یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ بچوں کے تعلیمی معیار کو بڑھانے یا کم کرنے میں والدین کا کردار اسی سے سو فیصد تک ہوتا ہے- انکی تمنّائیں اور خواہشات، محنت اور خلوص کا غلط طریقے سے حصول صرف انکے اپنے بچوں کی ذہنی، نفسیاتی اور جسمانی نشو نما کے لئے ہی نقصان دہ نہیں ہوتا بلکہ پورے تعلیمی نظام پر بھی بری طرح اثر انداز ہوتا ہے- اور نتیجہ انکی اپنی پریشانیوں میں اضافے، انکے بچوں کی نا مکمّل شخصیت اور ایک بےترتیب اور غیر منظّم معاشرے کی صورت میں نکلتا ہے-
اگر سورہ مزمل کے مطابق "بچوں کو بوڑھا کردینے والا دن" ہی قیامت کے دن کی نشانی ہے تو پھر یہ قیامت پاکستانی بچوں پر آچکی ہے اور وہ بھی انکے اپنے والدین کی خواہشات، اسکول ایڈمنسٹریشنز کی نااہلی، اساتذہ کرام کی علم بیزاری، علماء کرام کی خود پرستی اور سیاست دانوں کی خود غرضیوں کے ہاتھوں-
علامہ اقبال نے فرمایا،
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقدّر کا ستارہ
تو کوئی ایک شخص، کوئی ایک گھر، کوئی ایک خاندان، کوئی ایک فریق، کوئی ایک مجموعہ بھی اگر درست سوچ اور درست طریقے پر ہو تو وہ ایک پریشان ماحول میں سکون، ایک بے ترتیب ماحول میں نظم اور نا امیدی میں روشنی کی کرن کی مانند ہوتا ہے- یہی رسول الله صلی الله علیہ و آلہ وسلّم کا طریقہ تھا کہ اپنی ذات کے سورج سے ایک ایک فرد پر کرنیں بکھیرتے رہے- وہ کرنیں جس نے ایک عام سے عام فرد کو بھی اسلام کی چمکتا ہوا ستارہ بنا دیا-
علامہ اقبال نے فرمایا،
ترا جوہر ہے نوری، خاک ہے تو
فروغ دیدۂ افلاک ہے تو
یہ وہ ستارے نہیں تھے جو اپنی پرفارمنس کے بعد عام لوگوں کی کمائی سے لاکھوں کروڑوں جمع کرکے معاشرے سے عزت اور شہرت کے بھکاری بن جاتے ہیں- یہ تو وہ ستارے تھے کہ دولت اور عزت خود انکے پاس آتی بھی تھی تو اسے دوسروں میں بانٹ دیتے تھے-تاکہ دوسرے بھی اس سے فیض پائیں- کروڑوں سلام ہوں سیدنا بلال، ابو ذر غفاری، سلمان فارسی اور تمام صحابہ کرام پر- جو عرب کے صحرا کی ریت کے ذروں سے آسمان کے ستارے بن گۓ- اس طرح کہ قیامت تک کے لئے انسانوں کو بہترین، پر سکون اور با مقصد زندگی کی گائیڈ لائن دے گۓ- اور انکی شخصیت کو کوئی جبھی پہچان سکتا ہے جب وہ اپنے قد سے اوپر دیکھنا سیکھ لے-
بچوں کی بہترین جسمانی، روحانی، نفسیاتی اور ذہنی نشونما کے لئے سب سے پہلے تو خود والدین اور اساتذہ کو اپنی جسمانی، روحانی، نفسیاتی اور ذہنی تربیت پر توجہ دینی چاہیے- جب والدین اور اساتذہ اپنے الفاظ، جملے اور گفتگو کا طریقہ تبدیل کرینگے تو خود بخود انکی سوچ میں بھی مثبت تبدیلی آۓ گی-
"پرہیزعلاج سے بہتر ہے"--- یہ قول بچپن سے سنتے آۓ ہیں- ہمارے ہاں ایک طریقہ چل نکلا ہے کہ پرہیز نہ کرو، بیمار کاعلاج کرواۓ جاؤ- مقابلہ بازی، احساس کمتری، غیر فطری رویوں، جاگیر دارانہ رویوں اور منافقت سے پرہیز در حقیقت ان بچوں کی اصل معنوں میں تربیت کی اساس ہے-
١-مقابلہ بازی سے پرہیز
بچوں میں کم از کم دسویں جماعت تک پہلی، دوسری اور تیسری پوزیشن کے لئے مقابلہ کرنے کی خواہش کو پروان نہ چڑھائیں- کیونکہ یہ والدین کی خواہش ہوتی ہے بچے کی نہیں- بچے فطری یعنی اندرونی طور پر ایک عام ، طبعی یا قدرتی ماحول میں تین سال کی عمر کے بعد سے سوشلایزیشن یا مل جل کر کام کرنے کی طرف راغب ہوتے ہیں- اس میں فطرت سے انحراف بیرونی عناصر کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جسکی سب سے بڑی وجہ والدین اور اساتذہ ہوتے ہیں-
اسکا سب سے پہلا اور سب سے بڑا نقصان خود اس بچے کو یہ ہوتا ہے کہ اس میں دوسروں کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ پیدا ہی نہیں ہونے پاتا اور وہ صرف اپنی ذات کی کامیابی کو ہی اہمیت دیتا ہے اور اگر ناکام ہو تو پھر وہ والدین سمیت سارے معاشرے کو اسکا ذمّہ دار ٹہراتا ہے- اور نتیجتا بیزاری، کاہلی اور بہانہ بازی اسکی ذات کا حصّہ بن جاتی ہے-
دوسرا بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ کامیابی کی صورت میں وہ دوسروں کو حقیر اور انکی کوششوں کو بے سود اور نا قابل قدر اور بے جا تنقید کو اپنے حق سمجھتا ہے- وقت کے ساتھ ساتھ اسکی ذات میں غرور اور انا پیدا ہو جاتی ہے-
باقی نقصانات بے شمار ہیں جو صرف بچے کی فطرت میں دراڑیں ڈال کر اسے غلط سمت میں لے جاتے ہیں-
٢-احساس کمتری سے پرہیز
اپنی زندگی کی احساس کمتری کو بچوں پر دباؤ ڈال کر دنیا پر اپنی صلاحیتیں ثابت کرنے کی کوشش نہ کریں- امتحانات میں فیل ہونا جرم یا گناہ نہیں ہوتا- امتحانات میں کبھی کم اور کبھی زیادہ نمبرز لینا ایک طبعی جبکہ ہر مضمون میں ہمیشہ اوّل آنا اور تعلیمی نصاب کے ہر حصّے میں ہمیشہ کامیاب ہونا ایک غیر طبعی عمل ہے-
دوران تعلیم ہونے والی تمام ناکامیوں اور کامیابیوں اور ان پر والدین اور اساتذہ کا ردعمل ہی بچے کو زندگی میں رونما ہونے والی ناکامیوں اور کامبیوں کے لئے تیّار کرتا ہے- اس دوران فیل ہو جانے کا خوف یا اوّل آنے کی خواہش میں دن رات ایک کرنا یا اوّل آکر پھر ورلڈ ریکارڈ بنانے کے خواب دیکھنا--- یہ سب بچے کی شخصیت کی نا مکمّل رکھنے کے انتظامات ہیں جو والدین بڑے اہتمام سے کرتے ہیں-
٣-غیر فطری رویوں سے پرہیز
ہر بچہ اجتماعی طور پر فطرت پر اور انفرادی طور پر کچھ خاص صلاحیتوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے جسکی اس معاشرے اور اس دنیاکو ضرورت ہوتی ہے- بچوں کو دوسرے بچوں کی مثالیں دے دے کر کامیابی کی طرف راغب کرنا نہ صرف بچوں کی اپنی انفرادی شخصیت کی نفی کرنے کی کوشش ہے بلکہ اس سے خود والدین اور اساتذہ کی اپنی صلاحیتیں بھی مشکوک ہو جاتی ہیں-
بچوں کی پرورش اور تربیت کے معاملے میں فطرت کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے- وہ اجتماعی طور پر یکساں خصوصیات جبکہ انفرادی طور پر منفرد صلاحیتوں کے مالک ہوں- اسلامی معاشرہ بھی سورج کی کرن کی طرح ہوتا ہے جو کئی رنگوں پر مشتمل ہوتی ہے مگر دیکھنے میں شفاف اور حرارت سے بھرپورایک شعاع ہوتی ہے- تمام انبیاء کرام سے لے کر صحابہ کرام تک اسلام ایک شفاف اور حرارت سے بھر پور ایک شعاع ہے جس میں ہر نبی اور ہر رسول اور ہر صحابی ایک منفرد رنگ میں موجود ہے-
بد قسمتی سے ہمارے ہاں بچوں کی تربیت اور پرورش کا معاملہ با لکل برعکس ہے- والدین انکو انفرادی طور پر یکساں بنانے کی کوشش میں انکی اپنی منفرد صلاحیتوں کو ضایع کردیتے ہیں-
"وہ دیکھو، آخر وہ بھی تو تمہاری طرح کا بچہ ہے، ورلڈ ریکارڈ بنا لیا نہ اس نے..."
"آخر وہ بچہ بھی تو ہر سال اوّل آتا ہے...."
بچوں کو ادب آداب، نظم و ضبط اور اخلاق میں یکساں ہونا چاہیے- علم، آگاہی, کام اور نتائج میں نہیں-
٤-جاگیر دارانہ رویے سے پرہیز
"دیکھو کیسے وہ بچہ اپنے ماں باپ اور خاندان کا نام روشن کر رہا ہے..."
یہ کہہ کہہ کر بچوں کو یہ احساس نہ دلائیں کہ گھر اور خاندان کے اتنے بڑے اور عمر رسیدہ افراد عزت اور نام کے لئے اس معصوم سی جان کے محتاج ہیں- یہ ایک بہت بڑا ذہنی دباؤ ہے جسکے مضر اثرات سے صرف سوچیں اور خیالات ہی ناپاک نہیں ہوتے بلکہ اعمال اور رویے بھی متاثر ہوتے ہیں- یہی سوال اگر وہ بچہ اپنے بڑوں سے کر لے کہ آپ لوگوں نے اپنے بزرگوں اور خاندان کے نام اور عزت کے لئے مجھے پیدا کرنے کے علاوہ اور کیا کیا تو بھلا کیا عزت رہ جاۓ گی؟
ہر بچہ اس دنیا میں اسی دنیا کے روحانی اور مادّی تعلق کے لئے پیدا کیا جاتا ہے- لہذا اسکی ذات اور صلاحیتوں کو ایک مخصوص حصّے تک محدود کر دینا اس بچے کے ساتھ بھی ظلم ہے اور اس دنیا کے ساتھہ بھی- اور یہ فطرت کے تقاضوں کے ساتھہ نا انصافی بھی ہے-
٥-منافقت سے پرہیز
بچوں سے اس رویے کی توقع رکھنا جس کی مثال انھیں اپنے ہی گھر، خاندان اور اسکول یا مدرسے میں نہ ملے، یہ بھی منافقت ہی ہے- اپنے لئے جھوٹ، دھوکہ بازی، کاہلی، بہانہ بازی، بیزاری، موقع پرستی کے جواز پیش کر کے مطمئن ہو جانا اور بچوں کو اعمال اور کردار کی بھٹی میں جلنے کے لئے بالکل مختلف ماحول فراہم کرنا ان معصوموں پر ظلم بھی ہے، شدید ترین آزمائش بھی اور ایک نہایت غیر قدرتی عمل-
جن بچوں نے کبھی والدین اور اساتذہ کو کتاب ہاتھ میں لیتے نہیں دیکھا، ان سے یہ نہیں سنا کہ انکی پسندیدہ کتاب کون سی ہے، ان کو علمی موضوعات پر بحث کرتے نہیں دیکھا، انکو کبھی اپنی ڈائری یا نوٹ بک پر اپنے پسندیدہ اقوال لکھتے نہیں دیکھا، کبھی دنیا کی قابل عزت و احترام شخصیات کے شان میں کچھ کہتے نہیں سنا،کبھی خود اپنی قرآنی تجوید درست کرنے کی کوشش کرتے نہیں دیکھا، خود کو نماز روزہ کا پابند نہیں دیکھا، کبھی معاشرتی مسائل کے حل پیش کرتے اور ان میں حصّہ لیتے نہیں دیکھا ---- ان بچوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ کوئی منفرد یا مختلف کردار یا شخصیت کی صورت میں بڑے ہونگے--- یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟
آج کل والدین کے پسندیدہ جواز یہ ہیں-
"کیا کریں ان بچوں کی وجہ سے وقت ہی نہیں ملتا کچھ کرنے کا..."
"بس یہ بچے کچھ بن جائیں، ہم تو پہلے ہی دین کے رہے نہ دنیا کے..."
"اب ہمیں تو ایسا ماحول ہی نہیں ملا اور نہ ہی اتنی آزادی کہ ہم میں دلچسپی پیدا ہوتی کچھ کرنے کی یا آگے پڑھنے کی..."
پہلے دو جملوں میں اپنی اولاد پر اور تیسرے جملے میں اپنے بزرگوں پر الزام لگا کر ان دونوں کو شرمندہ نہ کریں- یہ سوچیں کہ اگر ہمارے والدین اتنے ہی ظالم اور تنگ نظر ہوتے تو ہم آج اپنے پیروں پر کھڑے یہ کچھ بھی کرنے کے قابل نہ ہوتے جو کر رہے ہیں-
اور اپنی اولاد کی تعلیم پر اپنی کمائی لٹاتے وقت یہ ضرور سوچ لیں کہ آپ پر اپنی ذات، اپنی اصلاح اور اپنی بھلائی کے بارے میں سوچنے کا بھی حق ہے- کسی حدیث میں نہیں لکھا کہ مہنگے اسکولوں میں ڈال کر ہی خوشحالی، عزت اور شہرت نصیب ہوتی ہے- دنیا کی کتابوں میں جن لوگوں کے فلسفے، ایجادات اور کامیابیوں کے قصّے پڑھاۓ جاتے ہیں ان میں سے ٩٩ فیصد نے اسکولوں کی شکل نہیں دیکھی تھی- کوئی کورس کی کتابوں کو رٹا لگا کر امتحانات پاس نہیں کیے تھے- وہ سب زندگی کے قدرتی عمل سے گذر کر سالوں میں اس مرحلے تک پہنچے تھے جسے ہم کامیابی یا ذہانت کہتے ہیں- ان میں سے بہت سوں کو نہ تو پتہ تھا اور نہ شاید یہ ارادہ تھا کہ دنیا ان کی اس طرح قدر کرے گی جیسے ہم کر رہے ہیں- ان میں سے بہت سے تو آج کے انسانوں کی طرز زندگی تک سے ناواقف تھے-
اپنے بچوں کو جو بنانا چاہتے ہیں- تو اسی طرح کا ماحول پیدا کریں اور اس کردار اور ان خوصیات کی تعریف کریں تاکہ بچہ خود بخود اس طرف راغب ہو-
No comments:
Post a Comment