Thursday, 17 April 2014

سائنس - کفر یا ایمان کی تجدید ?Science - Is it kufr or way to Iman

 سائنس لاطینی زبان کے  لفظ  سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں 'علم  knowledge'-  اور لفظ 'علم' عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے 'جاننا یا معلومات ہونا'-  اور علم ہی وہ خصوصیت ہے جس کی بنیاد پر تمام ملائک نے حضرت آدم کو سجدہ کیا تھا- 

سائنسی اصطلاح میں سائنس چیزوں اور واقعات 'علم' حاصل کرنے کا وہ طریقۂ کار ہے جس میں مشاہدے observation، مفروضات hypothesis، تجربات experiments  اور استدلال inferences  کے ذریعے نتائج اخذ کئے جاتے ہیں-  اور انہیں کسی اصول یا قاعدے کی شکل دی جاتی ہے- 

یہ طریقۂ کار بالترتیب انجام دیے جاتے ہیں- 
١- مشاہدہ یعنی چیزوں یا واقعات کا حواس خمسہ کے ذریعے جانچ پڑتال کر کے ابتدائی معلومات حاصل کرنا-  مشاہدہ کا سبب انسان کا فطری تجسس یا ضرورت ہوتی ہے-   
٢- ابتدائی معلومات کی بنیاد پر کچھ سوالات، مفروضات، قیاس اور نظریات کا جنم لینا- اور انکو تحریر کرنا- 
٣- ان سوالات، مفروضات اور نظریات پر بحث اور تحقیق کرنا یا تجربات کرنا- اور اس کے نتیجے میں ٹھوس حقائق اخذ کرنا-  
٤- مشاہدات، مفروضات اور تجربات کے بعد دلائل کو کسی منطقی اصول یا قاعدے کی شکل دینا-  

اکثر علماء کرام اور دینی لوگ سائنس یعنی 'جاننے اور پرکھنے کے طریقۂ کار' کو 'کفر' قرار دیتے ہیں-  اور اسکی وجہ شاید انکا قرآن کی صرف چند آیات پر ایمان ہے-  یہ آیات ہیں جن میں بن دیکھے ایمان لانے والوں کے لئے جنّت اور آگ سے آزادی کی خوش خبریاں ہیں-  اور یہ آیات پڑھتے وقت وہ یہ بھول جاتے ہیں قرآن ہی بن دیکھے ایمان لانے کے ساتھ ساتھ اپنے دل کے اطمینان کے لئے پرکھنے کی اجازت بھی دیتا ہے- حتیٰ کہ پیغمبروں تک نے یہ طریقہ اپنایا-


"بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے بدل بدل کے آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں- جو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹوں پر لیٹے (ہر حال میں) خدا کو یاد کرتے اور آسمان اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے (اور کہتے ہیں) کہ اے پروردگار! تو نے اس کو بے فائدہ نہیں پیدا کیا- تو پاک ہے تو (قیامت کے دن) ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائیو"- 
سوره آل عمران 


اکثر عوام الناس علماء اور مولویوں کے اس قسم کے فتوؤں سے بے یقینی کا شکار ہو جاتی ہے کہ آیا وہ جو بھی علم حاصل کر رہے ہیں وہ کفر تو نہیں اور پھر حاصل بھی کرتے ہیں تو اس شک کے ساتھ کہ وہ گناہ کر رہے ہیں لیکن کیا کریں یہ تو ضروری ہے-  اکثر میڈیکل کے طلباء، انجینرنگ کے طلبا، تیسرے چوتھے سال سے تعلیم چھوڑ کر گشتوں میں شامل ہو جاتے ہیں-  ساری زندگی فضائل اعمال کو رٹتے ہوۓ اور رائیونڈ کے جلسوں میں دین سیکھتے گزار دیتے ہیں-  اور میڈکل اور انجینئرنگ میں کافروں کے ثمرات، جہاد، علم اور ایجادات کو اپنے مطلب کے وقت الله کی مصلحت قرار دے کر استعمال کرتے ہیں-  بہت سے دوسری آسمانی کتابوں کو تو کیا قرآن کو ہی ہاتھہ نہیں لگاتے کہ پتہ نہیں کیا سے کیا سمجھ لیں-  
علامہ اقبال نے کہا 
سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار 
غلامی سے بد تر ہے بے یقینی 

 لفظ 'کفر' کا مادّہ ہے ک ف ر-  اور اسکا مطلب ہے انکار کرنا، رد کرنا، جھٹلانا یعنی سچ معلوم ہوتے ہوۓ بھی غلط بات پر اڑے رہنا-  اور عرف عام میں یہ اچھائی کے رد کرنے اور انکار کرنے اور برائی کے رد کرنے اور انکار کرنے کے معنی دیتا ہے-  ایک مومن شیطانی تعلیمات کا انکار کرتا ہے-  ایک باشعور انسان اپنی غلط خواہشات اور غلط جذبات کا انکار کرتا ہے یا انھیں رد کرتا ہے- 

"یہ خدا کی نعمتوں سے واقف ہیں۔ مگر (واقف ہو کر) اُن سے انکار کرتے ہیں
 اور یہ اکثر ناشکرے ہیں"-
 سوره النحل

شرعی اصطلاح میں اسلام کے کسی بھی ارکان یا شعائر, پیغمبروں، فرشتوں، آسمانی کتابوں، آخرت کا انکار کرنا، انکی سچائی ثابت ہونے کے باوجود انھیں جھوٹ یا غلط ثابت کرنا، ان کا مذاق اڑانا، ان کی تحقیر یا مٹانے کے لئے کوششیں کرنا- یہ سب کفر ہے-   جبکہ  شیطانی تعلیمات کا انکار، اپنی غلط خواہشات اور غلط جذبات کا انکار کرنا یا انھیں رد کرنا ایمان ہے-  


"اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور ان کے بھائی ہارون کو مددگار بنا کر ان کے ساتھ کیا- اور کہا کہ دونوں ان لوگوں کے پاس جاؤ جن لوگوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی۔ (جب تکذیب پر اڑے رہے) تو ہم نے ان کو ہلاک کر ڈالا"-
 سوره الفرقان 

"اور نوح کی قوم نے بھی جب پیغمبروں کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں غرق کر ڈالا اور لوگوں کے لئے نشانی بنا دیا۔ اور ظالموں کے لئے ہم نے دکھ دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے- اور عاد اور ثمود اور کنوئیں والوں اور ان کے درمیان اور بہت سی جماعتوں کو بھی (ہلاک کر ڈالا)"-  
سوره الفرقان 


"اور سب کے (سمجھانے کے لئے) ہم نے مثالیں بیان کیں اور (نہ ماننے پر) سب کا تہس نہس کردیا"-
 سوره الفرقان 

اسلام میں سوال کرنا کفر نہیں-  اعتراض کرنا بھی کفر نہیں-  اپنے دل کی تسلی کے لئے پرکھنا بھی کفر نہیں-  البتّہ تمام مراحل کے نتیجے میں نا حق پر اڑے رہنا کفر ہے-  اگر سوال کرنا، اعتراض کرنا یا پرکھنا کفر ہوتا تو پھر یہ رویہ فرشتے اور رسول کبھی نہ اپناتے- 

اور نہ ہی قرآن اسلامی تعلیمات اور عقیدے کی سچائی کے لئے خود کوئی دلائل پیش کرتا اور نہ یہ کہتا کہ 

"اور یہ لوگ تمہارے پاس جو (اعتراض کی) بات لاتے ہیں ہم تمہارے پاس اس کا معقول اور خوب مشرح جواب بھیج دیتے ہیں"- 
سوره الفرقان 

"(اے پیغمبر ان سے) کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو دلیل پیش کرو"-
 سوره البقرہ، آیت ١١١

" کہہ دو کہ (مشرکو) اگر تم سچے ہو تو دلیل پیش کرو"-
 سوره النمل، آیت ٦٤

"اور اگر تم کو اس (کتاب) میں، جو ہم نے اپنے بندے (محمدﷺ عربی) پر نازل فرمائی ہے کچھ شک ہو تو اسی طرح کی ایک سورت تم بھی بنا لاؤ اور الله کے سوا جو تمہارے مددگار ہوں ان کو بھی بلالو اگر تم سچے ہو"-  
سوره البقرہ  ٢٣

"کہہ دو کہ ملک میں چلو پھرو پھر دیکھو
کہ گنہگاروں کا انجام کیا ہوا ہے"-
 سوره النمل

"کیا ہم فرمانبرداروں کو نافرمانوں کی طرح  محروم کردیں گے؟
 تمہیں کیا ہوگیا ہے کیسی تجویزیں کرتے ہو؟
 کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں (یہ) پڑھتے ہو-
 کہ جو چیز تم پسند کرو گے وہ تم کو ضرور ملے گی- 
 یا تم نے ہم سے قسمیں لے رکھی ہیں جو قیامت کے دن تک چلی جائیں گی کہ جس شے کا تم حکم کرو گے وہ تمہارے لئے حاضر ہوگی- 
 ان سے پوچھو کہ ان میں سے اس کا کون ذمہ لیتا ہے؟
 کیا (اس قول میں) ان کے اور بھی شریک ہیں؟
اگر یہ سچے ہیں تو اپنے شریکوں کو لا سامنے کریں"-
سورہ القلم

"تم کیسے لوگ ہو، کس طرح کا فیصلہ کرتے ہو-
 بھلا تم غور کیوں نہیں کرتے- یا تمہارے پاس کوئی صریح دلیل ہے-
 اگر تم سچے ہو تو اپنی کتاب پیش کرو"- 
سوره الصفات 

" (اے افتراء پردازو) تمہارے پاس اس (قول باطل) کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ تم خدا کی نسبت ایسی بات کیوں کہتے ہو جو جانتے نہیں"- 
سوره یونس 

ذرا قرآن کے لہجے اور انداز گفتگو پر غور کریں-  کیا ملک میں چلنا پھرنا ایک دن میں ہوجاتا ہے؟  کیا چلنے پھرنے کا مطلب یہاں ہوا خوری ہے یا آثار قدیمات پر غور و فکر؟  کیا یہ کھدائیاں ایک دن میں ہو جاتی ہیں یا کہیں سجی سجائی رکھی ہوتی ہیں؟  کیا فرعون کی لاش ایک دن میں مل گئی-  الله چاہتے تو لاش کی جگہ کی نشاندہی کردیتے؟  کیا قرآن کے مقابلے پر ایک سورہ یا آیت ایک دن میں بن جاتی ہے اور اسکے لئے جو الله نے مددگاروں کو بلانے کا کھلا چیلنج دیا ہے کیا وہ ایک دن میں ہو جاتا ہے؟

اور بھلا کیا ضرورت تھی الله کو سائنسی دلائل دینے کی- اس لئے کہ یہی طریقۂ کار انسان کے علم کا ذریعہ ہے- فرشتے تو صرف انبیاء اور رسولوں پر نازل ہوتے ہیں-  جب قرآن پڑھیں تو دیکھیں کہ سائنس یعنی علوم کی طرف رغبت کرنے والوں کو الله نے 'عقل والوں'، 'سوچنے والوں'، 'غور کرنے والوں'، 'شکر کرنے والوں' کا درجہ دیا ہے- بشرطیکہ وہ اس سے الله کی طرف راغب رہیں- 

دلیل کیسے پیش کی جاتی ہے-  دلیل کسی بھی سیکھنے یا جاننے کے عمل کا آخری مرحلہ ہوتا ہے جسے کسی اصول یا قاعدے کی شکلدینا باقی ہوتا ہے-   اور اس سے پہلے مشاہدات، مفروضات، قیاس آرائیاں، سوالات، بحث، تحقیق، تجربات کے مراحل سے گذرنا پڑتا ہے-  اور نہ تو یہ کسی عدالت کا طریقۂ کار ہوتا ہے اور نہ ہی قرآنی حکمت عملی ہے-  کہ سنے سناۓ بیان یا الزام پر یا صفائی اور صلح کے موقع دیے بغیر سزائیں سنا دی جائیں- 


قرآن کی نزولی کے متعلق اعتراض  کا جواب 
"اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر قرآن ایک ہی دفعہ کیوں نہیں اُتارا گیا۔
 اس طرح (آہستہ آہستہ) اس لئے اُتارا گیا کہ اس سے تمہارے دل کو قائم رکھیں۔ اور اسی واسطے ہم اس کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے رہے ہیں"- 
سوره الفرقان 


فرشتوں کا الله سے سوال
"اور جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں (اپنا) نائب بنانے والا ہوں۔ انہوں نے کہا۔ کیا آپ اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتے ہیں جو خرابیاں کرے اور کشت وخون کرتا پھرے اور ہم آپکی تعریف کے ساتھ تسبیح وتقدیس کرتے رہتے ہیں۔ فرمایا میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے"-
 سوره البقرہ ٣٠ 



بنی اسرائیل کے سوالات الله سے حضرت موسیٰ کے ذریعے
" اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہالله تم کو حکم دیتا ہے کہ ایک بیل ذبح کرو۔ وہ بولے، کیا تم ہم سے ہنسی کرتے ہو۔ (موسیٰ نے) کہا کہ میں الله کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں- انہوں نے کہا کہ اپنے پروردگار سے التجا کیجئے کہ وہ ہمیں یہ بتائے کہ وہ بیل کس طرح کا ہو۔ (موسیٰ نے) کہا کہ پروردگار فرماتا ہے کہ وہ بیل نہ تو بوڑھا ہو اور نہ بچھڑا، بلکہ ان کے درمیان (یعنی جوان) ہو۔ جیسا تم کو حکم دیا گیا ہے، ویسا کرو- انہوں نے کہا کہ پروردگار سے درخواست کیجئے کہ ہم کو یہ بھی بتائے کہ اس کا رنگ کیسا ہو۔ موسیٰ نے کہا ، پروردگار فرماتا ہے کہ اس کا رنگ گہرا زرد ہو کہ دیکھنے والوں (کے دل) کو خوش کر دیتا ہو- انہوں نے کہا کہ (اب کے) پروردگار سے پھر درخواست کیجئے کہ ہم کو بتا دے کہ وہ اور کس کس طرح کا ہو، کیونکہ بہت سے بیل ہمیں ایک دوسرے کے مشابہ معلوم ہوتے ہیں، (پھر) خدا نے چاہا تو ہمیں ٹھیک بات معلوم ہو جائے گی- موسیٰ نے کہا کہالله فرماتا ہے کہ وہ بیل کام میں لگا ہوا نہ ہو، نہ تو زمین جوتتا ہو اور نہ کھیتی کو پانی دیتا ہو۔ اس میں کسی طرح کا داغ نہ ہو۔ کہنے لگے، اب تم نے سب باتیں درست بتا دیں۔ غرض (بڑی مشکل سے) انہوں نے اس بیل کو ذبح کیا، اور وہ ایسا کرنے والے لگتے تو نہیں تھے-  اور جب تم نے ایک شخص کو قتل کیا، تو اس میں باہم جھگڑنے لگے۔ لیکن جو بات تم چھپا رہے تھے، الله اس کو ظاہر کرنے والا تھا-  تو ہم نے کہا کہ اس بیل کا کوئی سا ٹکڑا مقتول کو مارو۔ اس طرح الله مردوں کو زندہ کرتا ہے اور تم کو
اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھو"-
 سورہ البقرہ ٦٨

الله کا ایک شخص کے سوال پر ثبوت پیش کرنا - سو سال کے عرصہ میں 
"یا اسی طرح اس شخص کو (نہیں دیکھا) جسکا ایک گاؤں سے، جو اپنی چھتوں پر گرا پڑا تھا، اتفاق گزر ہوا۔ تو اس نے کہا کہ الله اس (کے باشندوں) کو مرنے کے بعد کیونکر زندہ کرے گا۔ توالله نے اس کی روح قبض کرلی (اور) سو برس تک (اس کو مردہ رکھا) پھر اس کو جلا اٹھایا اور پوچھا تم کتنا عرصہ (مرے)رہے ہو اس نے جواب دیا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم۔الله نے فرمایا (نہیں) بلکہ سو برس (مرے) رہے ہو۔ اور اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ (اتنی مدت میں مطلق) سڑی بسی نہیں اور اپنے گدھے کو بھی دیکھو (جو مرا پڑا ہے) غرض یہ ہے کہ ہم نے تم کو لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانی بنائیں اور (ہاں گدھے) کی ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم ان کو کیونکر جوڑے دیتے اور ان پر (کس طرح) گوشت پوست چڑھا دیتے ہیں۔ جب یہ واقعات اس کے مشاہدے میں آئے تو بول اٹھا کہ میں یقین کرتا ہوں کہ الله ہر چیز پر قادر ہے"-
سوره البقرہ ٢٥٩

 الله کا طریقۂ کار حضرت انراہیم  کے ایمان کی تسلی کے لئے 
"اور جب ابراہیم نے کہا کہ اے پروردگار مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کیونکر زندہ کرے گا۔ الله نے فرمایا کیا تم اس پر ایمان نہیں رکھتے- انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ لیکن (میں دیکھنا) اس لئے (چاہتا ہوں) کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کرلے۔ الله نے فرمایا کہ چار جانور پکڑوا کر اپنے پاس منگا لو (اور ٹکڑے ٹکڑے کرادو) پھر ان کا ایک ٹکڑا ہر ایک پہاڑ پر رکھوا دو پھر ان کو بلاؤ تو وہ تمہارے پاس دوڑتے چلے آئیں گے۔ اور جان رکھو کہ الله غالب اور صاحب حکمت ہے"- سورہ البقرہ ٢٦٠ 


الله کا اونٹ،  آسمان، پہاڑوں اور زمین کی طرف توجہ دلانا 
"یہ لوگ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے (عجیب )پیدا کیے گئے ہیں- اور آسمان کی طرف کہ کیسا بلند کیا گیا ہے- اور پہاڑوں کی طرف کہ کس طرح کھڑے کیے گئے ہیں- اور زمین کی طرف کہ کس طرح بچھائی گئی"-  
سوره الغاشیہ 

ہدایت، نصیحت اور ایمان بالآخرہ کے سائنسی طریقۂ کار کی طرف رغبت 
"کیا انہوں نے اپنے اوپر آسمان کی طرف نگاہ نہیں کی کہ ہم نے اس کو کیونکر بنایا اور (کیونکر) سجایا اور اس میں کہیں شگاف تک نہیں- اور زمین کو (دیکھو اسے) ہم نے پھیلایا اور اس میں پہاڑ رکھ دیئے اور اس میں ہر طرح کی خوشنما چیزیں اُگائیں- تاکہ رجوع لانے والے بندے ہدایت اور نصیحت حاصل کریں- اور آسمان سے برکت والا پانی اُتارا اور اس سے باغ وبستان اُگائے اور کھیتی کا اناج- اور لمبی لمبی کھجوریں جن کا گابھا تہہ بہ تہہ ہوتا ہے-
 (یہ سب کچھ) بندوں کو روزی دینے کے لئے (کیا ہے) اور
اس (پانی) سے ہم نے شہر مردہ (یعنی زمین افتادہ) کو زندہ کیا۔
(بس) اسی طرح (قیامت کے روز) نکل پڑنا ہے"- 
سورہ قاف 

توحید کے ثبوت 
ریپروڈکشن، پانی کی قسمیں اور اسکے فوائد، دن رات اور نظام شمسی 
"اور الله ہی نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے پھر تم کو جوڑا جوڑا بنا دیا۔ اور کوئی عورت نہ حاملہ ہوتی ہے اور نہ جنتی ہے مگر اس کے علم سے۔ اور نہ کسی بڑی عمر والے کو عمر زیادہ دی جاتی ہے اور نہ اس کی عمر کم کی جاتی ہے مگر (سب کچھ) کتاب میں (لکھا ہوا) ہے۔ بےشک یہ  الله کو آسان ہے- اور دونوں دریا (مل کر) یکساں نہیں ہوجاتے۔ یہ تو میٹھا ہے پیاس بجھانے والا۔ جس کا پانی خوشگوار ہے اور یہ کھاری ہے کڑوا۔ اور سب سے تم تازہ گوشت کھاتے ہو اور زیور نکالتے ہو جسے پہنتے ہو۔ اور تم دریا میں کشتیوں کو دیکھتے ہو کہ (پانی کو) پھاڑتی چلی آتی ہیں تاکہ تم اس کے فضل سے (معاش) تلاش کرو اور تاکہ شکر کرو- وہی رات کو دن میں داخل کرتا اور (وہی) دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو کام میں لگا دیا ہے۔ ہر ایک ایک وقت مقرر تک چل رہا ہے۔ یہی  الله تمہارا پروردگار ہے اسی کی بادشاہی ہے۔ اور جن لوگوں کو تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے برابر بھی تو (کسی چیز کے) مالک نہیں"- 
سوره فاطر 

توحید کے ثبوت - پانی اور نباتات کا قدرتی نظام  
"بھلا کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور (کس نے) تمہارے لئے آسمان سے پانی برسایا۔ (ہم نے) پھر ہم ہی نے اس سے سرسبز باغ اُگائے۔ تمہارا کام تو نہ تھا کہ تم اُن کے درختوں کو اگاتے۔ تو کیا  الله کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہے؟ (ہرگز نہیں) بلکہ یہ لوگ رستے سے الگ ہو رہے ہیں"- 
سورہ النمل 

توحید کے ثبوت  - پانی کے نظام 
"بھلا کس نے زمین کو قرار گاہ بنایا اور اس کے بیچ نہریں بنائیں اور اس کے لئے پہاڑ بنائے اور (کس نے) دو دریاؤں کے بیچ اوٹ بنائی- تو کیا الله کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ (ہرگز نہیں) بلکہ ان میں اکثر دانش نہیں رکھتے"-
 سورہ النمل 

توحید کے ثبوت  - زندگی آسان کرنے والے خیالات کا آنا- ہواؤں کا نظام 
"بھلا کون تم کو جنگل اور دریا کے اندھیروں میں رستہ بناتا ہے اور (کون) ہواؤں کو اپنی رحمت کے آگے خوشخبری بناکر بھیجتا ہے- تو کیا  الله کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ (ہرگز نہیں)۔ یہ لوگ جو شرک کرتے ہیں الله(کی شان) اس سے بلند ہے"-
 سورہ النمل 

توحید کے ثبوت  - نظریۂ ارتقاء اور نظریہ تخلیق 
"بھلا کون خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا۔ پھر اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے اور (کون) تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے- تو کیا الله کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے (ہرگز نہیں)
 کہہ دو کہ (مشرکو) اگر تم سچے ہو تو دلیل پیش کرو"-
 سورہ النمل 

نبوت اور رسالت کے اعتراض یا توہین رسالت و نبوت پر منطقی جواب 
" اور جب لوگوں کے پاس ہدایت آگئی تو ان کو ایمان لانے سے اس کے سوا کوئی چیز مانع نہ ہوئی کہ کہنے لگے کہ کیا الله نے آدمی کو پیغمبر کرکے بھیجا ہے- کہہ دو کہ اگر زمین میں فرشتے چلتے پھرتے اور بستے ہوتے تو ہم اُن کے پاس فرشتے کو ہی پیغمبر بنا کر بھیجتے"-
 سورہ بنی اسرائیل ٩٥

موت کے بعد زندگی پر اعتراض اور انکار کرنے والوں کو سائنسی جواب 
"کیا انسان خیال کرتا ہے کہ یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا؟ 
 کیا وہ منی کا جو رحم میں ڈالی جاتی ہے ایک قطرہ نہ تھا؟
 پھر لوتھڑا ہوا پھر اس کو بنایا پھر (اس کے اعضا کو) درست کیا
 پھر اس کی دو قسمیں بنائیں (ایک) مرد اور (ایک) عورت
 کیا اس خالق کو اس بات پر قدرت نہیں کہ مردوں کو جلا اُٹھائے؟"
سوره القیامہ 

علم التشریح - پرندوں کی بناوٹ اور حرکات پر غور 
"کیا انہوں نے اپنے سروں پر اڑتے ہوئے جانوروں کو نہیں دیکھا جو پروں کو پھیلائے رہتے ہیں اور ان کو سکیڑ بھی لیتے ہیں۔ الله کے سوا انہیں کوئی تھام نہیں سکتا۔ بےشک وہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے"- 
سوره الملک

انسان کی بے بسی کی دلیل 
"کہو کہ بھلا دیکھو تو اگر تمہارا پانی خشک ہوجائے تو کون ہے جو تمہارے لئے شیریں پانی کا چشمہ بہا لائے"- 
سوره الملک 

ساۓ کے بارے میں علم 
"بلکہ تم نے اپنے پروردگار (کی قدرت) کو نہیں دیکھا کہ وہ سائے کو کس طرح دراز کر (کے پھیلا) دیتا ہے۔ اور اگر وہ چاہتا تو اس کو (بےحرکت) ٹھیرا رکھتا پھر سورج کو اس کا رہنما بنا دیتا ہے- پھر اس کو ہم آہستہ آہستہ اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں-"  
سوره الفرقان 

پانی کی قسمیں 
"اور وہی تو ہے جس نے دو دریاؤں کو ملا دیا ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری چھاتی جلانے والا۔ اور دونوں کے درمیان ایک آڑ اور مضبوط اوٹ بنادی"-
 سوره الفرقان 

آسمانوں کا علم 
"اور بڑی برکت والا ہے جس نے آسمانوں میں برج بنائے اور ان میں (آفتاب کا نہایت روشن) چراغ اور چمکتا ہوا چاند بھی بنایا"- 
سوره الفرقان 

نظام شمسی 
اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بنایا۔ (یہ باتیں) اس شخص کے لئے جو غور کرنا چاہے یا شکرگزاری کا ارادہ کرے (سوچنے اور سمجھنے کی ہیں)"- 
سورہ الفرقان   


"ہم نے تم کو (پہلی بار بھی تو) پیدا کیا ہے تو تم (دوبارہ اُٹھنے کو) کیوں سچ نہیں سمجھتے؟" -
 سورہ الواقعہ 

تخلیق کا عمل 
"دیکھو تو کہ جس (نطفے) کو تم (عورتوں کے رحم میں) ڈالتے ہو- کیا تم اس (سے انسان) کو بناتے ہو یا ہم بناتے ہیں؟"- سوره الواقعہ 

میڈیکل/جینیاتی سائنس 
"اور تم نے پہلی پیدائش تو جان ہی لی ہے۔ پھر تم سوچتے کیوں نہیں؟"- سوره الواقعہ 

فارمنگ 
"بھلا دیکھو تو کہ جو کچھ تم بوتے ہو- تو کیا تم اسے اُگاتے ہو یا ہم اُگاتے ہیں؟  اگر ہم چاہیں تو اسے چورا چورا کردیں اور تم باتیں بناتے رہ جاؤ- (کہ ہائے) ہم تو مفت تاوان میں پھنس گئے- بلکہ ہم ہیں ہی بےنصیب"-
 سورہ الواقعہ 

پانی کا نظام 
"بھلا دیکھو تو کہ جو پانی تم پیتے ہو- کیا تم نے اس کو بادل سے نازل کیا ہے یا ہم نازل کرتے ہیں؟  اگر ہم چاہیں تو ہم اسے کھاری کردیں پھر تم شکر کیوں نہیں کرتے؟-
 سوره الواقعہ 

توانائی 
"بھلا دیکھو تو جو آگ تم درخت سے نکالتے ہو- کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرتے ہیں؟  ہم نے اسے یاد دلانے اور مسافروں کے برتنے کو بنایا ہے" - 
سوره الواقعہ 

میڈیکل سائنس 
"پس اگر تم کسی کے بس میں نہیں ہو- تو اگر سچے ہو تو روح کو پھیر کیوں نہیں لیتے؟" - 
سوره الواقعہ 

 "تو انسان کو چاہیئے کہ اپنے کھانے کی طرف نظر کرے- بے شک ہم ہی نے پانی برسایا- پھر ہم ہی نے زمین کو چیرا پھاڑا- پھر ہم ہی نے اس میں اناج اگایا-  اور انگور اور ترکاری- اور زیتون اور کھجوریں- اور گھنے گھنے باغ- اور میوے اور چارا- (یہ سب کچھ) تمہارے اور تمہارے چارپایوں کے لیے بنایا"-
 سوره عبس 

"اور تمہارے لیے چارپایوں میں بھی (مقام) عبرت (وغور) ہے کہ ان کے پیٹوں میں جو گوبر اور لہو ہے اس سے ہم تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے خوشگوار ہے"-
 سوره النحل 

"اور کھجور اور انگور کے میووں سے بھی (تم پینے کی چیزیں تیار کرتے ہو کہ ان سے شراب بناتے ہو) اور عمدہ رزق (کھاتے ہو) جو لوگ سمجھ رکھتے ہیں ان کے لیے ان (چیزوں) میں (قدرت خدا کی) نشانی ہے"- سوره النحل 

"اور تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھیوں کو ارشاد فرمایا کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور اونچی اونچی چھتریوں میں جو لوگ بناتے ہیں گھر بنا"- سوره النحل 

"اور ہر قسم کے میوے کھا۔ اور اپنے پروردگار کے صاف رستوں پر چلی جا۔ اس کے پیٹ سے پینے کی چیز نکلتی ہے جس کے مختلف رنگ ہوتے ہیں اس میں لوگوں (کے کئی امراض) کی شفا ہے۔ بےشک سوچنے والوں کے لیے اس میں بھی نشانی ہے"-  
سوره النحل 

"اور الله ہی نے تم کو تمہاری ماؤں کے شکم سے پیدا کیا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے۔ اور اس نے تم کو کان اور آنکھیں اور دل (اور اُن کے علاوہ اور) اعضا بخشے تاکہ تم شکر کرو"-
 سوره النحل 

" یہاں تک کہ جب اس (فرعون) کو غرق (کے عذاب) نے آپکڑا تو کہنے لگا کہ میں ایمان لایا کہ جس (الله) پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں فرمانبرداروں میں ہوں- (جواب ملا کہ) اب (ایمان لاتا ہے) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا اور مفسد بنا رہا- تو آج ہم تیرے بدن کو (دریا سے) نکال لیں گے تاکہ تو پچھلوں کے لئے عبرت ہو۔ اور بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے بےخبر ہیں"- 
سوره یونس 

یہ قرآن قیامت تک کے لئے رہنمائی اور ہدایت ہے-  اور اس میں دی گئیں دلیلیں بھی قیامت تک کے لئے ان کے لئے کھلی للکار ہیں جو یا تو ایمان لانے والے نہیں یا پھر ایمان کے لئے دلائل کے منتظر ہوتے ہیں-  قرآن کا مقصد سزا نہیں، اصلاح ہے-  فرعون کو بھی سزا اس وقت دی گئی جب پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اسکے پاس دلائل دے کر بھیجا گیا اور وہ پھر بھی نہ مانا-  لیکن ان دلائل کے نتیجے میں بہت سے جادوگر ایمان لے آۓ تھے-  یہی قصہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کا اپنے باپ اور قوم کے ساتھہ ہوا-  اور یہی بات باقی نبیوں کے ساتھ ہوئی-  

قرآن کریم کے طریقہ یعنی الله سبحانہ و تعالی کے طریقے اور محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلّم اور دوسرے انبیاء کرام کے طریقوں کو دیکھیں تو ان میں ذرا بھی فرق نظر نہیں آۓ گا-  کیونکہ سب کا مقصد ہی اصلاح کرنا تھا اور سزا کی صورت میں پہلے حجت قائم کرنا تاکہ مجرم مطمئن ہو جاۓ کہ اسے جو سزا دی جارہی ہے وہ بالکل صحیح ہے اور اسکا جرم قابل تعزیر ہے-  

تبلیغی جماعت والوں کو اور دوسری دینی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ قرآن کی طرف لوگوں کی عقل اور دل کے دروازے بند نہ کریں-  یہ مولویوں کی کتاب نہیں-  الله کی کتاب ہے اسکے بندوں کے لئے-  قرآن اور بندوں کے درمیان رکاوٹ بننا تو خود ہی جہنّم کے راستوں میں سے ایک راستہ ہے-  
جسے علامہ اقبال نے کہا کہ 
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے 
پیران کلیسا کو کلیسا سے ہٹا دو 

لوگوں کو الله سے ڈرائیں- لیکن کچھ جانے، سیکھنے اور کچھ کرنے کے عمل سے نہ ڈرائیں-  یہی تو راستہ ہے حق اور ناحق کی پہچان کا- کیوں قرآن کو اور قرآن کے ماننے والوں کو جماعتوں اور تنظیموں میں تقسیم کردیا ہے؟  یہ علم کو کیوں دینی اور دنیاوی تعلیم میں تقسیم کردیا ہے؟  یہ دینی اور دنیاوی تعلیم کیا ہے؟  کیا دنیا کسی اور نے بنائی ہے جو دنیا کی تعلیم کفر ہے؟  کیا دین کو پہچاننے کا کوئی اور راستہ بتایا ہے قرآن نے؟  عوام کے منہ سے زبان لے کر اور خود کو انکی آنکھیں اور ذہن بنا کر صرف جہالت کا راستہ ہموار کیا جا سکتا ہے-  ایمان اور علم کا نہیں-  کیوں لوگوں کے عقائد کا بوجھ خود پر لیتے ہیں-


"اور کوئی اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔ اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا اپنا بوجھ بٹانے کو کسی کو بلائے تو کوئی اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا
 اگرچہ قرابت دار ہی ہو"-
 سوره فاطر 

قرآن علوم کا بہتا ہوا دریا ہے- یہ ہر مزاج، ہر سوال اور ہر قسم کی جستجو کی پیاس بجھاتا ہے-  

قرآن روح کی غذا ہے-  کیونکہ روح بھی نور ہے اور قرآن بھی نور ہے-  جبکہ موسیقی نور نہیں بلکہ مادّی اشیاء چاہے وہ انسانی یا حیوانی جسم کے اعضاء ہوں یا کوئی اور آلہ موسیقی یا ماحول میں موجود ہوا، پانی، اور دوسرے عناصر کی آوازیں-  اور اس موسیقی کا تعلق روح سے نہیں انسانی نفسیات سے ہے- 

کلام کہتے ہیں بات کو-  قرآن الله کا کلام یعنی بات ہے-  جو اپنے متکلّم کی تسلی کرتا ہے-  اپنے مخاطب کبھی دلائل کی روشنی میں، کبھی تنبیہ سے، کبھی خوف اور کبھی حرص دلا کر اندھیروں سے اجالوں کی طرح لاتا ہے-  


"وہی تو ہے جو اپنے بندے پر واضح آیتیں نازل کرتا ہے تاکہ تم کو اندھیروں میں سے نکال کر روشنی میں لائے۔ بےشک الله تم پر نہایت شفقت کرنے والا (اور) مہربان ہے"- 
سوره الحدید 

اور جو لوگ ان سارے طریقۂ کار کے بغیر سزاؤں کے فی الفور نفاذ پر یقین رکھتے ہیں وہ صرف اور صرف ابلیس کی انا کو تسکین پہنچاتے ہیں-


"شیطان تمہارا دشمن ہے تم بھی اسے دشمن ہی سمجھو"-
 سوره فاطر




No comments:

Post a Comment