) نائب بنانے والا ہوں۔ انہوں نے کہا۔ کیا آپ اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتے ہیں جو خرابیاں کرے اور کشت وخون کرتا پھرے اور ہم آپکی تعریف کے ساتھ تسبیح وتقدیس کرتے رہتے ہیں۔ فرمایا میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے"-
 سوره البقرہ ٣٠ 



بنی اسرائیل کے سوالات الله سے حضرت موسیٰ کے ذریعے
" اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہالله تم کو حکم دیتا ہے کہ ایک بیل ذبح کرو۔ وہ بولے، کیا تم ہم سے ہنسی کرتے ہو۔ (موسیٰ نے) کہا کہ میں الله کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں- انہوں نے کہا کہ اپنے پروردگار سے التجا کیجئے کہ وہ ہمیں یہ بتائے کہ وہ بیل کس طرح کا ہو۔ (موسیٰ نے) کہا کہ پروردگار فرماتا ہے کہ وہ بیل نہ تو بوڑھا ہو اور نہ بچھڑا، بلکہ ان کے درمیان (یعنی جوان) ہو۔ جیسا تم کو حکم دیا گیا ہے، ویسا کرو- انہوں نے کہا کہ پروردگار سے درخواست کیجئے کہ ہم کو یہ بھی بتائے کہ اس کا رنگ کیسا ہو۔ موسیٰ نے کہا ، پروردگار فرماتا ہے کہ اس کا رنگ گہرا زرد ہو کہ دیکھنے والوں (کے دل) کو خوش کر دیتا ہو- انہوں نے کہا کہ (اب کے) پروردگار سے پھر درخواست کیجئے کہ ہم کو بتا دے کہ وہ اور کس کس طرح کا ہو، کیونکہ بہت سے بیل ہمیں ایک دوسرے کے مشابہ معلوم ہوتے ہیں، (پھر) خدا نے چاہا تو ہمیں ٹھیک بات معلوم ہو جائے گی- موسیٰ نے کہا کہالله فرماتا ہے کہ وہ بیل کام میں لگا ہوا نہ ہو، نہ تو زمین جوتتا ہو اور نہ کھیتی کو پانی دیتا ہو۔ اس میں کسی طرح کا داغ نہ ہو۔ کہنے لگے، اب تم نے سب باتیں درست بتا دیں۔ غرض (بڑی مشکل سے) انہوں نے اس بیل کو ذبح کیا، اور وہ ایسا کرنے والے لگتے تو نہیں تھے-  اور جب تم نے ایک شخص کو قتل کیا، تو اس میں باہم جھگڑنے لگے۔ لیکن جو بات تم چھپا رہے تھے، الله اس کو ظاہر کرنے والا تھا-  تو ہم نے کہا کہ اس بیل کا کوئی سا ٹکڑا مقتول کو مارو۔ اس طرح الله مردوں کو زندہ کرتا ہے اور تم کو
اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھو"-
 سورہ البقرہ ٦٨

الله کا ایک شخص کے سوال پر ثبوت پیش کرنا - سو سال کے عرصہ میں 
"یا اسی طرح اس شخص کو (نہیں دیکھا) جسکا ایک گاؤں سے، جو اپنی چھتوں پر گرا پڑا تھا، اتفاق گزر ہوا۔ تو اس نے کہا کہ الله اس (کے باشندوں) کو مرنے کے بعد کیونکر زندہ کرے گا۔ توالله نے اس کی روح قبض کرلی (اور) سو برس تک (اس کو مردہ رکھا) پھر اس کو جلا اٹھایا اور پوچھا تم کتنا عرصہ (مرے)رہے ہو اس نے جواب دیا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم۔الله نے فرمایا (نہیں) بلکہ سو برس (مرے) رہے ہو۔ اور اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ (اتنی مدت میں مطلق) سڑی بسی نہیں اور اپنے گدھے کو بھی دیکھو (جو مرا پڑا ہے) غرض یہ ہے کہ ہم نے تم کو لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانی بنائیں اور (ہاں گدھے) کی ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم ان کو کیونکر جوڑے دیتے اور ان پر (کس طرح) گوشت پوست چڑھا دیتے ہیں۔ جب یہ واقعات اس کے مشاہدے میں آئے تو بول اٹھا کہ میں یقین کرتا ہوں کہ الله ہر چیز پر قادر ہے"-
سوره البقرہ ٢٥٩

 الله کا طریقۂ کار حضرت انراہیم  کے ایمان کی تسلی کے لئے 
"اور جب ابراہیم نے کہا کہ اے پروردگار مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کیونکر زندہ کرے گا۔ الله نے فرمایا کیا تم اس پر ایمان نہیں رکھتے- انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ لیکن (میں دیکھنا) اس لئے (چاہتا ہوں) کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کرلے۔ الله نے فرمایا کہ چار جانور پکڑوا کر اپنے پاس منگا لو (اور ٹکڑے ٹکڑے کرادو) پھر ان کا ایک ٹکڑا ہر ایک پہاڑ پر رکھوا دو پھر ان کو بلاؤ تو وہ تمہارے پاس دوڑتے چلے آئیں گے۔ اور جان رکھو کہ الله غالب اور صاحب حکمت ہے"- سورہ البقرہ ٢٦٠ 


الله کا اونٹ،  آسمان، پہاڑوں اور زمین کی طرف توجہ دلانا 
"یہ لوگ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے (عجیب )پیدا کیے گئے ہیں- اور آسمان کی طرف کہ کیسا بلند کیا گیا ہے- اور پہاڑوں کی طرف کہ کس طرح کھڑے کیے گئے ہیں- اور زمین کی طرف کہ کس طرح بچھائی گئی"-  
سوره الغاشیہ 

ہدایت، نصیحت اور ایمان بالآخرہ کے سائنسی طریقۂ کار کی طرف رغبت 
"کیا انہوں نے اپنے اوپر آسمان کی طرف نگاہ نہیں کی کہ ہم نے اس کو کیونکر بنایا اور (کیونکر) سجایا اور اس میں کہیں شگاف تک نہیں- اور زمین کو (دیکھو اسے) ہم نے پھیلایا اور اس میں پہاڑ رکھ دیئے اور اس میں ہر طرح کی خوشنما چیزیں اُگائیں- تاکہ رجوع لانے والے بندے ہدایت اور نصیحت حاصل کریں- اور آسمان سے برکت والا پانی اُتارا اور اس سے باغ وبستان اُگائے اور کھیتی کا اناج- اور لمبی لمبی کھجوریں جن کا گابھا تہہ بہ تہہ ہوتا ہے-
 (یہ سب کچھ) بندوں کو روزی دینے کے لئے (کیا ہے) اور
اس (پانی) سے ہم نے شہر مردہ (یعنی زمین افتادہ) کو زندہ کیا۔
(بس) اسی طرح (قیامت کے روز) نکل پڑنا ہے"- 
سورہ قاف 

توحید کے ثبوت 
ریپروڈکشن، پانی کی قسمیں اور اسکے فوائد، دن رات اور نظام شمسی 
"اور الله ہی نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے پھر تم کو جوڑا جوڑا بنا دیا۔ اور کوئی عورت نہ حاملہ ہوتی ہے اور نہ جنتی ہے مگر اس کے علم سے۔ اور نہ کسی بڑی عمر والے کو عمر زیادہ دی جاتی ہے اور نہ اس کی عمر کم کی جاتی ہے مگر (سب کچھ) کتاب میں (لکھا ہوا) ہے۔ بےشک یہ  الله کو آسان ہے- اور دونوں دریا (مل کر) یکساں نہیں ہوجاتے۔ یہ تو میٹھا ہے پیاس بجھانے والا۔ جس کا پانی خوشگوار ہے اور یہ کھاری ہے کڑوا۔ اور سب سے تم تازہ گوشت کھاتے ہو اور زیور نکالتے ہو جسے پہنتے ہو۔ اور تم دریا میں کشتیوں کو دیکھتے ہو کہ (پانی کو) پھاڑتی چلی آتی ہیں تاکہ تم اس کے فضل سے (معاش) تلاش کرو اور تاکہ شکر کرو- وہی رات کو دن میں داخل کرتا اور (وہی) دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو کام میں لگا دیا ہے۔ ہر ایک ایک وقت مقرر تک چل رہا ہے۔ یہی  الله تمہارا پروردگار ہے اسی کی بادشاہی ہے۔ اور جن لوگوں کو تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے برابر بھی تو (کسی چیز کے) مالک نہیں"- 
سوره فاطر 

توحید کے ثبوت - پانی اور نباتات کا قدرتی نظام  
"بھلا کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور (کس نے) تمہارے لئے آسمان سے پانی برسایا۔ (ہم نے) پھر ہم ہی نے اس سے سرسبز باغ اُگائے۔ تمہارا کام تو نہ تھا کہ تم اُن کے درختوں کو اگاتے۔ تو کیا  الله کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہے؟ (ہرگز نہیں) بلکہ یہ لوگ رستے سے الگ ہو رہے ہیں"- 
سورہ النمل 

توحید کے ثبوت  - پانی کے نظام 
"بھلا کس نے زمین کو قرار گاہ بنایا اور اس کے بیچ نہریں بنائیں اور اس کے لئے پہاڑ بنائے اور (کس نے) دو دریاؤں کے بیچ اوٹ بنائی- تو کیا الله کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ (ہرگز نہیں) بلکہ ان میں اکثر دانش نہیں رکھتے"-
 سورہ النمل 

توحید کے ثبوت  - زندگی آسان کرنے والے خیالات کا آنا- ہواؤں کا نظام 
"بھلا کون تم کو جنگل اور دریا کے اندھیروں میں رستہ بناتا ہے اور (کون) ہواؤں کو اپنی رحمت کے آگے خوشخبری بناکر بھیجتا ہے- تو کیا  الله کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ (ہرگز نہیں)۔ یہ لوگ جو شرک کرتے ہیں الله(کی شان) اس سے بلند ہے"-
 سورہ النمل 

توحید کے ثبوت  - نظریۂ ارتقاء اور نظریہ تخلیق 
"بھلا کون خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا۔ پھر اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے اور (کون) تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے- تو کیا الله کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے (ہرگز نہیں)
 کہہ دو کہ (مشرکو) اگر تم سچے ہو تو دلیل پیش کرو"-
 سورہ النمل 

نبوت اور رسالت کے اعتراض یا توہین رسالت و نبوت پر منطقی جواب 
" اور جب لوگوں کے پاس ہدایت آگئی تو ان کو ایمان لانے سے اس کے سوا کوئی چیز مانع نہ ہوئی کہ کہنے لگے کہ کیا الله نے آدمی کو پیغمبر کرکے بھیجا ہے- کہہ دو کہ اگر زمین میں فرشتے چلتے پھرتے اور بستے ہوتے تو ہم اُن کے پاس فرشتے کو ہی پیغمبر بنا کر بھیجتے"-
 سورہ بنی اسرائیل ٩٥

موت کے بعد زندگی پر اعتراض اور انکار کرنے والوں کو سائنسی جواب 
"کیا انسان خیال کرتا ہے کہ یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا؟ 
 کیا وہ منی کا جو رحم میں ڈالی جاتی ہے ایک قطرہ نہ تھا؟
 پھر لوتھڑا ہوا پھر اس کو بنایا پھر (اس کے اعضا کو) درست کیا
 پھر اس کی دو قسمیں بنائیں (ایک) مرد اور (ایک) عورت
 کیا اس خالق کو اس بات پر قدرت نہیں کہ مردوں کو جلا اُٹھائے؟"
سوره القیامہ 

علم التشریح - پرندوں کی بناوٹ اور حرکات پر غور 
"کیا انہوں نے اپنے سروں پر اڑتے ہوئے جانوروں کو نہیں دیکھا جو پروں کو پھیلائے رہتے ہیں اور ان کو سکیڑ بھی لیتے ہیں۔ الله کے سوا انہیں کوئی تھام نہیں سکتا۔ بےشک وہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے"- 
سوره الملک

انسان کی بے بسی کی دلیل 
"کہو کہ بھلا دیکھو تو اگر تمہارا پانی خشک ہوجائے تو کون ہے جو تمہارے لئے شیریں پانی کا چشمہ بہا لائے"- 
سوره الملک 

ساۓ کے بارے میں علم 
"بلکہ تم نے اپنے پروردگار (کی قدرت) کو نہیں دیکھا کہ وہ سائے کو کس طرح دراز کر (کے پھیلا) دیتا ہے۔ اور اگر وہ چاہتا تو اس کو (بےحرکت) ٹھیرا رکھتا پھر سورج کو اس کا رہنما بنا دیتا ہے- پھر اس کو ہم آہستہ آہستہ اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں-"  
سوره الفرقان 

پانی کی قسمیں 
"اور وہی تو ہے جس نے دو دریاؤں کو ملا دیا ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری چھاتی جلانے والا۔ اور دونوں کے درمیان ایک آڑ اور مضبوط اوٹ بنادی"-
 سوره الفرقان 

آسمانوں کا علم 
"اور بڑی برکت والا ہے جس نے آسمانوں میں برج بنائے اور ان میں (آفتاب کا نہایت روشن) چراغ اور چمکتا ہوا چاند بھی بنایا"- 
سوره الفرقان 

نظام شمسی 
اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بنایا۔ (یہ باتیں) اس شخص کے لئے جو غور کرنا چاہے یا شکرگزاری کا ارادہ کرے (سوچنے اور سمجھنے کی ہیں)"- 
سورہ الفرقان   


"ہم نے تم کو (پہلی بار بھی تو) پیدا کیا ہے تو تم (دوبارہ اُٹھنے کو) کیوں سچ نہیں سمجھتے؟" -
 سورہ الواقعہ 

تخلیق کا عمل 
"دیکھو تو کہ جس (نطفے) کو تم (عورتوں کے رحم میں) ڈالتے ہو- کیا تم اس (سے انسان) کو بناتے ہو یا ہم بناتے ہیں؟"- سوره الواقعہ 

میڈیکل/جینیاتی سائنس 
"اور تم نے پہلی پیدائش تو جان ہی لی ہے۔ پھر تم سوچتے کیوں نہیں؟"- سوره الواقعہ 

فارمنگ 
"بھلا دیکھو تو کہ جو کچھ تم بوتے ہو- تو کیا تم اسے اُگاتے ہو یا ہم اُگاتے ہیں؟  اگر ہم چاہیں تو اسے چورا چورا کردیں اور تم باتیں بناتے رہ جاؤ- (کہ ہائے) ہم تو مفت تاوان میں پھنس گئے- بلکہ ہم ہیں ہی بےنصیب"-
 سورہ الواقعہ 

پانی کا نظام 
"بھلا دیکھو تو کہ جو پانی تم پیتے ہو- کیا تم نے اس کو بادل سے نازل کیا ہے یا ہم نازل کرتے ہیں؟  اگر ہم چاہیں تو ہم اسے کھاری کردیں پھر تم شکر کیوں نہیں کرتے؟-
 سوره الواقعہ 

توانائی 
"بھلا دیکھو تو جو آگ تم درخت سے نکالتے ہو- کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرتے ہیں؟  ہم نے اسے یاد دلانے اور مسافروں کے برتنے کو بنایا ہے" - 
سوره الواقعہ 

میڈیکل سائنس 
"پس اگر تم کسی کے بس میں نہیں ہو- تو اگر سچے ہو تو روح کو پھیر کیوں نہیں لیتے؟" - 
سوره الواقعہ 

 "تو انسان کو چاہیئے کہ اپنے کھانے کی طرف نظر کرے- بے شک ہم ہی نے پانی برسایا- پھر ہم ہی نے زمین کو چیرا پھاڑا- پھر ہم ہی نے اس میں اناج اگایا-  اور انگور اور ترکاری- اور زیتون اور کھجوریں- اور گھنے گھنے باغ- اور میوے اور چارا- (یہ سب کچھ) تمہارے اور تمہارے چارپایوں کے لیے بنایا"-
 سوره عبس 

"اور تمہارے لیے چارپایوں میں بھی (مقام) عبرت (وغور) ہے کہ ان کے پیٹوں میں جو گوبر اور لہو ہے اس سے ہم تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے خوشگوار ہے"-
 سوره النحل 

"اور کھجور اور انگور کے میووں سے بھی (تم پینے کی چیزیں تیار کرتے ہو کہ ان سے شراب بناتے ہو) اور عمدہ رزق (کھاتے ہو) جو لوگ سمجھ رکھتے ہیں ان کے لیے ان (چیزوں) میں (قدرت خدا کی) نشانی ہے"- سوره النحل 

"اور تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھیوں کو ارشاد فرمایا کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور اونچی اونچی چھتریوں میں جو لوگ بناتے ہیں گھر بنا"- سوره النحل 

"اور ہر قسم کے میوے کھا۔ اور اپنے پروردگار کے صاف رستوں پر چلی جا۔ اس کے پیٹ سے پینے کی چیز نکلتی ہے جس کے مختلف رنگ ہوتے ہیں اس میں لوگوں (کے کئی امراض) کی شفا ہے۔ بےشک سوچنے والوں کے لیے اس میں بھی نشانی ہے"-  
سوره النحل 

"اور الله ہی نے تم کو تمہاری ماؤں کے شکم سے پیدا کیا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے۔ اور اس نے تم کو کان اور آنکھیں اور دل (اور اُن کے علاوہ اور) اعضا بخشے تاکہ تم شکر کرو"-
 سوره النحل 

" یہاں تک کہ جب اس (فرعون) کو غرق (کے عذاب) نے آپکڑا تو کہنے لگا کہ میں ایمان لایا کہ جس (الله) پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں فرمانبرداروں میں ہوں- (جواب ملا کہ) اب (ایمان لاتا ہے) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا اور مفسد بنا رہا- تو آج ہم تیرے بدن کو (دریا سے) نکال لیں گے تاکہ تو پچھلوں کے لئے عبرت ہو۔ اور بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے بےخبر ہیں"- 
سوره یونس 

یہ قرآن قیامت تک کے لئے رہنمائی اور ہدایت ہے-  اور اس میں دی گئیں دلیلیں بھی قیامت تک کے لئے ان کے لئے کھلی للکار ہیں جو یا تو ایمان لانے والے نہیں یا پھر ایمان کے لئے دلائل کے منتظر ہوتے ہیں-  قرآن کا مقصد سزا نہیں، اصلاح ہے-  فرعون کو بھی سزا اس وقت دی گئی جب پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اسکے پاس دلائل دے کر بھیجا گیا اور وہ پھر بھی نہ مانا-  لیکن ان دلائل کے نتیجے میں بہت سے جادوگر ایمان لے آۓ تھے-  یہی قصہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کا اپنے باپ اور قوم کے ساتھہ ہوا-  اور یہی بات باقی نبیوں کے ساتھ ہوئی-  

قرآن کریم کے طریقہ یعنی الله سبحانہ و تعالی کے طریقے اور محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلّم اور دوسرے انبیاء کرام کے طریقوں کو دیکھیں تو ان میں ذرا بھی فرق نظر نہیں آۓ گا-  کیونکہ سب کا مقصد ہی اصلاح کرنا تھا اور سزا کی صورت میں پہلے حجت قائم کرنا تاکہ مجرم مطمئن ہو جاۓ کہ اسے جو سزا دی جارہی ہے وہ بالکل صحیح ہے اور اسکا جرم قابل تعزیر ہے-  

تبلیغی جماعت والوں کو اور دوسری دینی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ قرآن کی طرف لوگوں کی عقل اور دل کے دروازے بند نہ کریں-  یہ مولویوں کی کتاب نہیں-  الله کی کتاب ہے اسکے بندوں کے لئے-  قرآن اور بندوں کے درمیان رکاوٹ بننا تو خود ہی جہنّم کے راستوں میں سے ایک راستہ ہے-  
جسے علامہ اقبال نے کہا کہ 
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے 
پیران کلیسا کو کلیسا سے ہٹا دو 

لوگوں کو الله سے ڈرائیں- لیکن کچھ جانے، سیکھنے اور کچھ کرنے کے عمل سے نہ ڈرائیں-  یہی تو راستہ ہے حق اور ناحق کی پہچان کا- کیوں قرآن کو اور قرآن کے ماننے والوں کو جماعتوں اور تنظیموں میں تقسیم کردیا ہے؟  یہ علم کو کیوں دینی اور دنیاوی تعلیم میں تقسیم کردیا ہے؟  یہ دینی اور دنیاوی تعلیم کیا ہے؟  کیا دنیا کسی اور نے بنائی ہے جو دنیا کی تعلیم کفر ہے؟  کیا دین کو پہچاننے کا کوئی اور راستہ بتایا ہے قرآن نے؟  عوام کے منہ سے زبان لے کر اور خود کو انکی آنکھیں اور ذہن بنا کر صرف جہالت کا راستہ ہموار کیا جا سکتا ہے-  ایمان اور علم کا نہیں-  کیوں لوگوں کے عقائد کا بوجھ خود پر لیتے ہیں-


"اور کوئی اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔ اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا اپنا بوجھ بٹانے کو کسی کو بلائے تو کوئی اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا
 اگرچہ قرابت دار ہی ہو"-
 سوره فاطر 

قرآن علوم کا بہتا ہوا دریا ہے- یہ ہر مزاج، ہر سوال اور ہر قسم کی جستجو کی پیاس بجھاتا ہے-  

قرآن روح کی غذا ہے-  کیونکہ روح بھی نور ہے اور قرآن بھی نور ہے-  جبکہ موسیقی نور نہیں بلکہ مادّی اشیاء چاہے وہ انسانی یا حیوانی جسم کے اعضاء ہوں یا کوئی اور آلہ موسیقی یا ماحول میں موجود ہوا، پانی، اور دوسرے عناصر کی آوازیں-  اور اس موسیقی کا تعلق روح سے نہیں انسانی نفسیات سے ہے- 

کلام کہتے ہیں بات کو-  قرآن الله کا کلام یعنی بات ہے-  جو اپنے متکلّم کی تسلی کرتا ہے-  اپنے مخاطب کبھی دلائل کی روشنی میں، کبھی تنبیہ سے، کبھی خوف اور کبھی حرص دلا کر اندھیروں سے اجالوں کی طرح لاتا ہے-  


"وہی تو ہے جو اپنے بندے پر واضح آیتیں نازل کرتا ہے تاکہ تم کو اندھیروں میں سے نکال کر روشنی میں لائے۔ بےشک الله تم پر نہایت شفقت کرنے والا (اور) مہربان ہے"- 
سوره الحدید 

اور جو لوگ ان سارے طریقۂ کار کے بغیر سزاؤں کے فی الفور نفاذ پر یقین رکھتے ہیں وہ صرف اور صرف ابلیس کی انا کو تسکین پہنچاتے ہیں-


"شیطان تمہارا دشمن ہے تم بھی اسے دشمن ہی سمجھو"-
 سوره فاطر




Saturday 12 April 2014

Montessori Curriculum - مونٹیسوری خاکۂ نصاب

Montessori Curriculum is composed of the following five basic areas of knowledge and skills;

1- Exercises of Practical Life (EPL)
    Skills that are needed to perform daily routine tasks

2- Sensorial 
    (11 Senses - visual, chromatic, kinesthetic, auditory, olfactory, 
      gustatory, tactile, thermic, baric, stereognostic and equilibrium)

3- Language 
    (Reading and Writing)

4- Mathematics
    Counting, measuring, problem solving skills
5- Culture
    (Geography, History, Social Studies, Zoology, Botany, Science          Experiments, Creativity or Handwork, Cosmic Peace     
     Education) 

مونٹیسوری خاکۂ نصاب کو بچوں کے مزاج اورتعلیمی و تربیتی ضروریات کے مطابق علم و مہارت کے پانچ بنیادی حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے-  

١- روز مرّہ زندگی کے کاموں کی مشق 

٢- سینسوریل یعنی انسانی حسوں کو تیز کرنے کی مشقیں 
    اس میں  حواس خمسہ کے علاوہ مزید چھ حسیں بھی شامل کی گئی ہیں-  
    دیکھنے کی حس، رنگوں کو پہچاننے کی حس، ترتیب پہچاننے کی حس،    
   سننے کی حس، سونگھنے کی حس، ذائقہ کی حس، چھونے کی حس، حرارت 
  کی حس، وزن کی حس, بغیر دیکھے چھو کر پہچاننے کی حس اور وزن کی 
    حس)

٢- زبان و کلام 
    اس میں لکھنا اور پڑھنا شامل ہیں-  

٣-  ریاضی 

٥- ثقافت و تہذیب 
   اس میں جغرافیہ، تاریخ، معاشرتی علوم، علم حیوانیات، علم نباتات، سائنسی تجربات، صناعی، دستکاری، مصوری اور کائناتی امن و ہم آہنگی شامل ہیں)

مونٹیسوری ماحول میں یہ تمام علوم جمالیاتی ذوق کے ساتھ ایک مربوط شکل میں نظر آتے ہیں- جیسے کہ یہ دنیا اور کائنات-  ایک بڑے سے ہال یا کمرے کا ہر حصّہ کسی نہ کسی قسم کے خاص منظر کو پیش کر رہا ہوتا ہے-  ایک حصّے میں روز مرّہ زندگی کے استعمال کی چیزیں تو دوسرے حصّے میں کتابیں، تیسرے حصّے میں ذہنی آزمائش کے سامان تو چوتھے حصّے میں قدرتی عناصر-  بچہ اس ماحول میں کسی بھی صورت نہ تو بیزار ہو سکتا ہے اور نہ ہی فرصت سے بیٹھہ سکتا ہے کیونکہ کوئی نہ کوئی چیز اس کی توجہ اپنی طرف کھینچ لے گی-  
اب یہ اساتذہ کی صلاحیتوں کا امتحان ہے کہ کس طرح اس ماحول کو منظّم رکھتے ہیں-  اور کس طرح مسلسل بچوں کی دلچسپی کے سامان مہیّا کرتے ہیں-  

Presentations 

1- The presentations from any of these areas should, 
- be brief and lively, precise and clear
- be delivered with the economy of words
- be delivered with the economy of movement
- not include any harmful elements

2- Seeking child's consent is necessary before presenting the exercises.

3- The teacher must collect all the material and check if it is functioning before inviting the child to the activity.

تعارف یا مظاہرہ 
١- علم و ہنر کے ان تمام حصّوں میں سے کسی بھی چیز کا تعارف 
- مختصر، واضح اور دلچسپ انداز میں کرانا چاہیے- 
- مناسب الفاظ کا چناؤ کرنا چاہیے 
- اپنے جسم کو ضرورت کے مطابق حرکت دیں- 
- کسی ایسے طریقے اور چیزوں سے نہ کرائیں جس سے نقصان کا اندیشہ ہو- 

٢- کسی بھی پریزنٹیشن سے پہلے بچے کی مرضی ضرور معلوم کریں- 

٣- پریزنٹیشن سے متلعق تمام اشیاء جمع کرلیں اور دیکھ لیں کہ وہ کام کے قابل ہوں- 

Objectives
  1. To refine fine motor skills
  2. To refine gross motor skills
  3. To refine five senses and six sub-senses
  4. To keep the child on normality
  5. To build confidence 
  6. To help the child for working independent
  7. To develop the sense of self-respect
  8. To diminish the chances of personality disorder
  9. To increase the knowledge and vocabulary
  10. To develop patience, kindness and politeness 

اغراض و مقاصد 
١- بچے کی چھوٹے موٹے کام کرنے کی صلاحیت کو بہتر کرنا- 
٢- بچے کی بھاگ دوڑ اور مشکل کام کرنے کی صلاحیت کو بہتر کرنا- 
٣- حواس خمسہ اور اس سے مطلق چھ مزید حسوں کو بہتر بنانا-
٤- بچے کو فطرت کی راہ پر قائم رکھنا- 
٥- بچے میں اعتماد پیدا کرنا- 
٦- بچے کو اپنے کام خود کرنے کے لئے تیّار کرنا- 
٧- بچے میں عزت نفس پیدا کرنا- 
٨- بچے میں منفی اثرات کے رجحان کو کم سے کم کرنا- 
٩- بچے کے علم اور ذخیرہ الفاظ میں اضافہ کرنا- 
١٠- بچے میں صبر، رحمدلی اور نرم مزاجی پیدا کرنا- 








Friday 11 April 2014

The Montessori Principles and Methodology - مونٹیسوری اصول اور طریقہ کار

Montessori Principles

1- Physical and Spiritual Aspects of the 'Favorable Environment'

    This principle has been discussed in the post 'Three Elements of Montessori System'.


2- Vertical Grouping for (Transferency of Role)
    Montessori thinks that the child in a vertical grouping or a mixed     age environment, 
   - settles downs quickly.
   - absorbs behaviour from the children of his level and size rather        than being instructed by a teacher who is much taller and larger        than him/her.
   - feels kind and helpful to a new child and introduces the         
      environment to him/her happily.

3- The philosophy is not culture or religion biased.  Since it is based on human nature, it allows all religions and cultures to fit in it for the best possible human development.

مونٹیسوری نظام تعلیم کے اصول 

١- مناسب اور پسندیدہ ماحول 
    یہ اصول 'مونٹیسوری تعلیم کے تین اجزاء' میں بیان ہو چکا ہے- 

٢- مختلف عمروں کے بچوں کا ماحول 
    مونٹیسوری ماحول ایک کھلا ماحول ہوتا ہے جس میں مختلف عمروں کے بچے ایک ساتھہ وقت گزارتے ہیں-  بڑے بچے نئے آنے والے بچوں کے لئے ایک رہنما کا کردار ادا کرنے ہیں اور اسے ماحول سے متعارف کرانے میں اساتذہ کے معاون ثابت ہوتے ہیں-  اس سے ان میں ایک معاشرتی ذمّہ داریاں پوری کرنے کا سلیقہ آجاتا ہے- جبکہ چھوٹے بچے بڑے بچوں کو دیکھ کر بہت سی عادات، نظم و ضبط اور علم اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں-  اس طرح کا ماحول انکے گھر سے مشابہ ہوتا ہے جہاں مختلف عمروں کے لوگ ایک خاندان کی صورت میں رہتے ہیں-  

٣- مونٹیسوری فلسفۂ تعلیم و تربیت کسی بھی مذھب یا ثقافت کے نہیں-  چونکہ کس کی بنیاد انسانی فطرت پر ہے اس لئے یہ ہر مذھب اور ہر ثقافت کے ماننے والوں کے لئے قابل عمل ہے-  

مونٹیسوری فلسفہ پڑھیں اور اندازہ لگائیں کہ کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں دس گیارہ سال تک کے بچے تو ورلڈ ریکارڈ بنا لیتے ہیں- لیکن نہ تو اس کے بعد ان کا نام کہیں آتا ہے اور نہ ہی پندرہ سال کے بعد کی عمر بعد ورلڈ ریکارڈ بنانے کی اتنی مثالیں موجود ہیں-  اور خاص طور پر چالیس سال کے بعد 'مسکینی و محکومی' کو زندگی کا تقاضہ سمجھ لئے جاتا ہے-  

Montessori Methodology

The purpose of Early Childhood Montessori system is to introduce the child to the world he/she is going to live in, to prepare his/her mind for seeking opportunities and to play a positive role in maintaining the world. 


مونٹیسوری طریقۂ کار 
مونٹیسوری تعلیم و تربیت کا مقصد بچے کو اس دنیا سے متعارف کرانا ہے-  جس میں وہ ایک بالغ کی حیثیت سے زندگی گزارے گا-  اسکے ذہن اور جسم کو ان مسائل کا سامنا کرنے کے لئے تیّار کرنا ہے جو اسے آگے زندگی میں پیش آسکتے ہیں- اور اس دنیا کو سنوارنے میں ایک مثبت کردار ادا کرنے کے لئے اسے ضروری ہنر سکھانا ہے-

1- Montessori Resources

Montessori resources consists of the Montessori material, Nomenclature material, classified cards, models and miniatures of animals and other objects, farm table, nature table, flash cards, scientific instruments, tools,  books and art material.  Even walls, floor, ceiling, doors, windows and furniture serve as the learning resource in a Montessori environment and that is why they should also be well-maintained.

The purpose of Montessori resources is to carry out the procedure of 'Concrete to Abstract', where all resources are considered concrete to develop an imagination of the abstract.

١- مونٹیسوری وسائل
مونٹیسوری وسائل کا مقصد 'آسان سے مشکل' کے اصول کو قابل عمل بنانا ہے-  تمام وسائل جمادات کی صورت میں ہوتے ہے اور یہ مشکل نظریات اور نظام کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں-  مونٹیسوری میٹریل، نومن کلیچر میٹریل، کلاسیفائیڈ کارڈز، چیزوں کے چھوٹے بڑے ماڈلز، فارم ٹیبل، نیچر ٹیبل، فلیش کارڈز، سائنسی آلات، اوزار، کتابوں اور آرٹ میٹریل پر ہی مشتمل نہیں ہوتے ہیں-  بلکہ ادارے کے فرش، دیواریں، دروازے، کھڑکیاں اور سامان بھی وسائل کا ہی حصّہ ہوتے ہیں اس لئے ان کا بھی صحیح حالت میں ہونا ضروری ہے-  

2- Concrete (simple) to Abstract (complex)

Numbers, alphabets, parts of speech, fractions, addition, multiplication, division, subtraction, solar system, germination of seeds, pollination, water cycle, life cycle of humans and animals, evaporation, condensation, land and water forms and every little thing and concepts are abstract for an absorbent mind.  Montessori thinks that the child's mind is capable of absorbing all the simple or  complicated concepts and theories but in a palpable form, the procedure of learning from simple to complex.  The word 'concrete' refers to the all the learning resources, presentations and demonstrations performed by the teacher.

For example, solar system is an abstract but the child can grasp how it works through a model. 
Similarly, the fractions are abstract but the child can understand them well through practical work of dividing foods into half, one-third or one-fourth. 
Likewise, the parts of speech are also abstract but the child can learn their construction in a sentence through objects and symbols.

٢-  جمادات یا حقیقی یا آسان سے خیالی یا مشکل کی طرف 
 اعداد، حروف، کلام کے حصّے، جمع، تفریق، ضرب، تقسیم، نظام شمسی، بیج کا اگنا، بادلوں کا بننا، عمل تبخیر اور تکثیف، انسانی، نباتی اور حیوانی زندگی کے مراحل، زمین اور پانی کی شکلیں - ان سب کا تعارف چھوٹے بچے  ایک خیالی اور تصوراتی حیثیت رکھتا ہے- اکثر بچوں کو متضاد الفاظ یا ہم معنی الفاظ یاد کرنے کو دے دیے جاتے ہیں-  جبکہ اسکو یہی نہیں پتہ ہوتا کہ متضاد کیسے کہتے ہیں- وہ انھیں رٹا لگا کر یاد تو کر سکتا ہے لیکن سمجھ نہیں سکتا-اسی طرح بچوں کو پانچ یا دس اسم، فعل یا صفت یاد کرنے کو دے دیے جاتے ہیں-  اور میری حیرت کی اس وقت انتہا نہ رہی جب میں نے یہ تجربہ اپنے ٹیوشن کے بچوں پر کیا جن میں سے ایک پانچویں اور دوسرا چھٹی جماعت میں ہے-  اور ان سے کہا کہ مجھے سو اسم بتائیں تو وہ گہری سوچ میں گۓ اور ان الفاظ کو یاد کرنے لگے جو انکو پچھلی جماعتوں میں رٹاۓ گۓ تھے-  حالانکہ انھیں اس کی تعریف حرف بہ حرف یاد تھی-  لیکن مثالوں کے لئے انہوں نے اپنے ارد گرد نظر ڈالنے کے بجاۓ اپنے ذہن پر دباؤ ڈالنا شروع کردیا-  میں نے ان سے کہا کہ اس پاس دیکھیں تو رک رک کر ایک نے کہا گلاس، دوسرے نے کہا پنکھا-  میں نے کہا آپکو فرش، میز، کرسی، دیواریں، چھت، دروازہ، کھڑکی، شیشہ، کاغذ، کتابیں، پنسل، کمرے، کوڑے دان، میں یعنی استاد، اپنے جسم کے حصّے، کپڑے وغیرہ نظر نہیں آرہے-   مونٹیسوری کے مطابق بچے کے ذہن میں ان تصورات کا خاکہ بنانے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے اگر انھیں کسی ایسے طریقہ کار سے سکھایا جاۓ جس سے بچہ ان چیزوں کی حرکت یا حصّوں کو کسی ماڈل یا مثال کے ذریعے حواس خمسہ سے تجزیہ کرسکے-  یعنی کسی مشکل ترین نظریہ یا نظام کو آسان طریقے سے سمجھانا-  مونٹیسوری میں تمام وسائل جمادات کی ہی شکل ہوتے ہیں-  

3- Three-Period Lesson
This is a technique used to feed information and establish the basic memory about an object or a concept.  It is carried on in three parts or three lessons; naming, associating and recalling/assessment.

Characteristics of 3PL
1- The objects or concepts being introduced must be in contrast, such as big and small, red and blue or yellow color, spots and stripes, sweet and sour, hard and soft, etc. The presentation of red and pink or orange, dots and spots, stripes and bars, sour and bitter, soft and fluffy, may confuse the child because of the similarities.  The flags of Japan and Bangladesh are similar in design, flags of Pakistan and Saudi Arabia are similar in colours.

2- Only 2 or 3 objects or concepts should be introduced at a time at initial stages.  

3- Only one characteristic of objects or concepts should be introduced at a time.  For example, just the name or the size or shape or colour or design, etc.

4- 2nd and 3rd periods should be started with the recent memory, which is the last object or concept that has been introduced to the child.

5- Teacher should use the verbal expression to distinguish among the qualities.

6- The teacher must follow the 'economy of words' (limited amount of words) and 'economy of movement' (least possible body movement) during the lessons.

7- Pause for 2 or 3 seconds after each introduction and question.


٣- تین اسباق پر مشتمل چیزوں کا تعارف 
یہ طریقہ بچے کے ذہن میں کسی بھی معلومات کو متعارف کرانے کے لئے استعمال ہوتا ہے-  اسکے تین حصّے ہوتے ہیں-  
پہلا سبق چیز، فعل یا صفت کا نام بتانا- اور یاداشت کو قائم کرنا- 
دوسرا سبق یاداشت کو دہرانا- 
تیسرا سبق یاداشت کو جانچنا 

اس طریقۂ کار کی خصوصیات یا احتیاط یہ ہیں-  
١- چھوٹے بچے کا ذہن متضاد اشیاء کو جلدی جذب کرتا ہے-  جو بھی چیزیں یا صفت متعارف کرائی جائیں وہ ایک دوسرے کے برعکس یا متضاد ہوں-  مثال کے طور پر سرخ رنگ کے ساتھ اگر گلابی یا نارنجی رنگ سکھانے سے بہتر ہے کہ نیلا یا پیلا رنگ سکھایا جاۓ- اسی طرح بنگلہ دیش اور جاپان کا جھنڈا ایک جیسے ڈیزائن کا ہے جبکہ پاکستان اور سعودی عرب کے جھنڈوں کے رنگ ایک جیسے ہیں-  لہٰذا پاکستان اور جاپان کے جھنڈے بچے کے لئے سیکھنا آسان ہوگا کیونکہ یہ ایک دوسرے سے رنگ اور ڈیزائن میں فرق ہیں-  

٢- شروع میں صرف دو یا تین چیزیں یا خصوصیات متعارف کرائی جائیں- 

٣- ایک وقت میں کسی بھی چیز کی ایک معلومات فراہم کی جائیں- یعنی یا تو صرف نام یا کوئی ایک متضاد خصوصیت کا جوڑا-  جیسے کہ چھوٹا اور بڑا، ہلکا اور بھاری، وغیرہ- 

٤- اس طریقۂ کار کے دوسرے سبق کو وہاں سے شروع کریں جہاں پہ پہلا سبق ختم ہوا تھا اور تیسرے  سبق کو وہاں سے شروع کریں جہاں دوسرا سبق ختم ہوا تھا-  یہ بالکل اسی طرح کا عمل ہے جیسے اگر کوئی چیز کھو جاۓ تو ڈھونڈنے کا سلسلہ آخری یاداشت سے شروع کیا جاتا ہے-  

٥- استاد یا استانی اپنے لہجے کو سکھانے کے مطابق تبدیل کرے-  

٦- استاد یا استانی کو ضرورت کے مطابق الفاظ اور حرکات کا چناؤ کرنا چاہیے-  



Example 1- Introducing the name

Bring the objects to the work place which could be a mat or a table. Put the objects in a row or linear position.

Assume that the objects are flags.  Choose the flags of Pakistan, Japan and America because they are in extreme contrast in color and design.

1st Period:  Naming (establishing memory)
Pointing at the first flag (from either side), "This is the flag of Pakistan."  Repeat twice.  Pause for 2 or 3 seconds.
Pointing at the second flag, "This is the flag of Japan."  Repeat twice.  Pause for 2 or 3 seconds.
Pointing at the third flag, "This is the flag of America."  Repeat twice.  Pause for 2 or 3 seconds.

2nd Period: Associating (the memory to the object)
The teacher keeps his/her hands off the material and asks from the recent memory which is the last object he/she introduced. 

"Can you show me the flag of America?"  The child points to the flag of America.  If he/she doesn't then just say the name and move on, do not tell the child that he/she has made a mistake.

Starting from the earlier memory, "Can you show me the flag of Japan?"  

Starting from the earliest memory, which is the first flag introduced,
"Can you show me the flag of Pakistan?"

3rd Period: Recalling/Assessing the memory
Starting from the recent memory, pointing at the flag of Pakistan,
"Which flag is this?" The child should answer that this is the flag of Pakistan or Pakistan's flag.  If he/she gives the wrong answer, just correct without criticizing him/her.

Pointing at the earlier memory, the flag of Japan, ask, 
"Which flag is this?"  The child should answer, "Japan's flag".

Pointing at the earliest memory, the flag of America, ask, 
"Which flag is this?'  The child should answer, "America's flag." 


پہلی مثال - نام سکھانا 

میٹریل یا وہ چیزیں جنکے نام سکھانے ہیں میز یا  کام کرنے کی جگہ پر لائیں-  اور انھیں عمودی یا افقی ترتیب سے رکھیں-  
فرض کریں کہ وہ چیزیں تین ملکوں کے جھنڈے ہیں-  پاکستان، جاپان اور امریکہ-  کیونکہ یہ تینوں جھنڈے ایک دوسرے سے رنگ اور ڈیزائن میں مختلف ہیں اسلئے بچوں کو ذہن نشین کرنے میں آسانی ہوگی-  

پہلا سبق-  نام بتانا یا یاداشت قائم کرنا 
پہلے جھنڈے کی طرف اشارہ کریں اور کہیں "یہ پاکستان کا جھنڈا ہے"- جملہ دہرائیں- دو تین سیکنڈز کا وقفہ دیں- 
دوسرے جھنڈے کی طرف اشارہ کریں اور کہیں "یہ جاپان کا جھنڈا ہے"- جملہ دہرائیں- دو تین سیکنڈز کا وقفہ دیں-
تیسرے جھنڈے کی طرف اشارہ کریں اور کہیں "یہ امریکہ کا جھنڈا ہے"- جملہ دہرائیں- 

دوسرا سبق - یاداشت کو دہرانا 
استاد یا استانی اپنے ہاتھ سے اشارہ کیے بغیر آخری یاداشت یعنی امریکہ کے جھنڈے سے شروع کرے- 
"امریکہ کا جھنڈا کون سا ہے؟"- بچے کو صحیح جھنڈے کی طرف اشارہ کرنا چاہیے-  اگر وہ نہ کرسکے تو خود بتادیں- 
"جاپان کا جھنڈا کون سا ہے؟" 
"پاکستان کا جھنڈا کون سا ہے؟"

تیسرا سبق - یاداشت جانچنا 
آخری یاداشت یعنی پاکستان کے جھنڈے سے شروع کریں- اشارہ کریں اور پوچھیں- 
"یہ کس ملک کا جھنڈا ہے؟"  بچے کا جواب ہونا چاہیے پاکستان کا-  اگر بچہ صحیح جواب نہ دے تو خود بتا دیں- 
"یہ کس ملک کا جھنڈا ہے؟" بچے کا جواب ہونا چاہیے جاپان کا- 
"یہ کس ملک کا جھنڈا ہے؟" بچے کا جواب ہونا چاہیے امریکہ کا- 


Example 2 - Introducing the quality
Assume the quality is rough and smooth and the objects are the large piece of a bark and a smooth wooden piece.

1st Period:
While sliding the fingers on the bark say, 
"This is a rough surface.  rough"

While sliding the fingers on the wooden piece,
"This is a smooth surface.  smooth"

2nd Period:
Starting from the recent memory while keeping the hands off the material, ask
"Which one is the smooth surface?"
"Which one is the rough surface?"

3rd Period:
Pointing at the recent memory, ask
"What kind of surface is this?"  The child should say 'rough'.
"What kind of surface is this?"  The child should say 'smooth'.

دوسری مثال - کسی صفت کا سکھانا 

فرض کریں کہ بچے کو ہموار اور کھردری سطح کا فرق سمجھانا ہے-  تو ایک درخت کے تنے کا  حصّہ لیں اور ایک لکڑی کا ٹکڑا جو ہموار ہو- 

پہلا سبق - یاداشت قائم کرنا 
پہلے تنے کی طرف اشارہ کریں اور کہیں "یہ کھردری سطح ہے" اور پھر سطح پر انگلیاں پھیریں- دو تین سیکنڈز کا وقفہ دیں- 
پھر لکڑی کے ٹکڑے پر انگلیاں پھیریں اور کہیں " یہ ہموار سطح ہے"- 

دوسرا سبق - یاداشت دہرانا 
آخری یاداشت یعنی لکڑی کے ٹکڑے سے شروع کریں-
"ہموار سطح کون سی ہے"  بچے کو لکڑی کا ٹکڑے کی طرف اشارہ کرنا چاہیے- 
"کھردری سطح کون سی ہے" بچے کو تنے کی طرف اشارہ کرنا چاہیے- 

تیسرا سبق - یاداشت جانچنا 
آخری یاداشت یعنی تنے کی طرف اشارہ کریں اور پوچھیں- 
"یہ کون سی سطح ہے؟"
پھر لکڑی کے ٹکڑے کی طرف اشارہ کریں اور پوچھیں 
"یہ کون سی سطح ہے؟"


4- No Competition
The child is not born with the sense of competition.  The trend is introduced to the child by the adults in the surroundings, which transforms into the sense of superiority or inferiority with the passage of time. The moment of success in our society becomes the moment of disaster for him/her as he/she is always expected to show the same result and secure the best position.  This behaviour kills the child's potential and leads him/her to work for either appreciation and reward or out of fear of being insulted.  The Montessori environment should be free of competition and the only reward that the child feels should be the sense of achievement by completing a work.  This is a place where every child is a winner because every child is busy in work.

٤- مقابلہ بازی سے اجتناب 
بچہ مقابلہ بازی کے احساس کے ساتھ پیدا نہیں ہوتا-  یہ رجحان بچے میں اسکے آس پاس موجود بڑے پیدا کرتے ہیں-  جو کہ وقت گزرنے کے ساتھہ ساتھہ احساس کمتری یا احساس برتری میں تبدیل ہو جاتی ہے-  اگر کوئی بچہ اوّل آجاۓ تو یہ اسکے لئے بدقسمتی کا باعث ہو جاتا ہے کیونکہ پھر اس سے ہمیشہ سب کو پچھاڑنے اور گرانے کی ہی توقع کی جاتی ہے-  جس سے اس کے اندر کی کام کرنے کی قدرتی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے اور وہ کام بے عزتی کے خوف یا نام اور انعام کے لالچ میں کرتا ہے-  مونٹیسوری ماحول میں کسی بھی قسم کے امتحانات اور ظاہری جانچ پڑتال منع ہوتی ہے-  اور بچے کے کام کی تکمیل کو کامیابی سمجھا جاتا ہے-  یہ ایک ایسا ماحول ہوتا ہے جہاں سارے بچے کامیاب کہلاتے ہیں کیونکہ سب کسی نہ کسی کام میں مصروف ہوتے ہے-  

5- No Reward No Punishment
The child during the stage of 'Absorbent Mind' is more willing to work due to his/her inner desire than due to reward or punishment.  This is the strategy that adults use to motivate children to give results to satisfy their own (adult's) ego and expectations. The motivation develops into a habit of greed and pride in case of success and fear, envy and lie in case of failure.  Montessori discourages the use of these kind of strategies in any environment and suggests that the child should be given time to satisfy his/her desire of work and deduce the results on his/her own understanding.

٥- جزا اور سزا سے اجتناب 
بچہ فطرتی طور پر  اپنی زندگی کے ابتدائی چھ سالوں میں کسی انعام کے لالچ یا سزا کے خوف کے بغیر، صرف اپنی قدرتی کام کرنے کے رجحان کی وجہ سے کوئی بھی کام کرتا ہے-  اسکے نزدیک کامیابی یا ناکامی کوئی معنی نہیں رکھتی-  انعام یا سزا کی حکمت عملی بڑے لوگ استعمال کرتے ہیں بچوں سے اپنی توقعات، اپنی انا اور اپنے اطمینان کی خاطر-  اس قسم کر رویہ بچوں میں کامیابی کی صورت میں لالچ، فخر اور غرور اور ناکامی کی صورت میں خوف، حسد اور جھوٹ بولنے کی عادات پیدا کرتا ہے-  اسی لئے مونٹیسوری ماحول میں کسی بھی قسم کے امتحانات، ظاہری جانچ پڑتال اور مقابلوں سے گریز کیا جاتا ہے-  بلکہ بچے کو وقت دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کام کی طرف راغب ہو اور لگن سے کام کرے اور اپنی سمجھ کے مطابق نتیجہ اخذ کرے-  

6- Individual Activities
The child during the 'Spiritual Embryonic Stage' is less social and more egoistic, which is not the sign of his/her negative personality but an extreme urge and concentration to explore and experience things without anyone distraction.  He/she may spend hours and hours on just one task which attracts his/her interest.  
Unlike traditional schools, the child in a Montessori is allowed to satisfy his/her natural instinct of working alone in order to absorb the information directly through his/her own concentration.
Once the child is satiated with working on one activity, he/she automatically and willingly shares it with others.  Otherwise, he/she keeps seeking for that opportunity throughout his/her life.

٦- بچہ تین سال تک کی عمر تک جو کہ 'روحانی مرحلہ' کہلاتا ہے،  اپنی دنیا کا مکین ہوتا ہے-  اسے صرف اپنی مرضی اور اپنی پسند سے دلچسپی ہوتی ہے-  اور یہ اسکی ذات کا منفی پہلو نہیں بلکہ اس کی فطرت کا تقاضہ ہوتا ہے جو اسے انتہائی انہماک سے اپنی پسند کی چیز یا کام پر توجہ مرکوز کرنے کا باعث بنتا ہے-  اور بچہ اس وقت کسی اور کی مداخلت برداشت نہیں کرتا-  وہ اس حسّاس دورانیے میں ایک کام پر گھنٹوں صرف کر سکتا ہے-  مونٹیسوری ماحول میں بچے کی فطرت کے پیش نظر اور اس کو سکون پہنچانے کے لئے انفرادی کام کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں-  جب بچے کا دل کسی کام یا چیز سے بھر جاتا ہے تو وہ خود اسے دوسروں کے حوالے کردیتا ہے-  ورنہ وہ ساری زندگی اپنی تنہا، آزادی کے ساتھ کام کرنے کی فطرت کے تقاضے پورے کرنے کے موقعے تلاش کرتا رہ جاتا ہے- 
7- No Fantasy
Imagination is a faculty of mind to think of something beyond five senses by perceiving the environment through five senses.  A powerful imagination leads the mind towards discovering and inventing things and their modifications by scientific methods.  It demands passion, patience, determination, and hard work. For example, the airplanes are the result of someone's inspiration to fly like birds.  Developing the child's imagination in relation to objects and events is the core of Montessori methodology.

Fantasy is an unrealistic imagination.  It is something that is not based on reality, a make-believe thing, like a chance that may happen to someone some day.  The behaviour of thinking about impossibles is unnatural.
For example, animals don't dress up like humans and don't go to schools as we tell in the stories,  a magical wand cannot make someone rich overnight, clouds cannot become a ride for anyone. Similarly, the magic is also unnatural, its a trick, a spell.    

٧- نا ممکن  تصوراتی دنیا سے اجتناب 
فکر اور تخیّل انسانی ذہن کی وہ صلاحیت ہے جو اسے حواس خمسہ کے مشاہدے اور تجربات کے بعد ایسے تصورات سے متعارف کراتی ہے جو ممکن اور قابل عمل ہوں-  اور انسان اپنے پختہ ارادے، صبر، محنت اور جذبے سے انھیں حقیقت کا روپ دے سکے-  مثال کے طور پر ہوائی جہاز کسی انسان کے پرندوں کی طرح ہوا میں اڑنے کے خواب دیکھنے اور پھر ان خوابوں کو سائنسی طریقۂ کر سے حقیقت بنانے کا نتیجہ ہیں-  بچے کے اندر چیزوں اور واقعات کے تعلق سے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرنا تاکہ وہ ایجادات کے مراحل تک پہنچ سکے-  مونٹیسوری طریقۂ کار کا کا اصل ہے-  

اسکے برخلاف، فینٹسی ایک غیر حقیقی خواب و خیال کی دنیا ہے-  اس کا اصل زندگی کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا-  ناممکن یا غیر حقیقی چیزوں پر وقت ضائع کرنا ایک غیر قدرتی اور نقصان دہ عمل ہے-  مثال کے طور پر، کہانیوں میں جانوروں کا مختلف انسانوں جیسے لباس میں انسانوں جیسی زندگی گزارنا- یا جادو کی چھڑی سے کسی کی قسمت بدل دینا-  یا بادلوں کا ایک سواری بنکر کسی کو سیر کرانا-  اسی طرح جادوئی کرتب بھی چالیں ہوتے ہیں-  فینٹسی بچے کو اس کو آس پاس کی دنیا سے بیگانہ اور لاتعلق بنادیتی ہے-  


Four Deadly Sins/techniques in Education
Every teacher should avoid committing these sins as they halt the process of learning, limit the mind of the child, kill the child's interest, curiosity and creativity and writing skills.

1-  Asking the child to solve the Math problems by giving one example on board or in notebook.  What is required to solve Math problems is the understanding of components/elements taking part in the problem and problem solving skills.

2- Asking the child to memorize the written composition word to word.

3- Providing notes to the child for memorization.

4- Highlighting and underlining the answers for children.

تعلیم کے چار مہلک ترین موذی طریقے

یہ طریقے بچے کی ذہنی صلاحیتوں کو محدود کردیتے ہیں-  اسکی دلچسپی، جستجو اور تخلیقی مہارتوں کو ختم کردیتے ہیں-  اور اسکی خاص طور پر لکھنے یعنی بیان یا اظہار کی صلاحیتوں کو صفر کردیتے ہیں-  
١- ریاضی میں بچوں کو خود سوال حل کرکے دینا-  ریاضی کا تعلق بنیادی طور پر کسی معاملے کو حل کرنے کی مہارت سے ہے-  اور چیزوں اور معاملات کو سمجھے بغیر یہ مہارت پیدا نہیں کی جاسکتی- 

٢- بچے کو مضامین اور درخواستیں لکھ کر رٹنے کے لئے دینا- 

٣- بچے کو لکھے لکھاۓ نوٹس یاد کرنے کے لئے دینا- 

٤- بچے کی کتاب میں اسباق کے سوالوں کے جواب پر نشان لگانا-