Thursday, 3 April 2014

بو علی سینا اور ماریہ مونٹیسوری Two Great Educationists of The World - Ibn Sina and Maria Montessori

Educationist: Ibn-e-Sina (also called Bu-Ali Sina or Avicenna)
Birth: August 980, Bukhara, Samarkand (Persian Empire now Uzbekistan)
Death: June 1037 (Ramadan), Hamadan, Iran
Age: 56 or 57
Parents: Setarah and Abdullah from Ismaili Sect
Religion: Islam
Areas of Study: Medicine, Philosophy, Psychology, Logic, Islamic Theology, Physics, Science, Education, Health, Astronomy, Astrology, Chemistry, writer/novelist
Occupation: Physician, Scientist and Educationist
Recognition: "Father of Modern Medicine" and "Pioneer of Aromatherapy" and was a Qur'an Hafiz by the age of 10
Books: "The Book of Healing" and "The Canon of Medicine' and numerous writings on different topics
Era: Golden Islamic Era

Time Difference between Ibn Sina and Ibn Tufail: 68 years

Educationist: Ibn Tufail
Birth: 1105, Andalusia
Death: 1185, Morocco
Age: 80
Religion: Sunni Sect
Areas of Study: Novelist, Islamic Theology, Medicine, Islamic Philosophy
Recognition: The first Arab novelist to write on human philosophy and human nature and developmental stages of human mind in a natural world without any external imposition.  It was a story of a boy who was raised by a deer and later had an interaction with the civilized world.
Books: " "حی بن یقظان" in English "The Self-Taught Philosopher" and various writings
Era: Golden Islamic Era

Time Difference between Ibn Sina and Maria Montessori: 833 years

Educationist: Maria Tecla Artemesia Montessori
Birth: August 31, 1870 - Chiaravalle, Marche, Italy
Death: May 6th, 1952 - South Holland, Netherlands
Age: 81
Parents: Renidle (a liberal minded lady) and Alessandro Montessori (a conservative man)
Religion: Catholic
Area of Study: Pediatrics, Psychiatry
Occupation: Physician and Educationist
Recognition: First female doctor of Italy, established "Casa Dei Bambini/The House of Children" for underprivileged children, first educationist who actually engineered the environment for children
Books: "The Discovery of Child", "The Secret of The Childhood", "The Absorbent Mind", "The Montessori Method", "The Montessori Elementary Material", "From Childhood to Adolescence", "Education and Peace", "To Educate The Human Potential", "The Child in The Family"
Era: Decline of Muslim's rule all over the world

علم انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی وجہ بنا- جبکہ معرفت انسان کی معراج-  معراج تک تو رسول الله صلی علیہ وسلّم کی ذات پنہچی-  معرفت کا مقام انبیاء کرام، صحابہ کرام اور اہل ایمان کے حصّے میں آیاچاہے وہ کسی بھی نبی اور رسول کے ماننے والے تھے-  اور جب میں یہ بات کرتی ہوں تو میرا ذہن خود بخود حضرت علی کے اس قول کی طرف چلا جاتا ہے کہ "ہم نے قرآن سے پہلے ایمان سیکھا"- باقی رہا علم تو وہ انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ جاننے کی کوشش کرتا ہے-  

انسانی ذہن کی تعلیم (یعنی سیکھنے کے عمل) کے فلسفے اور تحقیق پر جن چند لوگوں کی فہرست موجود ہے اس میں پہلے تین نمبروں پر سقراط Socrates، افلاطون Plato اور ارسطو Aristotle جیسے مفکّرین کے فورا بعد مسلمانوں میں سے صرف دو نام شامل ہیں-  چوتھے نمبر پر ایرانی النسل بوعلی سینا Avicenna اور پانچویں نمبر پر عربی النسل ابو بکر محمّد ابن عبد المالک ابن محمّد بن طفیل القیسی Abubacer/Ibn-Tufail- جبکہ صرف دو خواتین ہیں- دسویں نمبر پر شارلٹ میسن Charlotte Mason اور تیرھویں نمبر پر ماریہ مونٹیسوری Maria Montessori - 

یہ ترتیب انکے زمانے کے حساب سے ہے- 

علامہ اقبال سقراط سے بھی بڑے مفکّر تھے لیکن ان کا نام یہاں اس لئے نہیں بیان کیا کہ اس تحریر کا موضوع بچوں کی تعلیم اور تعلیم کے قدرتی عمل تک محدود ہے- اور اقبال کو دو جملوں میں سقراط، افلاطون اور ارسطو کی طرح بیان کردینا انکے علم اور مختلف احاطہ زندگی میں انکی سوچ اور کام کے ساتھہ نا انصافی ہے-  

سقراط، افلاطون اور ارسطو، تینوں کا تعلق قدیم یونان سے ہے- 

سقراط کی انسان اور کائنات کے بارے میں فکر نے انکی ٧١ سالہ زندگی کو انسانوں کی لکھی گئی پچھلی ڈھائی ہزار سالہ تاریخ میں ایک اعلی مقام عطا کیا- اور موت کو بہادری اور عقل کے ساتھہ سامنا کرنے نے دوام عطا کیا- 

افلاطون سقراط کے ذہین شاگردوں میں سے ایک تھے-  انہوں نے بھی اپنی ٨٠ سالہ زندگی کو اپنی فکر سے علم کی دنیا میں ایک بہت اچھا مقام بخشا- 

ارسطو افلاطون کے شاگرد تھے اور چند سال سکندر اعظم کے استاد بھی رہے-  انہوں نے فکر کے سلسلے کو آگے بڑھایا اور صرف ٦٢ سالہ زندگی میں افلاطون کے برابر کا مقام حاصل کیا-  

ایک حدیث کے الفاظ کے مطابق، "علم مومن کا کھویا ہوا خزانہ ہے، تو وہ اسے جہاں پاۓ لے لے"جس آگہی پر انسانی ذہن آج پنہچ گیا ہے، میرا خیال ہے کہ ہر قسم کے تعصب سے ذہن کو پاک کر کے، ہر طالب علم کو کالج لیول پر اپنے طور ایک مرتبہ ضرور دنیا کے مفکّرین کا مطالعہ کرنا چاہیے- یہ بھی اسی رب کے پیدا کیے ہوۓ تھے جس نے مسلمانوں کو پیدا کیا ہے-  سقراط، افلاطون  اور ارسطو  حضرت عیسیٰ سے بھی کئی سو سال قبل پیدا ہوۓ تھے- ان کو بچپن سے نہیں معلوم تھا کہ وہ دنیا کے عظیم مفکّر کہلا ئیں گے- زندگی کا ایک بڑا حصّہ انہوں نے کچھ جاننے کے لئے وقف کردیا-  ان کو پڑھ کر کسی کا ایمان خراب نہیں ہو سکتا سواۓ انکے جن کے ایمان کی تعمیر ہی کمزور بنیادوں پر ہوئی ہو- 
   
ابن طفیل ١١٠٥ میں ہسپانیہ میں پیدا ہوۓ وہ طبیب، سائنس دان اور مفکّر ہی نہیں بلکہ مصنف بھی تھے-  انسانی فطرت، نفسیات، فلسفے اور طب پر مشتمل عربی زبان کا پہلا ناول "حی بن یقظان"وجہ شہرت بنا اور یہ ناول کئی سالوں یورپ کی درسگاہوں میں ادب/لٹریچر میں شامل رہا- ابن طفیل نے گو بچوں پر کوئی تحقیق نہیں کی- لیکن اس ناول میں جو انہوں نے انسانی ذہن کی قدرتی عوامل کے ذریعے نشو نما کا جو نقشہ پیش کیا ہے- اس کی وجہ سے انکا نام تعلیمی ماہرین کی فہرست میں شامل ہے-  اس ناول کا مرکزی کردار ایک بچہ ہے جس کی پرورش کسی خاموش جزیرے پر ایک ہرنی کرتی ہے اور جب وہ دس سال کا ہوتا ہے تو ہرنی کی موت واقع ہو جاتی ہے-  وہ بچہ اپنی ہرن ماں کی موت کی وجہ جاننے کے لئے اس کا جسم چیرتا ہے اور اسے پتہ چلتا ہے کہ ہرنی کی موت جسم کے اندر کی حرارت ختم ہونے کی وجہ سے ہوئی ہے- اور یہ واقعہ اس بچے کے لئے سائنسی بنیادوں پر چیزوں کو پرکھنے کی سوچ پیدا کردیتا ہے-  بعد میں اسکا سامنا انسانوں سے ہوتا ہے اور انکے درمیان رہ کر اسے پتہ چلتا ہے کہ انسانی دماغ کی منظر کشی (مذہبی عقائد وغیرہ) اور مادّی چیزوں پر انحصار انسان کو سچائی اور حقیقت سے دور لے جاتے ہیں- 

 بو علی سینا اور ماریہ مونٹیسوری- 
آٹھہ سو تینتیس سال کے فرق سے پیدا ہونے والی دو عظیم شخصیات، علم کے دو ستون، بچوں کے حق میں رحمت کی دو نشانیاں- 

دونوں کا آپس میں کوئی مقابلہ نہیں کیونکہ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ فکر کی شمع روشن کرنے والے دوعلمی ماہرین تھے- 

دونوں کی جنس فرق، دونوں کے عقائد فرق، دونوں کی قومیت فرق، دونوں کے ادوار فرق، دونوں کے حالات زندگی فرق- لیکن دونوں کی فکر میں حیرت انگیز مماثلت سے نہ صرف اس حدیث پر یقین پختہ ہو جاتا ہے کہ "اسلام دین فطرت ہے"- بلکہ اس بات پر بھی یقین آجاتا ہے کہ انسان اور کائنات حادثاتی طور پر پیدا نہیں ہوۓ بلکہ انکا پیدا کرنے والا ایک خداۓ واحد ہے-  جو شخص بھی فطرت کے تقاضوں کے مطابق زندگی کو دیکھتا اور پرکھتا ہے وہ ہر نسلی، قومی، مذہبی، لسانی، جنسی اور عصری تفریق اور اختلاف کے باوجود ایک ہی سوچ اور فکر کا پیرو کار ہوتا ہے- یہ کمال حادثاتی تخلیق کا ہو ہی نہیں سکتا- 

بو علی سینا اور ماریہ مونٹیسوری پر بچوں کی تعلیم کے معاملے میں اردو زبان میں کوئی مواد موجود نہیں- یا شاید ہو لیکن کم از کم مجھے نہیں ملا- جو انگریزی میں ہے اسے پڑھنے کے بعد دونوں کو سلام پیش کرنے کو دل چاہا-  

ڈاکٹر مونٹیسوری اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھیں- انہوں نے اپنے وقت کے ماحول، نظام اور روایات اور سب سے بڑھ کر اپنے والد کی سوچ کے خلاف سب سے بڑا جہاد یہ کیا کہ جس ملک میں عورت کو گھر کی زینت یا استانی کے علاوہ کسی اور روپ میں ڈھلنے کی اجازت نہیں تھی- انہوں نے نہ صرف کالج لیول تک پڑھ کے بلکہ چھبیس سال کی عمر میں اٹلی کی پہلی خاتوں ڈاکٹر بن کر دکھایا- گو کہ  انھیں ہر قدم پر جنسی بنیادوں پر تعصب اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن انہوں نے ہار نہ مانی-  ڈاکٹر بننے کے بعد انھیں ذہنی طور پرمعذور بچوں کے ادارے میں ملازمت دے دی گئی- جہاں انکی فطرت میں چھپے انسانیت کے جذبے نے انھیں ان معذور بچوں پر تحقیق کی راہ دکھائی- انھوں نے اس وقت تک کے مشہور نفسیاتی معالج کی تحقیقات کا مطالعہ کیا اور ان میں سے دو فرانسیسی نفسیات دان، ڈاکٹر ژان اٹارڈ اور ایڈورڈ سیگن کے کام سے بہت متاثر ہوئیں-  

ڈاکٹر ژان اٹارڈ ذہنی طور پر معذور اور گونگے اور بہرے  بچوں کے معالج تھے اور ایوران Averon نامی بچے کے علاج سے شہرت پائی- یہ بچہ کئی سال اکیلا جنگلات میں زندگی گزارتا پایا گیا- اٹارڈ نے اسے انسانی ماحول اور طرز زندگی سکھانے پر کئی سال صرف کیے- 

ایڈورڈ سیگن نابینا لوگوں اور ذہنی معذور بچوں کے معالج تھے- انہوں نے بچوں کو گیارہ سے انیس اور اکیس سے ننانوے تک گنتی سکھانے کے لئے دو بورڈز تخلیق کیے جنھیں ماریہ مونٹیسوری نے اپنے مونٹیسوری مٹیریل میں شامل کر لیا اور یہ آج ایک سو پینتیس سال بعد بھی اسی طریقے سے مونٹیسوری کے تعلیمی نظام میں استعمال کیا جاتا ہے-  

ڈاکٹر مونٹیسوری کی انتھک اور مسلسل محنت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ذہنی طور پر معذور، نابینا اور گونگے بہرے بچوں کا رزلٹ نارمل بچوں کے برابر آیا- جس سے انکے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر معذور بچوں کا ذہنی معیار یہ ہے تو پھر نارمل بچے اس سے بھی زیادہ بہترین نتائج دے سکتے ہیں-  اور انہوں نے ان منفی عوامل پر تحقیق شروع کی جو نارمل بچوں کی تعلیم و تربیت پر اثر انداز ہو رہے تھے- انکی تحقیق سے اس وقت بہت اختلاف کیا گیا- با لآخر انھیں خود ہی اکیلے ایک قدم اٹھانا پڑا- 


یہ دنیا کی واحد خاتون ہیں جنہوں نے بچوں کی سوچ اور مزاج کے مطابق انکی الگ دنیا بنانے کا خیال پیش کیا- اور اس پر عمل بھی کیا- َاور ١٩٠٧ میں سینتیس سال کی عمر میں دنیا کے پہلے "بچوں کے گھر" or Casa Dei Bambini House of Children کی بنیاد رکھی-  انہوں نے اٹلی کے ایک بہت ہی پسماندہ علاقے میں، غریب، مفلوک الحال گھرانوں کے بچوں کے لئے، جن کے ماں باپ دو وقت کی روٹی کے لئے ملازمتیں کرتے اور بچوں کو اکیلا چھوڑ جاتے تھے، بہترین صفائی ستھرائی اور تہذیب یافتہ ماحول فراہم کیا-  وہاں بچوں کے نہانے، بال بنانے، صاف کپڑے پہننے، ادب سے میز پر بیٹھہ کر امراء کے بچوں کی طرح کھانا کھانے کے تمام انتظامات موجود تھے- بچوں کو ہر قسم کی آزادی تھی اور کوئی روک ٹوک نہیں تھی- انکی قدرتی یا فطرت کے مطابق تعلیم کے لئے ڈاکٹر مونٹیسوری نے مختلف مٹیریل بھی ایجاد کئے- 

کہا جاتا ہے کہ اس ساری جدو جہد کے پیچھے ایک احساس تھا جو ان کو اس راستے پر لے گیا-  انکا ایک ہی بیٹا تھا ماریو جو ١٨٩٨ میں پیدا ہوا- اٹلی کے اس وقت کے ماحول کے مطابق وہاں کے معاشرے میں ناجائز اولاد گناہ سمجھی جاتی تھی-  لہٰذا انہوں نے اس بچے کو یتیم خانے میں دے دیا اور کئی سال گذرنے کے بعد ماریہ نے ماریو کی تلاش شروع کی اور بالآخر اسے پالیا-  ماریو نے تعلیمی جدو جہد میں اپنی والدہ کا بھر پور ساتھہ دیا- 

ابن سینا اور ماریہ مونٹیسوری، دونوں ہی اس بات کے حامی تھے کہ انسانی کے سیکھنے کا عمل اسکی پیدائش سے شروع ہوجاتا ہے- بلکہ ماریہ مونٹیسوری کے مطابق پیدائش سے بھی پہلے انسان کی یاداشت میموری ڈویلوپ ہونی یا بننی شروع جو جاتی ہے- اور بچے کا ذہن خالی سلیٹ کی مانند نہیں ہوتا-  جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو کچھ حسوں کی مانوسیت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے-  مثال کے طور پر، ماں، باپ یا خاندان کے دوسرے افراد کی آوازیں، ماں کے جسم کی گرمی، ماں کے پیٹ میں ملنے والی خوراک کا مزہ، وغیرہ- 

ابن طفیل سمیت تینوں، سیکھنے کے عمل کو قدرتی اور انسانی فطرت کا تقاضہ قرار دیتے ہیں جبکہ بیرونی عوامل یعنی والدین، اساتذہ اور معاشرتی اقدار کو اسکی مثبت یا منفی شخصیت کا ذمّہ دار قرار دیتے ہیں- 

ابن سینا اور ماریہ مونٹیسوری، دونوں کے مطابق صاف ستھرا اور منظّم ماحول اور محبّت اور نرمی کا برتاؤ ہر بچے کا حق ہے اور معاشرے کے تمام افراد کو اس میں حصّہ لینا چاہیے- 

ابن سینا اور ماریہ مونٹیسوری، دونوں کے خیال میں بچوں کو بچوں کے ساتھ رکھنے سے نہ صرف انکی ذہنی اور اخلاقی نشو نما ہوتی ہے بلکہ انکی تخلیقی صلاحیتیں بھی بہت جلد ڈویلوپ ہوتی ہیں- 

ابن سینا اور ماریہ مونٹیسوری، دونوں اساتذہ کی مثبت شخصیت اور بہترین ماحول کو بچوں کے لئے اہم قرار دیتے ہیں- اور دونوں میں سے کسی ایک کی کمی بچوں کی شخصیت پر اثر انداز ہوسکتی ہے- 

ابن سینا پہلے شخص ہیں جنہوں نے بچپن میں جسمانی ورزش کو صرف نشو و نما ہی نہیں بلکہ بیماریوں سے بچاؤ کا طریقہ قرار دیا-  مونٹیسوری کے مطابق بھی جسمانی ورزش کے بغیر تعلیمی عمل نا مکمّل ہوتا ہے- 

ابن سینا انسان کی گروتھ یا نشو نما کی عمر یا شخصیت کی تکمیل کے مراحل کو تین حصّوں میں تقسیم کرتے ہیں- 
١- پہلا حصّہ پیدائش سے چھ سال تک کی عمر، جس میں بچے کو انتہائی نگہداشت اور آزادی کی ضرورت ہوتی ہے- 
٢- دوسرا حصّہ چھ سے چودہ سال تک کی عمر، جس میں بچے کو اتنا سمجھدار ہو جانا چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کے لئے فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو- 
٣- تیسرا حصّہ بلوغت یا نوجوانی کی عمر جو کہ تیرہ یا چودہ سے چوبیس سال تک ہوتی ہے- یعنی اپنی زندگی کے فیصلوں کا اختیار- 

نتیجہ -  شخصیت کی تکمیل اور تعلیم کے حصول کے بعد یک عاقل و بالغ انسان کی حیثیت سے موت کے وقت تک زندگی گذارنا- 

ماریہ مونٹیسوری انسان کی نشو و نما کے مراحل کو چار حصّوں میں تقسیم کرتی ہیں-  
١- پہلا حصّہ پیدائش سے چھہ سال تک کی عمر جس میں بچے کی روحانی شخصیت مکمّل ہو چکی ہوتی ہے- وہ ان چھ سالوں کو مزید دو حصّوں میں تقسیم کرتی ہیں-  پہلا ٢- حصّہ پیدائش سے تین سال تک کی عمر، جس میں بچے کی سوچ صرف اپنی ذات اور ضروریات تک محدود ہوتی ہے- اور دوسرا حصّہ تین سال سے چھہ سال تک کی عمر، جس میں بچہ سوشلایزیشن یا میل جول کی طرف راغب ہوتا ہے-  
٢- دوسرا حصّہ چھ سال سے لے کر بارہ سال تک کی عمر- 
٣- تیسرا حصّہ بارہ سال سے اٹھارہ سال تک کی عمر-  جس میں سے بارہ سے پندرہ یعنی تین سال کا عرصہ بچے کی انتہائی حسّاسیت کا ہوتا ہے اور پھر پندرہ سے اٹھارہ یعنی تین سال کا عرصہ اسکی خود مختاری کی طرف رغبت کا ہوتا ہے-  
٤- چوتھا حصّہ اٹھارہ سے چوبیس سال تک کی عمر- یعنی نوجوانی- 

نتیجہ -  ایک عاقل اور بالغ انسان کی حیثیت سے موت کے وقت تک زندگی گذارنا- 

  
بچوں کا یہ گھر آہستہ آہستہ مشہور ہوتا گیا-  لوگ دور دور سے اسے دیکھنے آتے اور بچوں کو کسی استاد کی براہ راست مداخلت کے بغیر تنظیم اور خاموشی سے اپنا کام کرتے دیکھ کر حیران رہ جاتے-  چھوٹے چھوٹے بچے برتن، کپڑے بھی دھو لیتے، فرش اور فرنیچر کی صفائیاں بھی کرلیتے- اٹلی سے باہر اس گھر کی شہرت پھیلی- امریکہ سمیت مختلف حکومتوں کے دعوت ناموں پر انہوں نے بیرونی سفر بھی کیے- اور وہاں مونٹیسوری ٹیچر ٹریننگ کورسز متعارف کراۓ- ١٩٢٩ میں انہوں نے ایمسٹرڈیم میں "اسوسی ایشن مونٹیسوری انٹرنشنیل" Association Montessori Internationale کی بنیاد رکھی- ١٩٣٠ تک کا دور مونٹیسوری کے عروج کا دور تھا- 

١٩٣٤ میں میسولینی کی مخالفت پر انھیں اٹلی چھوڑنا پڑا اور اٹلی کی حکومت نے ملک میں تمام مونٹیسوری اداروں کو بند کردیا- ١٩٣٩ میں انہوں نے بر صغیر پاک و ہند کا دورہ کیا اور احمدآباد اور کراچی اور دوسرے شہروں میں اپنے تعلیمی نظام کو متعارف کرایا- لیکن ١٩٤٠ میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوتے ہی انھیں ہندوستان میں دشمن اتحاد کے ایک فرد کی حیثیت سے دیکھا جانے لگا-  لندن نے ملک میں مونٹیسوری اداروں پر بابندی لگادی اور امریکہ نے یورپ سے تعصب کی بنیاد پر ملک بھر میں مونٹیسوری نظام کو لپیٹ کر رکھ دیا- ماریہ مونٹیسوری نے پھر بھی ہمّت نہ ہاری-  اور اپنے بیٹے کے ساتھ آخری وقت تک دنیا بھر کے بچوں کی فطرت کے تقاضوں کے مطابق تعلیم و تربیت کے انتظامات کے لئے کوششیں کرتی رہیں-  ماریہ مونٹیسوری کو لگاتار تین سال ١٩٤٩، ١٩٥٠ اور ١٩٥١ میں نوبل پیس پرائز کے لئے نامزد کیا گیا- لیکن ایک بار بھی پرائز حاصل نہ کر سکیں-


ماریہ مونٹیسوری کی ساری جدّ و جہد کسی خاص ملک، قوم، طبقے یا فرقے کے لئے نہیں تھی- انہوں نے ہر قسم کے تعصب سے پاک ہو کر صرف اور صرف انسانی اقدار کی حفاظت کے لئے اپنا وقت اور صلاحیتیں صرف کردیں-  وہ صرف اٹلی کے لئے باعث فخر نہیں بلکہ ایک اچھے اور مخلص انسان کی حیثیت سے ساری دنیا انسانوں اور خاص کر مسلمانوں کو انھیں خراج تحسین پیش کرنا چاہیے-  کیونکہ ابن سینا کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہوتے ہوۓ بھی ماریہ نے بچوں کی پرورش کے بارے میں انہی کی سوچ کو آگے بڑھایا-













No comments:

Post a Comment