Tuesday, 1 April 2014

اساتذہ کے تربیتی ورکشاپ یا کورس کا مقصد

بچپن سے سنتے آۓ ہیں کہ "استاد بچوں کے روحانی ماں یا باپ ہوتے ہیں"-  پچھلی کچھ دھائیوں میں اسکولوں کا نظام دیکھیں تو لگتا ہے کہ اساتذہ یہ بات بھول چکے ہیں بلکہ بچوں کے والدین بھی-  اب تو سب کچھ کاروبار ہے- 
کل ایک پری اسکول اساتذہ کی تربیت کے بیس روزہ ورکشاپ کے امتحان کا دن تھا- ایک سو ایک طالب علموں میں کچھ مرد اور لڑکے، بہت ساری خواتین اور لڑکیاں تھیں- کچھ نے پچھلے اٹھارہ انیس دنوں میں سواۓ بیزاری اور تنقید کے کسی اور چیز پر محنت نہیں کی تھی- اور اسے اپنی ذاتی زندگی کی مصروفیتوں سے جسٹیفائی کر لیا تھا- کافی ساروں نے ان دونوں صلاحیتوں کے علاوہ باقی علمی اور فنی شعبوں میں بھی محنت کی تھی- ورکشاپ کا طریقه کار پہلے ہی بتا دیا گیا تھا- لہٰذا ان طلباء کے لئے جنھوں نے پہلے ہی ایک ریگولر سٹوڈنٹ کی حیثیت سے سارے موڈیولز ختم کر لئے تھے،انھیں زیادہ مشکل پیش نہ آئی سواۓ اس کے کہ بارہ مہینے کا کام اٹھارہ دن کرنا تھا اور اس میں مینجمنٹ کی اتنی غلطی بھی نہیں تھی- کیونکہ سب نے اپنی مرضی سے اس ورکشاپ کو جوائن کیا تھا، زبردستی نہیں-  ریگولر سٹوڈنٹس کے لئے یہ آپشن موجود تھی کہ وہ جب بارہ موڈیولز ختم کر لیں تب اٹینڈ کریں- 

مینجمنٹ کی غلطی صرف اس حد تک تھی کہ انسٹرکٹر چالیس یا پینتالیس منٹ لیٹ آتی تھیں- ایک دو دفعہ تیس منٹ لیٹ بھی ہوئی تھیں- اسکے علاوہ اگر کوئی غلطی تھی تو وہ خود طلباء کی تھی- باقی رہی مینجمنٹ تو اسے اچھی طرح پتہ ہے کہ کس قسم کی قوم سے واسطہ ہے اور آنے والے طلباء کی ترجیحات کیا  ہونگی- لہٰذا مینجمنٹ کو کچھ کہنے سے پہلے تمام طلباء یعنی بچوں کو پڑھانے اور تربیت کی ذمّہ داری اٹھانے والے خواتین و حضرات کو اپنے اپنے کردار اور اخلاق کا جائزہ لینا چاہیے- 

پہلی بات تو یہ کہ سب کے سب اٹھارہ سال سے زائد عمر کے تھے لہٰذا بالغ تھے- اس لئے یہ کہنا کہ ہمیں فلاں چیز تو سمجھ ہی نہیں آئی ، یہ بھی درست نہیں- انسٹرکٹر نے اجازت دی تھی کہ بار بار پوچھیں اگر سمجھ نہ آۓ کوئی چیز- فاصلے کا قصور بھی مینجمنٹ کا نہیں تھا- اگر کسی کو راستہ دور پڑتا تھا یا پنڈی جانا مہنگا پڑتا تھا تو اس کی ذمّہ داری انکی خود کی تھی- 

دوسری بات یہ کہ سب کو ورکشاپ جوائن کرنے سے پہلے ہی اپنی زندگیوں کی مصروفیات کا علم تھا- لہٰذا انتظامیہ پر یہ الزام لگانا کہ کیوں انہوں نے اس طرح پروگرام ترتیب نہیں دیا کہ طلباء کے لئے آسانی ہو بالکل بھی درست نہیں- طلباء کو خود بیس دن کے لئے اپنی ترجیحات سیٹ کرنی چاہیے تھیں-  

تیسری بات یہ کہ سب بالغ تھے اور پہلے ہی دن تعارف میں سب نے تقریبا یہی کہا کہ وہ یا تو اپنے بچوں کی صحیح تعلیم کے لئے یہ کورس کر رہے ہیں یا اپنی گرومنگ کے لئے- کچھ نے یہ بھی کہا انکو اچھے اسکول میں اچھی ملازمت چاہیے اور ایک جو مرد تھے انکا اپنا اسکول تھا اور وہ ہری پور سے روزانہ سفر کر کے آتے تھے- لہٰذا نظم و ضبط کی پابندی سے لیکر پڑھائی تک سب کا رویہ انسٹرکٹر کی ہدایات کے بغیر ہی ایک استاد یا استانی کا سا ہونا چاہیے تھا- اور خاص کر کر "ای پی ایل EPL" کے مقاصد جاننے کے بعد- 

چوتھی بات یہ کہ امتحان والے دن تمام اصول و ضوابط کو بالاۓ طاق رکھہ کر کھلے عام چیٹنگ کرنا انتہائی قابل مذمّت ہے- امتحان کے وقت ایک دوسرے سے دوستی کے نام پر مدد مانگنا دوستی نہیں دشمنی ہے-  ایک خاتون نے صاف صاف کہ دیا کہ انکی کوئی تیّاری نہیں ہے اور اصرار کیا کہ میں انکے ہی پاس بیٹھوں اور وہ بھی پیچھےتاکہ میں انکی مدد کرسکوں-  جس پر میں نے انکار کردیا-  خیر وہ سامنے ہی میرے ساتھہ والی سیٹ پر بیٹھ گئیں - اسکے باوجود جب دوران امتحان انہوں نے دو تین مرتبہ اصرار کیا تو میں نے صاف جواب دے دیا- جس پر وہ بہت اپ سیٹ ہوئیں- اسکے بعد ایک لڑکی نے مجھ سے مدد مانگی تو میں نے اسے بھی صاف انکار کردیا-  پانچ منٹ کی پریزنٹیشن پر ہر کوئی پریشان تھا جب کہ سب کو کافی مواقع ملے تھے پریکٹس کے- جو سب نے باتوں میں گنوا دیے- مجھ سے جن جن نے بیس دن میں کچھ بے تکلّف ہونے کی کوشش کی وہ میرے مخصوص خیالات کے اظہار کے بعد خود بخود پیچھے ہٹتا گیا- بعد میں میں نے انھیں معذرت کی کہ میں نے تو اپنی بیٹی تک کو یہ کہا تھا کہ چیٹنگ نہ کرنا بھلے فیل ہو جانا- اور میں خود بھی نہ پوچھتی اگر کچھ بھی مجھے نہ آتا- ساری مدد اور ہمدردی امتحان سے پہلے یا بعد کی ہوتی ہے- 

 آج کا ہمارا طرز زندگی آج سے بیس سال پہلے کے لوگوں سے بہت مختلف ہونا چاہیے- کیونکہ پچھلے دس سال سے تو ہم اپنے ملک میں رہتے ہوۓ بھی انٹرنیشنل ہوگۓ ہیں- ساری دنیا کی قوموں کے طور طریقے اور ترقی کے راز جان گۓ ہیں- اب بھی نہ سدھریں تو قصور امریکہ اور اسرائیل اور بھارت کا نہیں خود ان کا ہے جو اپنی ترجیحات نہیں بدلتے، اپنے انداز نہیں بدلتے، اپنے اطوار نہیں بدلتے اور پھر بھی شکوہ اور تنقید کرتے رہتے ہیں-  

ایک استاد کو کیسا ہونا چاہیے، اس کے لئے کسی تربیتی کورس کی ضرورت نہیں ہوتی- صرف اس لڑکی یا لڑکے سے اتنا پوچھنا ہو تا ہے کہ آپ اپنے استاد میں کیا برائیاں دیکھتے تھے- اور اپنی ناکام زندگی کا الزام اساتذہ کو کن وجوہات کی بنیاد پر دیتے ہیں- بس ان برائیوں کو خود میں سے نکال دیں- یا یہ کہ آپ اپنی اولاد کے لئے کیسے استاد کی خواہش رکھتے ہیں ویسے ہی خود بن جائیں-  معاشرے کو خود ہی اچھا استاد مل جاۓ گا-  

بچوں کی تعلیم و تربیت کے نام پر جتنی ورکشاپ اور کورسز ہوتے ہیں اس میں یہ تو سکھا دیا جاتا ہے کہ بچے کو کیا پڑھانا اور سکھانا ہے لیکن کوئی بھی اس بات پر توجہ نہیں دیتا اور نہ اس بات پر مارکنگ کی جاتی ہے کہ خود ٹیچر کو کیسا ہونا چاہیے- اسکول مینجمنٹ کسی ورکشاپ اور کورس کا حصّہ نہیں ہوتی- لہٰذا ان سارے تکلّفات کے باوجود بچوں کی تعلیم کا معیار دن بدن گرتا جارہا ہے-  

کورسز اور ورکشاپس کے باوجود اگر مردوں اور عورتوں اور لڑکے اور لڑکیوں کی زندگی، بات چیت کا انداز، اٹھنے بیٹھنے کے اطوار اور زندگی میں خود اپنا علم حاصل کرنے کی اہمیت نہ ہونے کے برابر ہو تو ایسے اساتذہ بچوں کی تعلیم پر کیا توجہ دے سکتے ہیں؟  

کورسز اور ورکشاپس کے باوجود اگر سب سفارش اور رشوت کے ذریعے ملازمت کے متلاشی ہوں تو پھر وہ بچوں کی اخلاقی یا روحانی تربیت پر کیا دھیان دیں گے؟

اور ان سب باتوں کے لئے قصور وار والدین ہوتے ہیں- جب وہ اسکول انتظامیہ سے یہ اصرار نہیں کرتے کہ انکے بچے کی ٹیچر کیسی ہے اور تعلیم کا طریقہ کار کیا ہے بلکہ یہ دباؤ ڈالتے ہیں کہ کورس آکسفورڈ کا ہونا چاہیے اور کسی بھی طرح ان کا بچہ ہی فرسٹ آنا چاہیے تو پھر اس کا انجام ایسا ہی تعلیمی نظام ہوتا ہے جیسا کہ ہمارے ہاں ہے-

میں ان سب والدین سے پوچھتی ہوں کہ بچہ چوبیس میں سے دو گھنٹے ٹیوشن پر، چھ گھنٹے اسکول میں، دو گھنٹے اسکول جانے اور آنے کے سفر میں اور باقی چودہ گھنٹے آپکے  ساتھہ گزارتا ہے - اور آپ اپنے بچے کی ناکامی کے لئے نہ تو اپنی ذمّہ داری قبول کرتے ہیں اور نہ ہی اسکول سے کچھ پوچھنے کی ہمّت کرتے ہیں بلکہ سارا کے سارا بوجھ تھوڑے مزید پیسے دے کر ٹیوشن پر ڈال دیتے ہیں-  اس سب کا کیا فائدہ؟  

میں اساتذہ سے پوچھتی ہوں کہ دوسروں کے بچوں کی تعلیم میں بیزاری اور غیر دلچسپی دکھا کر آپ خود اپنے بچے کے لئے معاشرے سے کس بھلائی کی توقع رکھتے ہیں؟ 

اور میں اسکول مالکان اور انتظامیہ سے پوچھتی ہوں کہ تعلیم کو بچوں کی ترقی کے بجاۓ اپنی ترقی کا زینہ بنا کر اپنے مستقبل میں کس قسم کے معاشرے میں زندہ رہنے کے خواب دیکھتے ہیں- ایک محفوظ معاشرے میں بڑھاپا گزارنے کے یا ایک ذہنی طور پر معذور معاشرے میں ذلیل ہونے کے؟

کیونکہ
 "جیسی کرنی ویسی بھرنی" 
یا پھر 
"جو دوسروں کے لئے گڑھا کھودتا ہے وہ خود اس میں گرتا ہے"



No comments:

Post a Comment