Monday 26 May 2014

قلمی باپ

شوق کا کوئی مول نہیں-  
یعنی شوق کی کوئی قیمت نہیں ہوتی- یہ خود بخود پیدا ہوتا ہے-  اور انسان کے دل و دماغ کو اپنے قابو کرلیتا ہے-  پھر نہ انسان کسی کی سنتا ہے اور نہ کسی کو دیکھتا ہے-  نہ اسے فائدہ سمجھ آتا ہے نہ نقصان-  ہم بہن بھائیوں کے  ایک نہیں بہت سے شوق تھے-  اور ہر شوق ایک سے بڑھ ایک تھا-  بلکہ مجھے لگتا ہے کہ ہم کو ہر چیز کا شوق تھا-  شاید اسی لئے ہم کبھی بور نہیں ہوتے تھے آج کل کے بچوں کی طرح-  

امی کو ہمیں پڑھانے کا بہت شوق تھا-  اور مجھے بچپن سے پڑھنے کا بہت شوق تھا-  امی نے اپنے اس شوق کے لئے بہت قربانیاں دیں-  اور میں نے اپنے شوق کے لئے-  امی کی تمنّا تھی کہ ہم کورس کی کتابیں پڑھیں تاکہ فرسٹ، سیکنڈ، تھرڈ، فورتھ آئیں-  مجھے کورس کی کتابوں کے علاوہ سب کچھ پڑھنے کا شوق تھا جسکی وجہ سے میں فرسٹ، سیکنڈ، تھرڈ، فورتھ تو کیا اوّل، دوم، سوم، چہارم اور پنجم بھی نہیں آسکتی تھی-  تو میرے نمبر صرف اکّڑ بکّڑ بمبے بو ہوتے تھے-  کبھی اسی نوّے پورے سو تک پہنچ ہی نہیں پاتے تھے-  ہاں یہ ضرور تھا کہ نیا کورس آتے ہی میں اس میں سے کہانیاں اور اچّھی اچّھی نظمیں پہلے ہی پڑھ لیتی-  

بابا یا دادا جب بھی باہر لے جاتے تو ضرور مجھے چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی کتابیں دلاتے-  ان میں جنوں، بھوتوں، پریوں، سادھوؤں، شہزادوں اور شہزادیوں کی کہانیاں ہوتیں- نو نہال، تعلیم و تربیت اور جہاں جہاں سے جو رسائل مل جاتے بچّوں کی کہانیاں اور نظمیں ملتیں میں ضرور پڑھتی-  ایک دو مرتبہ جماعت اسلامی کے دروس میں جو کتابوں کا اسٹال لگتا تھا وہاں سے بھی کتابیں خریدیں-  ان میں سے دو "انعام اور اکرام" کی کہانی اور "رابن سن کروسو"  ٢٠٠٢ تک میرے پاس رہیں-  بڑے ہونے پر جاسوسی ڈائجسٹوں کے ناول اور عمران سیریز بھی پڑھی-  ایسی جیمز بانڈ والی کہانیاں ہوتیںکہ مزہ آجاتا--  ایک مرتبہ اسکول کے زمانے میں ہی اپنی کزنز کے ساتھ انکی ایک دوست کے گھرجانا میرے لئے رحمت بن گیا-  انکے ایک کونے میں کچھ کتابیں پر تھیں ان میں سے ایک کہانی پڑھی اور بہت پسند آئی-  مصنف کا نام دیکھا تو اشتیاق احمد لکھا تھا-  پھر دور ایک لائبریری تھی وہاں اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ جاکر اشتیاق احمد کی کتابیں لائی-  لیکن اتنی دور جانے کی ہر مرتبہ اجازت نہیں مل سکتی تھی-  اس لئے بعد میں خود ہی خریدنی شروع کردیں-  اشتیاق احمد پہلے مہینے میں دو یا تین ناول لکھتے تھے-  جو شاید چار روپے کا ایک ہوتا تھا اور اس وقت کے لحاظ سے بہت مہنگا-  جو بعد میں چھہ روپے کا ایک ناول ہو گیا تھا-  پھر انہوں نے مہینے میں چار ناول لکھنے شروع کردیے-  دو انسپکٹر جمشید سیریز، ایک کامران مرزا سیریز اور ایک شوکی سیریز-  شوکی سیریز کے آنے کے بعد میری دلچسپی باقی میں تھوڑی سی کم ہوگئی تھی-  اس کی وجہ بہت سادہ تھی-  شوکی سیریز ہم جیسے عام لوگوں کے کرداروں پر مشتمل تھا-  اور کرداروں کے نام انکے اور انکے بھائیوں کے نام پر تھے-  ان کرداروں میں ذھانت کے علاوہ کوئی خاص صلاحیتیں نہیں تھیں جیسے لڑنا بھڑنا، مقابلے کرنا وغیرہ- انکا خاص نمبر اور مہنگا ہوتا اور اس لئے اچّھا لگتا کہ اس میں یہ تینوں سیریز کے کردار اتفاق سے ایک ہی کیس کے سلسلے میں ایک جگہ جمع ہوجاتے اور دشمن کا مقابلہ کرتے-  انکے ولنز میں جیرال اور سلاٹر بڑے اچھے لگتے تھے-  انکی خاص نمبرز میں 'باطل قیامت' اور 'شیطان کے پجاری' بڑی زبردست ناولز تھیں-  نۓ ناول آنے تک میں انہی ناولز کو دن رات رٹتی رہتی-  

میرا اپنا خیال تھا کہ اشتیاق احمد کی ٹیچر ہونا چاہیے اور انکی ناولز کورس میں شامل ہونی چاہئیں-  اور یوں میں اشتیاق احمد کو اپنا قلمی باپ مانتی ہوں-  کیونکہ جتنا دین و تعلیم ان سے سیکھی- اپنے پورے زمانہ طالبعلمی میں نہیں سیکھی-  "قلمی باپ"  یہ تو کسی ناول کا نام ہو سکتا ہے-  ہا ہا ہا ہا - 

حیرت مجھے اس بات پر ہوتی کہ ایک مڈل کلاس کا میٹرک پاس شخص تہجّد کے بعد مسجد  میں بیٹھ کر اتنی سائنسی باتیں کس طرح سوچ لیتا تھا-  جبکہ ان وقتوں میں ٹی وی، وی سی آر بھی نہیں تھے اور انگریزی فلمیں اس طرح ہوتی بھی نہیں تھیں اور ہر وقت آتی بھی نہیں تھیں ٹی وی پر- 

انکی انسپکٹر جمشید، انسپکٹر کامران مرزا اور شوکی سیریز سے پہلے کے جو ناولز تھے وہ اور بھی مزے کے تھے جس میں وہ خود کو ہی ایک عام سے کردار میں پیش کرتے اور اپنی جسمانی کمزوری کے باوجود اپنی حاضر دماغی سے کامیاب کروادیتے-  ان میں سے ایک "جاسوس کہیں کا"  بڑے مزے کا تھا-  

اشتیاق احمد کی کتابوں میں سے ایک انکے اپنی زندگی پر بھی تھا جس کو پڑھ کر کوئی بھی اپنے آنسو نہیں روک سکتا-  انہوں نے لکھا تھا کہ میٹرک کے بعد وہ آگے نہ پڑھ سکے اور گھر چلانے اور باقی بہن بھائیوں کی تعلیم کے لئے ملازمت ڈھونڈنے نکلے-  سخت گرمی میں وہ ادھر سے ادھر پھرتے کام کے لئے-  آخر میں انھیں اپنے میٹرک کے سرٹفکیٹ پر سگریٹ اور ٹافیاں رکھ کر بیچنی پڑیں-  پھر مختلف حالات سے گزر کر وہ لکھنے کی صلاحیتیں کام میں لے آۓ-  کافی عرصے بعد اپنا پبلیکیشن کا ادارہ بھی بنا لیا تھا-   الله نے انکو بہت عزت عطا فرمائی-  ہر چھوٹا بڑا انکی عزت کرتا-  خاص کر جب انہوں نے ختم نبوّت کی تحریکوں میں حصّہ لینا شروع کیا-  کیونکہ عوام کو تحریکوں کے ذریعے متحرّک نہ رکھا جاۓ جو بھیڑ بکریوں کی طرح کسی کے بھی پیچھے نکل لیتے ہیں- 

امی کو بہت غصّہ آتا تھا کہ اس کو کوئی اور کام نہیں جب دیکھو اشتیاق احمد کو لے کر بیٹھی ہوتی ہے-  اور میں یہ کہتی تھی کہ ان ناولز میں برائی کیا ہے-  انکے شروع میں لکھا ہوتا تھا کہ پہلے نماز، ہوم ورک اور گھر کے کاموں سے فارغ ہوں پھر پڑھیں-  ایک حدیث بھی دی ہوتی تھی-  اور ناولز کے اندر پاکستان اور اسلام سے محبّت کی باتیں ہوتی تھیں، ادب آداب کی باتیں ہوتیں تھیں-  لوگوں سے ہمدردی کی باتیں ہوتی تھیں-  محاورے ہوتے تھے-  مزاح ہوتا تھا-  

پھر مجھے ایک خیال آیا کہ کیوں نہ شروع سے آخر تک اشتیاق احمد کے ناولز جمع کیے جائیں-  انکے ناولز کے پیچھے اگلے مہینے کے ناولز کے نام دیے ہوتے-  لہٰذا میں نے ان ناولز کی ایک کاپی پر فہرست بنانا شروع کردی-  جو میرے پاس تھے-  اور انکے سیریل نمبرز بھی ساتھہ لکھتی کہ یہ پتہ رہے کہ کون سے نمبرز کے ناولز ابھی ڈھونڈنے ہیں-  یہ سلسلہ کئی مہینوں تک چلا-  اور میرے پاس ادھر ادھر پرانی دکانوں پر تلاش کر کے کافی ناولز جمع ہوگۓ-  بالآخر ایک بہت ہی پرانی دکان کے پتہ چلا کہ انکے پاس بہت سے ناولز ہوتے ہیں بچوں کے-  الله کا شکر کہ اشتیاق احمد کے تمام وہ ناولز جو میرے پاس نہیں تھے وہاں سے مل گۓ-  تینوں سیریز کے علاوہ بھی اشتیاق احمد کی کتابیں تھیں وہ بھی میں نے خرید لیں تھیں-  اور میری اس وقت تک کی فہرست مکمّل ہو گئی-  پھر میں نے اس فہرست میں تینوں سیریز علیحدہ کیں-  اور ایک ڈائری بنالی-  میری بڑی خواہش تھی کہ اشتیاق احمد سے کبھی ملوں لیکن کبھی موقع ہی نہیں مل سکا-

امریکہ جاتے وقت میرے اپنے سامان میں انہی کتابوں سے بھرا بیگ اور میری درجنوں چوڑیاں تھیں جن میں سے کچھ میرے ہاتھ میں بھی نہیں آتی تھیں-  چھوٹی ہو گئی تھیں-  وہاں جاکر بھی اشتیاق احمد سے خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہا-  اور میری ناولز وہاں پہنچ جاتیں-  پھر یہ سنا کہ بھارت، امریکہ، اسرائیل اور خاص طور پر قادیانیوں کے خلاف لکھنے کی وجہ سے ان کی کتابوں پر پابندی لگ گئی ہے-  وہاں بھی میں جاب پر جاتے وقت ٹرین میں یہی ناولز پڑھتی تو سب دیکھتے کہ کون سی زبان کی کتاب پڑھ رہی ہوں-  انکی ناولز "باطل  قیامت" اور "وادی مرجان" نے ملک دشمن عناصر میں تہلکہ مچادیا تھا-  'باطل قیامت' تو وہی ناول تھا جس پر میں نے پہلی مرتبہ باجی کی وجہ سے انعام جیتا- یہ دونوں ناولز میں نے٣٠٠٥ کے بعد کراچی میں ڈھونڈنا شروع کیے اردو بازار سے لے کر ہر بازار میں-  اور آخر میں قائداعظم کے مزار کے پیچھے ایک دکان سے معلوم ہوا کہ انکے پاس ان دونوں کتابوں کے اور بھی آرڈرز ہیں لیکن ابھی تک آئی نہیں-  پھر میں نے تھک کر تلاش چھوڑ دی-  

٢٠٠٢ میں پاکستان آتے وقت یہ نہیں پتہ تھا کہ ٹھکانہ کہاں ہوگا-  اس لئے اپنی کتابیں وہیں کسی کے پاس امانتا رکھوادیں-  کہ بعد میں کوئی آتا جاتا ھوگا تو منگوالوں گی-  میں نے سوچا تھا کہ جس دن اپنا مستقل ٹھکانہ ہوا تو اس میں ایک لائبریری کا حصّہ بنا کر ان کتابوں کو اس میں رکھوں گی-  ٢٠٠٥ میں جب وہ ہستی کراچی آئی تو میں نے کتابوں کا پوچھا-  تو ہنستے ہوۓ جواب ملا کہ وہ تو دو سال پہلے ہم لوگ جب نیو جرسی شفٹ ہو رہے تھے تو سامان باہر رکھا تھا اوررات بھر کی بارش میں  وہ بیگ گیلا ہو گیا-  اسلئے اس نے وہ سب گاربیج کردیا تھا-  

آ آ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ !












Wednesday 21 May 2014

Cure of Deviation from Normality

مطالعہ - اگر اچھی سوچ کے ساتھ کیا جاۓ تو  امید  کی راہیں کھولتا ہے-  اور اکثر دوران مطالعہ انسان کو خود اپنی شخصیت کے بارے میں بہت سے راز و نیاز سے آگاہی ہوتی ہے-  

کسی انسان کو اپنا ڈھائی تین سال تک کا زمانہ یاد نہیں ہوتا-  وہ کیسا تھا کیا تھا اسے لوگوں کی زبانی پتہ چلتا ہے-  ہم اکثر بچوں کی شخصیت کو اپنی اس عمر کی جس میں ہم ہیں، کی بنیاد پر جانچتے ہیں-  اور اسے بچپن ہی میں اچھائی یا برائی کی سند دے دیتے ہیں-  بڑا مشہور محاورہ ہے کہ "پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آجاتے ہیں"-  

ماریا مونٹیسوری کی تحقیق کے مطابق بچے کی شخصیت اسکے ابتدائی چھہ سالوں میں مکمّل ہو تی ہے-  اور اس دوران وہ بہت سے حسّاس دورانیوں sensitive periods سے گذرتا ہے-  جو کہ اسکے اندر کی کام کرنے کی جستجو کا مظہر ہوتے ہیں-  اور بچہ اس دورانیے میں وہ کچھ سیکھ لیتا ہے جو اسے کوئی اسکول کالج نہیں سکھا سکتے-  اگر بچے کا ماحول اور اسکے ارد گرد کے بڑے لوگ مثبت ہیں تو یہ "نارمیلیٹی" Normality  کہلاتا ہے-  اور اس سے انحراف deviation کسی نہ کسی منفی رویے کا نتیجہ ہوتا ہے-  ماریہ کے مطابق اگر بچہ نارمیلیٹی سے انحراف کرتا ہے تو اس کے واپس نارمیلیٹی پر آنے کا واحد طریقہ "کام" ہے-  کام میں انہماک اور اس دوران رونما ہونے والے واقعات بچے کو مثبت رویے کی طرف واپس لے آتے ہیں-  

ہمارے گھر کے رواج کے مطابق کام کا نہ ہونا بھی نارمیلیٹی سے انحراف کا سبب ہوتا ہے لہٰذا انسان کو کسی نہ کسی کام میں مصروف رہنا چاہیے-  

اپنی بیٹی کی پیدائش پر تمام تر خوشیوں اور مسرّتوں اور توجہ کے باوجود مجھے اس پر انسانی فطرت کے لحاظ سے کچھ سوچنے اور اس بنیاد پر اسکی تربیت کرنے کا وقت نہیں ملتا تھا-  اب تقریبا ایک سال پہلے اس کے ہاں بیٹا ہوا اور اتفاق سے اسی دوران ماریا مونٹیسوری کو پڑھنے اور کچھ اور نفسیات دانوں کو پڑھنے کا موقع ملا تو اندازہ ہوا کہ انسانی شخصیت کی تکمیل کے مراحل کیا ہوتے ہیں اور بڑے ان سے اپنے بارے میں کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں-  بچے صرف بچے نہیں ہوتے اس کائنات میں زندگی کی ایک اور ابتداء ہوتے ہیں-  تمام بچے جہاں بہت لحاظ سے ایک جیسے ہوتے ہیں وہیں ان میں کچھ نہ کچھ فرق بھی پایا جاتا ہے-  لیکن اس فرق کو ان کی شخصیت کی پہچان بنا کر ان کو ذہنی دباؤ کا شکار بنانا ایک منفی رجحان ہے-  

اذلان ٣ جون ٢٠١٣ کو پیدا ہوا-  اگلے مہینے اسکی پہلی سالگرہ ہے-  میں نے جب اسے پہلی مرتبہ دیکھا تو وہ چار مہینے اور گیارہ دن کا تھا-  غم کے احساس تو اسے پیدا ہوتے ہی ہوگیا تھا کہ بھوک غم کی نشانی ہے اور اسے مٹانے کا طریقہ رونا ہے کہ ماں لپک کر اسکی بھوک مٹانے کا انتظام کرے گی-  اسی طرح سونے کے لئے بھی اسے ماں کی گود یا کسی بھی گود یا آرام چاہیے تھا-  

 لیکن چوتھے مہینے میں اسے خوشی کا احساس بھی ہونے لگا تھا-  ائیر پورٹ سے گھر واپسی پر سیڑھیاں چڑھتے ہوۓ وہ میری بیٹی کے کندھے پر تھا اور اس نے مجھے دیکھ کر کلکاری ماری تو مجھے حیرت بھی ہوئی اور بے انتہا خوشی بھی-  پھر گھر میں داخل ہونے کے بعد بھی وہ مسلسل میری حرکتوں پر کلکاریاں مارتا رہا-  اس وقت تک نہ وہ پلٹ سکتا تھا اور نہ ہی چیزیں دیکھ پر پکڑ سکتا تھا-  لیکن میرا خیال ہے کہ سفر کرنے کے دوران اسکے حواس خمسہ میں ایک طرح کی تیزی آئی تھی اور بقول میری بیٹی کے وہ اسلام آباد آ کر تیز ہوگیا تھا-  پھر اگلے تین ہفتوں میں رفتہ رفتہ اس نے اپنے نام پر گردن گھما کر دیکھنا شروع کردیا تھا-  دودھ کے علاوہ اسے سرا لیک Cerelac، کیلا اور کچے انڈے کی زردی بھی دی جاتی جو وہ مزے سے کھاتا-  اسی دوران اسے چمچے اور بول bowl کی پہچان بھی ہوگئی تھی جسے دیکھ کر وہ اندازہ لگاتا کہ اب کھانے کا وقت ہو گیا ہے اور خوشی کا اظہار کرتا-  نہانے کے لئے کپڑے اتارتے وقت اور واشروم میں لے جاتے وقت اسکی خوشی دیکھنے کے قابل ہوتی-  اور ہر خوشی کا اظہار وہ زور زور سے ہاتھ پاؤں ہلا کر کرتا-  جسم پر پانی پڑتا تو پر سکون ہو جاتا-  

ایک دن میری بیٹی اسے دن میں سرالیک دینا بھول گئی-  شام تک وہ بجھا بجھا سا رہا-  کافی گھنٹوں کے بعد جب شام کے وقت اسے کھانا دیا گیا تو اسکی خوشی اور جوش قابل دید تھا-  اسی عرصہ کے دوران ہم نے یہ تجربہ بھی کیا کہ اگر اسے اکیلا کمرے میں چھوڑ دیا جاۓ تو وہ ادھر ادھر خالی کمرہ دیکھ کر رونے لگتا-  گویا اسے تنہائی اور لوگوں کے درمیاں رہنے کا فرق معلوم ہو گیا تھا-  تکیوں، کمبل اور نرم چیزوں پر لٹا دو تو مزے سے کافی کافی دیر اس پر لیٹا خوش ہوتا اور آوازیں نکالتا رہتا-  اپنی نانی کی طرح ایک دفعہ کمبل میں گھس جاۓ تو مطمئن اور آرام دہ محسوس کرتا-  پھر اس نے اپنے جنگل جم کی چیزوں کو چھونا اور پکڑنا شروع کردیا-  بس زور کی آواز پر ڈر جاتا اور روتا-  

شروع سے اسکی سننے کی صلاحیت listening skill بہت اچھی ہے-  اسکو لیپ ٹاپ پر بارنی Barney کے گانے اور نعتیں سننا اچھا لگتا اور غور سے کافی کافی دیر انکی وڈیوز دیکھتا رہتا-  "طلع البدر علینا" اور "محمّد نبینا" سنتے سنتے سو جاتا-  یا پھر "میرا خدا ہر روز مجھے نئی خوشیاں دیتا ہے"  سناتی تو شوق سے سنتا رہتا-    "دل دل پاکستان" پر زور زور سے ہاتھ ہلاتا اور متکتا-  جس سے اسکے شعری ذوق یا رایمنگ rhyming سے دلچسپی کا اندازہ ہوتا ہے-  

پانچویں مہینے میں اس نے سیدھی جانب پلٹنا شروع کردیا-  گھومنے پھرنے سے  اسکی حواس خمسہ میں بھی بہتری آئی-  اسے لاکھوں الفاظ اور ہزاروں لہجے سننے کو ملے-  لاکھوں بصری خاکے اسکے ذہن نشین ہوۓ-  اسکے جسم نے گرمی، سردی اور دوسرے موسمی تبدیلیوں کو محسوس کیا-  اس نے لوگوں کو، جانوروں کو مختلف طریقوں سے حرکت میں دیکھا-  ماریا مونٹیسوری کے مطابق یہ سب غیر ارادی طور پر بچے کی ابتدائی یاداشت Mneme کا حصّہ بن جاتا ہے اور اگلے سالوں میں اسکے لئے سیکھنے کے عمل میں آسانیاں پیدا کرتا ہے-  

"کہ ہم نے انسان کو تکلیف (کی حالت) میں (رہنے والا) بنایا ہے"-
 سورہ البلد 

تجسس انسان کی فطرت کا حصّہ بھی ہے اور حسّاس دورانیے کی علامت بھی-  تجسس کس طرح آگے بڑھنے اور ناممکن کو ممکن بنانے پر آمادہ کرتا ہے اور وہ اسکے لئے کتنی تکلیفیں اٹھاتا ہے-  اذلان کی ڈویلپمنٹ دیکھ کر یقین آگیا-  اسی مہینے اس نے پیٹ کے بل آگے کھسکنے کا طریقہ بھی سیکھ لیا- اور کشش کیا تھی آگے بڑھ کر کتاب یا موبائل کو پکڑنا-  کتاب یا موبائل نظر آتے ہی وہ آگے بڑھتا اور تھک کر رک جاتا پھر آگے بڑھتا اور پھر رک جاتا-  اسی میں اس نے دائیں بائیں مرنا بھی سیکھ لیا-  صرف اسکی ایک چیز کو حاصل کرنے کے شوق نے اسے آگے بڑھنے کا طریقہ، دائیں بائیں مرنے کا طریقہ، ہاتھوں اور پیروں کو کھینچنے کا طریقہ تو سیکھایا ہی-  ساتھ میں اس کے مسلز muscles یعنی پٹھے بھی مضبوط ہونے لگے-  اور تھک کر اسے بھوک بھی خوب لگتی-  

واپس کراچی جاتے وقت اسکی عمر پانچ مہینے اور بیس دن تھی-  بہت سے لوگ اس عمر میں بچوں کی ذہنی نشو و نما پر نہ تو دھیان دیتے ہیں اور نہ ہی اسکی بہتری کا انتظام کرتے ہیں-  بچہ یکدم کچھ نہیں سیکھتا-  َاسکی چھوٹی سے چھوٹی کامیابی میں اس سے پہلے کے واقعات کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے جس کو ہم نہیں سمجھتے-  

پچھلے چھہ مہینے میں اذلان نے بیٹھنا، گھٹنوں چلنا، کھڑا ہونا، چیزوں کو ادھر ادھر گھمانا سیکھا ہے-  دو تین مہنے پہلے سے اس نے نان، چاول، بسکٹ وغیرہ بھی  کھانے شروع کردیے-  اسکو کھلونوں سے زیادہ اصل چیزوں میں دلچسپی ہوتی ہے-  اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے اس پاس کے ماحول میں اپنے ماں باپ اور دوسرے بڑوں کو وہی چیزیں استعمال کرتا دیکھتا ہے کھلونوں کو نہیں- جو کہ بہت اچھی بات ہے کیونکہ اس نے بڑے ہو کر انہیں چیزوں کو استعمال کرنا ہے-  وہ بتانے سے نہیں دیکھنے سے سیکھ رہا ہے-  روزانہ وہ ڈریسنگ ٹیبل پر کھڑا ہوکر چیزیں چھوتا ہے پھر کوڑے دان کو ادھر ادھر کرتا ہے پھر باتھ روم میں گھس جاتا ہے-  کبھی کچن، کبھی کمرے، کبھی گیلری-  اسے اپنی انسانی فطرت کے مطابق کام کرنے کی آزادی چاہیے ہوتی ہے اور اس میں رکاوٹ پر اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کرتا ہے-  

ابھی تین روز پہلے اسکی ایک وڈیو دیکھ کر میں حیران رہ گئی کہ گیارہویں مہینے میں اس کے اندر یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ اگر کوئی اس سے بات کرے تو اسکا جواب وہ دے سکتا ہے اور اگر دوسرے کی سمجھ نہ آۓ یا دوسرا خاموش نہ ہو تو اس سے بچنے کا طریقہ کیا ہے-  اس نے کسی کو ایسا کرتے نہیں دیکھا لیکن یہ انسانی فطرت ہے وہ اپنے کام میں رکاوٹ برداشت نہیں کرتا-    

کام کرنے کی آزادی نے اس کے اندر کوئی فرسٹریشن frustration نہیں پیدا ہونے دی-  لہٰذا وہ ہر چیز کھاتا ہے اور خوب سوتا ہے-  کیونکہ چڑچڑا پن اکثر دل کی بھڑاس کا ہی نتیجہ ہوتا ہے-  جو انسان کی بھوک اور نیند پر اثر انداز ہوتا ہے-  

پاکستانی معاشرہ بھی فرسٹریشن سے بھرا ہوا ہے-  اس کے اندر بے جا اور غیر ضروری پابندیوں اور آزادی کے غلط استعمال کی وجہ سے بے سکونی اور فرسٹریشن پیدا ہو چکی ہے-  اس معاشرے میں لطف حاصل کرنے کے طریقے مصنوعی ہیں-  ماریا مونٹیسوری کے فلسفے کے مطابق نارمیلیٹی سے انحراف کا واحد طریقہ کام ہے-  اس قوم کو کام پر لگانے کی ضرورت ہے-  ناچ گانے، بے ہودگی اور تماش بینی پر نہیں-













Sunday 18 May 2014

متوازن غذا اور پر سکون زندگی کے اصول

"اے اہل ایمان جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو عطا فرمائیں ہیں ان کو کھاؤ اور اگر الله ہی کے بندے ہو تو اس (کی نعمتوں) کا شکر بھی ادا کرو"-
 سوره البقرہ 

"اور جو حلال طیّب روزی الله نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ اور الله سے جس پر ایمان رکھتے ہو ڈرتے رہو"-
 سورہ المائدہ 

"تو جس چیز پر (ذبح کے وقت) الله کا نام لیا جائے اگر تم اس کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہو تو اسے کھا لیا کرو"-
 سورہ الانعام 


"اور جس چیز پر الله کا نام نہ لیا جائے اسے مت کھاؤ کہ اس کا کھانا گناہ ہے اور شیطان (لوگ) اپنے رفیقوں کے دلوں میں یہ بات ڈالتے ہیں
 کہ تم سے جھگڑا کریں اور
 اگر تم لوگ ان کے کہے پر چلے تو بےشک تم بھی مشرک ہوئے"- 
 سورہ الانعام 


رسول الله صلی علیہ وسلّم کی احادیث کے مطابق، 
"جب بھوک لگے تب کھانا کھاؤ"
"پانی تین سانس میں پیو"

سوال یہ ہے کہ ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ دن میں آٹھہ، نو، دس، گیارہ گلاس پانی پیو- لیکن یہ نہیں بتاتے کہ یہ آٹھ، نو، دس، گیارہ گلاس پانی کتنے سائز کے گلاسز میں پینا ہے-   پانی  مختلف مقدار میں پیا جاتا ہے لہٰذا ہر کوئی تین سانس میں پانی کیسے پی سکتا ہے-  

اس کا سیدھا سادہ سا جواب یہ ہے کہ انسان کی صحت کے لئے ایک وقت میں اتنا پانی کافی ہوتا ہے جسے وہ تین سانس میں پی سکے-  اسی مقدار کو ہر انسان، چاہے وہ بچہ ہو یا بڑا، اپنی جسامت اور پیاس کے مطابق دن میں کئی بار پی سکتا ہے-  اس سے سانس بھی نہیں رکتا پانی پیتے ہوۓ اور پھندا بھی نہیں لگتا-  اس بات کا یقین رکھیں کہ رسول الله صلی علیہ وسلّم کی باتوں میں ساری انسانیت کے لئے فائدہ ہے-  اور انہوں نے کوئی بات بلاوجہ نہیں کہی-  

اکثرکھانے کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وقت پر کھاؤ-  اور اسکے لئے تین، چار یا پانچ میل meals تجویز کے جاتے ہیں-  کبھی کہتے ہیں تین سبزیاں اور دو پھل اور تھوڑا گوشت کھاؤ-  کبھی یہ کھاؤ وہ نہ کھاؤ-  ان تمام تحقیقات کے نتیجے میں انسان صرف پریشان ہو سکتا ہے کہ کیا کھاۓ اور کیا نہ کھاۓ-  کچھ لوگ صبح ثقیل ناشتے کے عادی ہوتے ہیں اور پھر دوپہر اور شام میں بھی مرغن کھانے کھاتے ہیں-  کچھ لوگ ہلکے ناشتے کے عادی ہوتے ہیں اور انھیں وقفے وقفے سے بھوک لگتی رہتی ہے-  کچھ لوگ ہمیشہ من پسند کھانے کھانا چاہتے ہیں، بہت سوں کو چٹ پٹے کھانوں کی اور بہت سوں کو صرف گوشت کھانے کی عادت ہوتی ہے-  غرض کہ ہر شخص اگر ان تحقیقات پر عمل کرے تو پاگل ہوجاۓ کہ شاید وہ صحیح متوازن غذا نہیں کھا رہا لہٰذا بیمار ہے-  

لیکن رسول الله نے ایک قابل عمل اصول بتا دیا کہ کھانے کا اصل وقت وہ  ہے جب انسان کو بھوک لگی ہو-  اور ایک کہاوت کے مطابق "مزہ کھانے میں نہیں بھوک میں ہوتا ہے"-  بھوکے کو چٹنی بھی قورمہ بریانی لگتی ہے-  اور جنکے پیٹ بھرے ہیں انکو ہر کھانے میں نقص نظر آتا ہے-   بچوں اور بڑوں کی بھوک کے اوقات اور تقاضے فرق ہوتے ہیں-  بچوں کو کھیل کود اور بے انتہا اور بلاوجہ کی تعلیم کی وجہ سے بھوک زیادہ لگتی ہے اور انھیں بھوک کے وقت کھانا نہ ملے تو انکی بھوک مرجاتی ہے اور وہ چڑچڑے ہوجاتے ہیں-  بڑوں کی بھوک انکی محنت اور مشاغل کے حساب سے ہوتی ہے-  لوگ سائنسی تحقیقات اور ڈاکٹرز کے مشورے پر ادھر سے ادھر بھاگ رہے ہوتے ہیں اور کبھی کچھ کھانا شروع کردیتے کبھی کچھ-  کھاتے بھی ہیں تو یہ سوچ کر کہ  پتہ نہیں کیا اثر کرے گا-   لہٰذا رسول الله کی بات زیادہ قابل عمل نظر آتی ہے-  

اکثر صحت و تندرستی اور ایک چمکدار شخصیت کے لئے مختلف غذائیں تجویز کی جاتی ہیں-  مختلف طریقے بتاۓ جاتے ہیں- حالانکہ اسکے لئے صرف اوپر والی احادیث کے مطابق عمل کرنا اور خوش اور شکر گذار رہنا شرط ہے-  ڈاکٹرز کے مطابق متوازن غذا میں روزانہ سبزیاں، پھل، گوشت، چکنائی، دودھ وغیرہ ہونا چاہیے-  جو کہ آج کل کے دور میں ایک مشکل کام ہے-  عام لوگوں کی تنخواہ دس، پندرہ بیس سے پچیس ہزار تک یا پھر تیس چالیس ہزار تک  ہوتی ہے-  لوگوں کے بجٹ میں زیادہ حصّہ بچوں کے اسکولوں کالجوں کے خرچے کا ہوتا ہے-  اسکے بعد اگر وہ کراۓ کے گھر میں رہتے ہیں تو کرایہ آجکل پندرہ ہزار سے کم تو کہیں نہیں ہے وہ بھی گندے اورعجیب قسم کے علاقوں میں-  ورنہ تو اس سے زیادہ ہی ہوتا ہے-  پھر آۓ دن لوگوں کے شادی بیاہ، سالگرہ، روزہ کشائی، سوئم، چہلم، برسی، میلاد، مجلسوں وغیرہ کے خرچے-  مجھے لگتا ہے لوگ اپنے گھر کے بجاۓ دوسروں کے گھر زیادہ کھا رہے ہوتے ہیں-  اور وہ بھی ایک ہی طرح کے کھانے یعنی بریانی، چکن تکّہ یا روسٹ، قورمہ، نان، شرمال، حلیم، وغیرہ-  اور پھر آلودگی اور گندگی کی وجہ سے جو بیماریاں ہوتی ہیں ان کے علاج پر خرچہ- 

اچھی صحت کے لئے نیند اور پرسکون ماحول بھی بہت ضروری ہے  اور وہ کس کو نصیب ہے-  دس سال تک کے بچوں کے لئے نو گھنٹے اور پچاس سال سے اوپر حضرات کے لئے کم از کم سات  آٹھ گھنٹے کی نیند ضروری ہے-  اسکے ساتھہ ایک ماحول جس میں صفائی ستھرائی ہو-  چیخ و پکار نہ ہو-  شور شرابا نہ ہو-  کیا ہمارے گھروں میں ایسا ماحول ہوتا ہے-  ملازمت کے دوران جتنا شدید ذہنی دباؤ کا ماحول ہوتا ہے کہ نہ پانی، نہ صفائی، نہ کھانے کی جگہ, نہ بیٹھنے کی جگہ، زیادہ سے زیادہ کام کا بوجھ-  پھر مستقبل کی فکر، حالات کا خوف-  صحت اچھی ہو تو کیسے-  

پرسکون زندگی کے اصول یہ ہیں- 


١) بھوک لگے تب کھائیں- 

٢) کھانا حلال ہو تاکہ دل مطمئن رہے کہ الله کی نافرمانی نہیں ہو رہی-  کیونکہ دل کو سب سے زیادہ اطمینان اسی بات سے پہنچتا ہے کہ الله کی نافرمانی نہیں ہو رہی-  اور غلطی سے حرام کھالیں تو الله سے براہ راست معافی مانگ لیں-  ادھر ادھر فتوے تلاش کر کے علماء کو آزمائش میں ڈالنے کی ضرورت نہیں-

٣) کھانے میں شک ہو کہ آیا یہ حرام ہے یا گندگی سے پکا ہے تو پھر چھوڑدیں-  کیونکہ رسول الله صلی علیہ وسلّم کی حدیث کا مفہوم ہے کہ 
"جو چیز تمہیں شک میں ڈالے اسے چھوڑ دو"-  کیونکہ اسلام کا مقصد ہی دل کو اطمینان بخشنا ہے-  اور دوسری بات یہ کہ جب سب لوگ مشکوک چیزیں چھوڑ دیں گے تو مشکوک چیزوں کا کاروبار خود بخود ٹھپ ہو جاۓ گا-  اور اسکے لئے کسی حکومت اور قانون کو گالیاں دینے کی ضرورت  بھی نہیں پڑے گی-  خود بخود اصلاح کا راستہ کھولتی ہے یہ حدیث- 

٤) کھانے پینے میں جس حد تک ممکن ہو سنّت کے طریقے اپنائیں-  اور اس کے لئے معلومات ہر جگہ سے مل سکتی ہیں اور ان پر کسی فرقے میں اختلاف نہیں ہے- 

٥) متوازن غذا کے ساتھہ ساتھ ذہنی اور جسمانی آرام بھی ضروری ہے-  لہٰذا نیند کا خیال رکھیں اور ساتھ ہی اپنے کام سے کام-  دوسروں کی زندگی میں غیر ضروری مداخلت یا غلط طریقے سے کی گئی مداخلت بھی ذہنی پریشانی کا سبب بنتی ہے-  کیونکہ انسانی لاشعوری طور پر بے چین ہو جاتا ہے-  سورہ مزمّل کی آخری آیات پڑھیں تو اس میں یہی ذکر ہے کہ اتنا قرآن پڑھو جتنا آسانی سے پڑھا جاسکے-  کیونکہ بیزاری سے عبادت کروانا اسلام کا مقصود نہیں-  اسی طرح ایک حدیث کے مطابق، اگر بھوک لگی ہو تو پہلے کھانا کھا لو اور پھر آرام سے نماز پڑھو-  مقصد وہی، کہ عبادت کے ذریعے سکون حاصل ہو نہ کہ بوجھ لگے- اور اس طریقے پر دل کو مطمئن کرلیں کہ یہ الله اور اسکے رسول کی تجاویز ہیں-  


"تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے کہ تم اور تمہارے ساتھ کے لوگ (کبھی) دو تہائی رات کے قریب اور (کبھی) آدھی رات اور (کبھی) تہائی رات قیام کیا کرتے ہو۔ اور الله تو رات اور دن کا اندازہ رکھتا ہے۔ اس نے معلوم کیا کہ تم اس کو نباہ نہ سکو گے تو اس نے تم پر مہربانی کی۔ پس جتنا آسانی سے ہوسکے (اتنا) قرآن پڑھ لیا کرو۔ اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں اور بعض  الله کے فضل (یعنی معاش) کی تلاش میں ملک میں سفر کرتے ہیں اور بعض  الله کی راہ میں لڑتے ہیں۔ تو جتنا آسانی سے ہوسکے اتنا پڑھ لیا کرو۔ اور نماز پڑھتے رہو اور زکوٰة ادا کرتے رہو اور  الله  کو نیک (اور خلوص نیت سے) قرض دیتے رہو۔ اور جو عمل نیک تم اپنے لئے آگے بھیجو گے اس کو الله  کے ہاں بہتر اور صلے میں بزرگ تر پاؤ گے۔
 اور الله سے بخشش مانگتے رہو۔ بےشک الله بخشنے والا مہربان ہے"- 

 سورہ مزمّل 

٦) ایک ہفتے میں انسان کم از کم اکّیس میلز کھاتا ہے-  یعنی سات دن تک صبح کا ناشتہ، دوپہر کا کھانا اور رات کا کھانا-  کچھ دن میں پانچ وقت کھاتے ہیں، کچھ چار وقت اور کچھ صرف دو وقت-  بابا کی طرح-  جو صبح کے ناشتے کے بعد مغرب کے وقت کھانا کھاتے ہیں-  

خیر ان اکیس کھانوں کو متوازن غذا کے لحاظ سے ترتیب دینا اتنا مشکل نہیں-  بس یہ ضرور یاد رکھیں کہ کھانے میں طاقت اور غذائیت الله کے حکم سے آتی ہے-  ایک کھانا کسی کو صحت دیتا اور دوسرے کے پیٹ میں درد کر سکتا ہے-  اور ہر چیز روزانہ کھانا بھی لازمی نہیں- ہمارے رسول، اہل بیت اور صحابہ کرام صرف کجھوروں پر بھی گزارا کر لیتے تھے-  

اکثر لوگ بہت کچھ کھا رہے ہوتے ہیں لیکن صحت بخشنے والی چیزوں کو کہ دیتے ہیں کہ یہ مہنگی ہیں-  زیتون کا تیل olive oil چار سو پانچ سو کا آتا ہے اور ہفتے میں ایک یا دو مرتبہ کسی سلاد پر ڈال کر کھائیں تو تین چار مہینے چل جاتا ہے-  اسی طرح جو بھی ڈریسنگ dressings اور ساسز sauces لیں وہ تین چار سو سے زیادہ کی نہیں ہوتی- پھل روزانہ کھانے ضروری نہیں-  ہفتے میں ایک یا دو دن موسمی پھل کھا لیں کافی ہیں-  البتّہ ایک حدیث کے مطابق پھلوں کے چھلکے دروازے کے باہر نہ ڈالیں کہ آپکے پڑوسی کے بچے حسرت کریں کہ انکو کیوں یہ پھل میسّر نہیں-  ہوسکے تو انکو احسان کے طور پر نہیں بلکہ تحفے کے طور پر تھوڑا حصّہ بھیج دیں-  رسول الله کی باتیں لوگوں کو اذیّت سے بچانے  اور امن قائم کرنے کے لئے ہیں- 

اگر پیسے بھارتی فلموں کے بجاۓ متوازن غذا پر خرچ کریں تو دل کو سکون بھی ملے گا اور جسم کو صحت-  

کھانے کی فہرست ان کو دیکھ کر ترتیب نہ دیں جو ایک وقت میں پانچ پانچ ہزار کا کھانا کھا کر سمجھتے ہیں کہ وہ ماڈرن ہو گۓ ہیں یا انکی عزت بڑھ گئی ہیں معاشرے میں-  اپنی زندگی کی نعمتوں کا خود لطف اٹھائیں-  اگر غیر ضروری اخراجات کم کر لیں اور لوگوں کی پسند نا پسند کے مطابق زندگی گزارنا چھوڑ دیں تو زندگی بہت آسان، خوشگوار اور مزیدار ہو سکتی ہے-  

٧) متوازن غذا افورڈ کرنے کے لئے اپنےغیر ضروری خرچے کم کریں-  بچوں کو سرکاری اسکولوں میں ڈالیں اور حکومت پرزور ڈالیں کہ انکی حالت ٹھیک کرے-  اسطرح فیس اور ٹیوشن کا پیسہ بچے گا-  صرف ضروری تقریبات میں جائیں-  ہر تقریب میں نۓ کپڑے جوتے ضروری نہیں-  

٨)  جو کچھ بھی کھائیں اسکے بعد الله کا شکر ضرور ادا کریں کیونکہ الله نے فرمایا ہے کہ 

"اگر تم شکر کرو گے تو میں تم کو اور زیادہ دوں گا" 


 ٩) ممکن ہو تو اپنے کھانے میں دوسرے کو شریک کر لیں یا اس کے لئے کوئی ایسا طریقہ اپنائیں کہ دوسرے کو مفت خوری کی عادت بھی نہ پڑے اور اسکی عزت بھی رہ جاۓ اور طلب بھی پوری ہوجاۓ-  اور اسکو یہ احساس دلا دیں کہ یہ اسکے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے لئے مدد کی جارہی ہے لہٰذا وہ اس پر تکیہ کر کے نہ بیٹھ جاۓ- 

١٠) سونے سے پہلے اپنے گناہوں اور دوسروں کے لئے بھی معافی اور رحمت کی دعا کریں الله سے-  اس سے بھی دل اطمینان پاتا ہے-  ١٩٩٩ میں چھوٹے ماما نے ایک خط لکھا تھا مجھے، حسب عادت مختصر ترین-  اس میں سلام، دعا اور خیریت کے بعد ایک واقعہ لکھا تھا جو آج تک مجھے یاد ہے اور الله اسکی جزا ماما کو اربوں کے حساب سے ملے-  واقعہ یہ ہے- 


ایک صحابی تھے جنھیں دیکھ کر رسول الله اپنے ساتھ بیٹھے صحابیوں سے فرماتے کہ وہ دیکھو جنّتی جارہا ہے-  ایک صحابی کو کچھ تجسس ہوا کہ دیکھیں آخر معاملہ کیاہے-  وہ صحابی ان دوسرے صحابی کے  پاس جاتے ہیں اور کسی عذر کی وجہ سے انکے گھر دو تین دن ٹھہرنے کی اجازت لیتے ہیں-  تین دن کے بعد وہ اپنے میزبان سے کہتے ہیں کہ میں نے ایک عذر کو بہانہ بنایا تھا آپکے ساتھہ رہنے کے لئے-  اور اسکی وجہ یہ تھی کہ رسول الله آپ کو دیکھ کر فرماتے تھے کہ وہ دیکھو جنّتی جارہا ہے-  میں جاننا چاہتا تھا کہ وہ کون سے اعمال ہیں جن کی وجہ سے آپ کو یہ مقام ملا- لیکن میں نے آپکو ایسا کوئی خاص عمل کرتے ہوۓ نہیں دیکھا جو ہم سب نہ کرتے ہوں-  ان میزبان صحابی نے فرمایا کہ بے شک آپ نے ٹھیک کہا-  میں ایک کام اور کرتا ہوں کہ سونے سے پہلے الله سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لیتا ہوں اور اس بات کی بھی کہ اگر میں نے کسی کے ساتھ برائی کی ہے-  پھر ہر اس شخص کے لئے معافی طلب کرتا ہوں جس نے میرے ساتھ کوئی برائی کی ہے-  اور انکو معاف کر کے سو جاتا ہوں-  

بے شک معافی مانگنا اور معاف کردینا دل کو اطمینان دیتا ہے اور دل کا اطمینان صحت بخشتا ہے- 

پرانے زمانے میں کھانوں کے طریقے  اور اندگی کے اصول آج جیسے نہیں تھے- آج کی طرح ہر وقت چکن، بریانی، میکرونی اور برگر نہیں کھاۓ جاتے تھے-  ہمارے گھر میں کھانے کا اصول تھا-  امی دوپہر کے وقت چاول بناتی تھیں-  کچھڑی، تہاری، مٹر چاول، دال چاول، وغیرہ-  اور شام کو روٹی ہوتی-  دوپہر کا کھانا ہم ایک بجے تک کھا لیتے تھے اور شام کا کھانا مغرب کے وقت-  سواۓ اس کے گھر میں کوئی مہمان آیا ہو-  ان طریقوں میں فرق نہیں آتا تھا-  میرا نہیں خیال کہ ہمارے گھر میں کبھی کھانا ضائع ہوا ہوگا-  دیر تک امی نے کبھی نہیں سونے دیا-  چھٹی کے دن بھی صبح آٹھ جاتے-  فورا ناشتہ کرتے-  ہم سب سویرے کے اٹھے ہوتے تھے اس لئے دوپہر میں امی سب کو سلاتی تھیں-  میرے اور میرے چھوٹے بھائی کے علاوہ سب دوپہر میں سو جاتے تھے-  وہ چپ چاپ کھیلتا اور میں کہانیوں کی کتابیں پڑھتی-  سہہ پہر میں سب آٹھ کر چاۓ کے ساتھ کچھ نہ کچھ کھاتے-  کبھی پاپڑ تلتے، کبھی بسکٹ، کبھی کچھ اور-  رات کو عموما جلدی سو جاتے-  بقول امی کے، ہم پانچوں بہت اچھے بچے تھے کہ انکے اصولوں کے ساتھہ چلتے- 

بڑے ہونے کے بعد اور جابز کرنے کے دوران ہم ضرور بے ترتیب ہوگۓ تھے-  

پھر ہماری اولادوں نے ہمیں واپس امی کے طریقے کی اہمیت سکھائی-  پچھلے بارہ تیرہ سال میں شاید ہی ایک یا دو شادیاں اٹینڈ کی ہوں گی-  ایک میں تو لان کا ہی سوٹ پہن لیا تھا-  بیٹی کو زیادہ گھر پر ہی پڑھایا لہٰذا میں اور وہ، دونوں بلاوجہ کی پریشانیوں سے بچے رہے اور وہی پیسہ ہم نے اپنی دوسری خواہشوں پر خرچ کیا-  بیٹی کو شادی میں جہیز کے نام پر کچھ بھی نہیں دیا، بیڈ روم سیٹ بھی نہیں، اور نہ ہی اسکا مطالبہ ہوا-جو ایک بہت بڑی نیکی ہے-  جو کچھ خرچ ہوا بس اسکی پسند سے اسکی شادی کے طریقوں پر ہوا- 

مطلب یہ کہ انسان کو خوشیاں اور سکون زمانے کے پیچھے چلنے سے نہیں بلکہ اپنے حالات کے مطابق اپنے طریقے پر چلنے سے ملتی ہیں-    







Friday 16 May 2014

My Job Interview ملازمت کے لئے انٹرویو

ملازمت کے لئے انٹرویو بھی ایلیمنٹری اسکول کے امتحان کی طرح خطرناک اور بلاوجہ ہوتا ہے-  اسی لئے میری زیادہ تر جابس بغیر یا بہت ہی معمولی انٹرویو سے ممکن ہوئیں-  یہ بھی الله کا خاص کرم تھا مجھ پر-  کیونکہ جہاں صحیح والا انٹرویو لیتے ہیں وہاں مجھے جاب نہیں ملتی-  چہرہ دیکھ کے سمجھ جاتی ہوں کہ یہ مجھے نہیں رکھیں گے-  

پاکستان میں ملازمت کے معیار پر پورا اترنے کے لئے جن خصوصیات کی ضرورت ہوتی ہے وہ تو مجھ میں ہیں نہیں- 

بلاوجہ یس سر، یس میم، میں کر نہیں سکتی-   

بلاوجہ ایک تنخواہ پر چار پانچ لوگوں کے کام کرنا مجھے اچھا نہیں لگتا-  میں اپنی مرضی سے کرتی ہوں وہ اور بات ہے-  لیکن اسے ملازمت کی شرط سمجھا جاۓ یہ مجھے گوارا نہیں- 

بلاوجہ ملازمت کے دوران دوستی، محبّت اور نیکی کے نام پر تعلقات بڑھانا میری عادت نہیں- ویسے بھی پاکستان میں یہ خصوصیات نہیں مچھلی پکڑنے کے کانٹے ہیں جن کے شر سے بچنے کے لئے تربیت لینا ضروری ہے-  

اور یہ تینوں چیزیں اس معاشرے میں ملازمت کے لئے ضروری ہیں-  کوئی اصول، کوئی قاعدہ، کوئی قانون، کوئی اخلاقی جواز نہیں-  آپ مجبور ہیں تو ان شرائط پر پورا اتریں ورنہ کسی کافر ملک میں جائیں یا پھر بھیک کے لئے ایدھی یا سیلانی-  یا پھر بھوکے مریں-  

اور مجھے سمجھ نہیں آتا کہ اگر میں یہاں ملازمتوں کی کم از کم ترجیح پوری کر بھی لیتی یعنی ماسٹرز کر بھی لیتی تو اس سے کیا ہوتا- پاکستان میں ملازمتوں اور تعلیم کا تعلق ہے کیا؟  یہاں کون سا بی اے، ایم اے میں ملازمتوں سے  متعلق چیزیں سکھائی جاتی ہیں-  بچپن سے صرف تعریفیں رٹوائی جاتی ہیں اور اسی کے عادی ہوتے ہیں-  ملازمت دینے والے بھی تعریف ہی چاہتے ہیں-  تعلیم کے شعبہ میں ایم اے سے زیادہ تو یہ چالاکی کام آتی ہے کہ کس طرح کم سے کم تنخواہ پر بچے بھرے جا سکتے ہیں-  پڑھانا تو ٹیوشن کا کام ہوتا ہے-  مالکان اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق اپنے کاروبار چلاتے ہیں- 

خیر یہ تو یہاں کی وہ بے کار باتیں ہیں جس پر کوئی بھی آواز اور قلم نہیں اٹھاۓ گا-  کیونکہ ان مسائل پر آواز اٹھانے کے لئے پیسہ نہیں ملتا-  کاش میرے پاس اربوں ڈالرز ہوتے تو میں بھی کروڑوں روپے دے کر ایک دو لکھاریوں کے قلم خرید لیتی-  لیکن کوئی بات نہیں-  الله امی اور بابا پر اربوں رحمتیں اور برکتیں نازل کرے کہ انہوں نے مجھے لکھنا پڑھنا سکھادیا-  میں خود بکے بغیر جو دل چاہے لکھ سکتی ہوں-  

واپس آتی ہوں ملازمت کے لئے خصوصیات کی طرف- 

یاداشت Memory
یاداشت میری بہت کمزور ہے-  گھر والے مجھ سے بہت تنگ تھے-  باجی کہتی تھیں آکر چاۓ پی لو اور میں "ابھی آئی" کہہ کر فون رکھ دیتی-  راستے میں امی کے گھر کی طرف مڑ جاتی اور وہاں چاۓ پی رہی ہوتی-  باجی انتظار کر کر کے امی کے ہاں فون کرتیں تو خیال آتا کہ ارے مجھے تو وہاں جانا تھا-  اپنی بیٹی کو بھی اکثر کہ دیتی کہ میں کچن میں یا دوسرے کمرے میں جارہی ہوں اس کام سے، اگر وہاں جا کر بھول جاؤں تو مجھے یاد دلادینا کہ کس کام سے ادھر آئی تھی-  اپنی یاداشت تیز کرنے کے سارے طریقے اپنا کر دیکھ لئے، دعائیں کرلیں، سبزیاں کھائیں، پھل کھاۓ، اومیگا تھری کھائی، کوئی فرق نہیں پڑا- جی جی جی ، اب کسی اطراف سے یہ سننے کو ملیں گی کہ "گناہ کی زیادتی یاداشت کو کمزور بناتی ہے"-  اور بقول باجی کے "زیادہ کھانا یاداشت کو کمزور کرتا ہے"-  بھئی اب انسان کے پاس کچھ کرنے کو نہیں ہے تو کیا کھانا بھی نہ کھاۓ- 

خیر میں نے صبر کرلیا ہے کہ جس طرح الله نے بابا کی یاداشت اس عمر میں بہتر کردی ایک دن میری یاداشت بھی بہتر ہو جاۓ گی-  امتحانات بڑی مشکل سے دیے تھے-  ہر سال پاس ہوجاتی تھی الله کا شکر ہے یہ بھی-  جس قسم کے اساتذہ آج ہیں ایسے ہی یا اس سے کچھ کم اس وقت بھی تھے-  لہٰذا اسلامی تعلیمات کا اور امی کی تربیت کا لحاظ کرتے ہوۓ کہہ دیتی ہوں کہ استاد بہت محترم ہوتا ہے ہمیشہ انکی عزت کریں-  اور ان کا احسان مانیں-  

ذہانت Intellectual Capabilities
 ذہین میں کبھی بھی نہیں رہی-  یہ بھی الله کا شکر ہے-  کیونکہ ذہین لوگوں سے بہت سے توقعات وابستہ ہو جاتی ہیں-  اور وہ ان توقعات کے دباؤ تلے دبے رہتے ہیں-  بے چارے-   ایک مرتبہ اشتیاق احمد کی ناول کا خاص نمبر پڑھا تو اسکے آخر میں سوال تھا کہ منصف کی پسند کا جملہ اس میں سے ڈھونڈ کا نکالیں-  میں ستّر مرتبہ بھی ناول پڑھتی تو نہیں نکال سکتی تھی-  لہٰذا میں نے باجی سے کہا کہ آپ یہ ناول پڑھیں کام میں کر لوں گی-  انہوں نے ایک دفعہ پڑھا اور وہ جملہ بتادیا-  میں نے وہ بھیج دیا مصنف کو اور زندگی میں پہلی مرتبہ میرا نام جیتنے والوں میں آگیا اور رقم جیتنے والوں میں تقسیم ہوگئی-  جملہ تھا "مشرک پار لگ بھی کس طرح سکتے ہیں"-  سن ٢٠٠٣ میں گھر بیٹھے بیٹھے آخری تین سپارے خود ہی حفظ کر لئے تھے-  اب ان میں سے اکثر سورتیں بھول گئی ہیں-  سورہ یٰسین بھی کتنی دفعہ یاد کی ہے پھر بھول جاتی ہوں-  جی ہاں جی ہاں، مجھے پتہ ہے قرآن کو بھول جانے والا قیامت کے دن اندھا اٹھایا جاۓ گا-  تو میں کوئی جان بوجھ کر بھولتی ہوں-  اور اگر میں نے اس بات کی ٹینشن لے لی تو جو  تھوڑی سورتیں یاد رہ گئی ہیں وہ بھی بھول جائیں گئی-  لیکن مجھے  ایمان مجمل اور مفصّل یاد ہیں-  اور صرف ایمان مفصّل سنانے پر تو مجھے ایک جاب بھی مل گئی تھی-  باہر- یہاں نہیں-  
  
ویسے بھی مجھے کبھی جینیس genius یعنی ذہین بننے کا شوق نہیں رہا-  ایک دو مرتبہ کوشش کی لیکن ایسی فیل ہوئی کہ مفعول ہو گئی مطلب ہےکہ معقول ہوگئی- ہماری ایک ٹیچر تھیں فزکس کی، مس سارا، انہوں نے ایک دفعہ کہا تھا کہ "انسان کو اسکی ذہانت دھوکہ دے سکتی ہے محنت نہیں"-  لہٰذا تب سے میں نے ذہانت کے بجاۓ محنت پر توجہ دینا شروع دی-  اتنی توجہ دی کہ محنت بھی پریشان ہوگئی اور اس نے مجھے بدلے میں مجھے تھکانا شروع کردیا-  

بہرحال ناموافق حالات کا سامنا کرتے کرتے بڑی ہو ہی گئی-  لیکن مسلہ ہوتا ہے ملازمت کے لئے انٹرویو یا گفت و شنید کے وقت-  اب اس وقت  اتنے کم وقت میں اتنی جلدی برین پراسیسنگ کیسے ہو سکتی ہے کہ میرے جیسا کوئی فٹافٹ اتنی ساری معلومات میں سے کوئی ایک نکتہ تلاش کر گے فورا جواب دے دے- مجھے تو نہ کل کی بات یاد نہیں رہتی ہے نہ پرسوں کی اور نہ اس سے پہلے کی-  بار بار تو چیزیں پڑھتی اور یاد کرتی رہتی ہوں-  اب الله کی مرضی-  نہ ہو نہ سہی-  رزق تو الله کے ہاتھ میں ہے-  آج تک تو بھوکا نہیں رکھا سواۓ میری اپنی ڈائٹنگ پروگرام کے- وہ بھی کبھی کبھی-  

اور ویسے بھی ہمارے ملک میں انٹرویو دینا-  ایسے ایسے سوال کرتے ہیں کہ بندہ پہلے ہی سوچ لے کہ میں دنیا کا ناکارہ ترین انسان ہوں اور ان کا احسان ہوگا جو مجھے ملازمت دے دی- اسی لئے بہت کم ملازمت پر رہی-  کیونکہ کام کا تقاضہ کچھ اور ہوتا ہے اور ملازمت دینے والوں کا کچھ اور-  

 مشاہدہ Observation
مشاہدہ میرا دس فیصد سے بھی کم ہے-  جو دو آنکھیں ہیں اس سے صرف سامنے کی چیزیں نظر آتیں ہیں-  پیچھے کیا ہو رہا ہے اس سے میرا تعلق نہیں-  باقی الله خود بچا لیتا ہے-  یہ میں نے کیسے حساب لگایا-  اگر میرے سامنے سو لوگ کھڑے ہوں اور پانچ منٹ بعد مجھ سے انکے بارے میں پوچھیں تو میں شاید دو تین کے بارے میں ہی یہ کہہ سکوں کہ انہوں نے کپڑے پہن رکھے تھے، کس رنگ اور ڈیزائن کے یہ نہیں پتہ-  شاید کسی کی مونچھیں بھی ہوں اور کسی نے جوڑا بنایا ہوا تھا بالوں کا-  میری بیٹی کو پتہ ہے اس لئے وہ کچھ پوچھتی بھی ہے تو کہہ دیتی ہے کہ "لیکن آپ کو کیا یاد ہوگا، آپ نے کون سی توجہ دی ہوگی"-  اور صحیح بھی ہے-  حدیث میں آتا ہے کہ "اسلام کا حسن یہ ہے کہ لا یعنی باتوں کو ترک کردو"- 

ایک دفعہ بنک کی ملازمت کے لئے پیڈ ٹریننگ paid training لے رہی تھی دو ہفتوں کی-  تو ایک دن انہوں نے ایک پرچہ دیا اس پر بنک روبرز robbers کی تصویریں تھیں اور دس سیکنڈ بعد وہ واپس لے لیا-  اور سوال پوچھے-  اب میں دس سیکنڈ میں تصویریں ہی دیکھ سکی جو کسی لڑکی کی تھیں-  تصویروں کے نیچے لکھا نام پڑھنے کا وقت ہی نہیں ملا کہ معلوم ہوتا کہ وہ ایک آدمی تھا کسی عورت کے روپ میں-  تو یہ تو حال ہے میرے مشاہدے اور ذہانت کا-  لیکن انہوں نے جاب سے نہیں نکالا-  خوش قسمتی سے مجھے جس کی جگہ رکھا تھا اس نے ایک ہفتہ چھٹی بڑھوالی تھی-  تو میں سارا دن کرسی پر گھوم گھوم کر گزارتی اور دن میں دو مرتبہ کھانا پینا کرتی-  کوئی پاکستانی ہوتا تو مجھے کسی اور جگہ لگا کر خون پسینہ ایک کردیتا-   

تعلیم Education
جس قسم کا ایم اے کر کے یہاں سے لوگ نکلتے ہیں اور انھیں پندرہ سے پچاس ہزار تک کی نوکریاں فٹ سے مل جاتی ہیں، اس سے تو بہت اچھی ہے-   
انٹرمیڈیٹ، سی گریڈ-  پاکستان میں سی گریڈ لے لیا بڑی بات ہے-  جیومیٹری مجھے سمجھ نہیں آتی تھی-  الله جانے کب اور کیا پڑھا کر جاتی تھیں-  ٹرگنومیٹری کی ٹیچر ہمیشہ پریگننٹ ہوتیں تھیں لہٰذا چھٹیاں بہت کرتی تھیں-  مجھے تو انکی شکل بھی یاد نہیں صرف یہ یاد ہے چشمہ پہنتی تھیں-  فزکس اور کیمسٹری کے تجربات کر تو لیتی تھی پر یہ آج تک معلوم نہ ہو سکا کہ انکا مقصد تھا کیا-  اور یاد کرتی رہتی ہوں کہ وہ کب میری زندگی میں کام آۓ-  ہنہ، بلاوجہ وقت اور پیسہ ضائع ہوا امی بابا کا-  کوئی ایک ریاضی یا سائنس کا فارمولا یاد نہیں-  بس جو ٹیوشنز پڑھا پڑھا کر سیکھا وہ کچھ کچھ آتا ہے کہ پتہ نہیں وہ بھی بھول گئی ہوں- 

پچھلے سال ایم سی آئی سے مونٹیسوری سرٹیفکیٹ کیا-  کروانے والوں نے جھوٹ بولا کہ اسکے بعد آپکی تنخواہ زیادہ ہو جاۓ گی-  اتنا مہنگا کورس اور پھر محنت، میری ہڈیاں پسلیاں ٹوٹ گئیں اور پھر ساتھ میں جاب-  ٹیچر ظالم پاکستانی تھیں لہٰذا انھیں ہر چیز غلط لگتی تھی- خود اپنی تعریفیں کرتی رہتی تھیں-  اس میں بھی ٤٨ فیصد نمبر آۓ- 

ویسے عجیب بات ہے-  پاکستانی سسٹم سے پڑھو تو ناکامی اور ذلّت ملتی ہے اور وقت اور پیسہ بھی برباد ہوتے ہیں-  باہر کے سسٹم سے پڑھو تو کچھ فائدہ ہوتا ہے - وہ بھی باہر-  
پی ایم سی سے مونٹیسوری ڈپلومہ کیا-  بارہ مہینے کا کورس چار ماہ میں- کیونکہ باہر کے طریقے سے کیا اس لئے -  پریزنٹیشن میں ٦٥ فیصد، تحریری امتحان میں ٧٤ فیصد، پورٹ فولیو میں ١٠٠ فیصد اور اسائنمنٹ میں ٩٢ فیصد نمبر آۓ-  بس فائنل کا رزلٹ آنا باقی ہے-  
نیویارک سے اکیوپیشنل اسٹڈیز Occupational Studies میں اسوسی ایٹ Associate کیا تو چار بار ڈینز لسٹ Dean's List میں اور ایک مرتبہ پرذیڈنٹ لسٹ President List میں نام آیا-  

جی جی جی جی، مجھے پتہ ہے اب یہ سننے کو ملے گا کہ ایسا ہی ہے تو باہر جائیں-  یہاں کیوں ہیں-  مطلب کہ خبردار اگر ہماری کیچڑ کو کچھ کہا تو-  ہم تو اسی کیچڑ میں رہیں گے آپ کو کیچڑ پسند نہیں تو بھاگیں کہیں اور-  

 کام کا تجربہ 
باہر جس جگہ کام کیا آج تک لوگ یاد کرتے ہیں اور دعائیں دیتے ہیں-  
یہاں جس جگہ کام کیا (ابھی تک دو جگہ)-  خود کو ملامت کرتی ہوں کہ کیوں کیا-  یہاں محنت کر کے کیا ملا-  انکو مجھ سے سستے کام کرنے والے مل گۓ-  ہڈیاں پسلیاں میری ایک ہوئیں-  میرے گھر والے بھی مجھ سے یہی سوال کرتے ہیں جسکا جواب میرے پاس نہیں-  

میں کسی کنوئیں کا مینڈک نہیں کہ بس جی یہی آتا ہے اور کچھ نہیں کر سکتی-  ہر حلال کام کر سکتی ہوں-  اور پچھلی جگہ تو میں نے ماسی کے لئے بھی اپلائی کیا تو انہوں نے انٹرویو کے لئے بلایا- ماسی کے لئے"اوور کوا لیفائیڈ over qualified " قرار دے دیا- اور باقی پوزیشنز کے لئے نان سوٹیبل  non-suitable.   ہاں ہاں، سنجیدگی سے-  کیونکہ میرے حساب سے بارہ یا پندرہ ہزار ماسی کی تنخواہ ہونی چاہیے-  جتنا کام ان سے لیا جاتا ہے اور ساتھ میں باتیں بھی سنائی جاتی ہیں-  ٹیچر کی تنخواہ بیس ہزار سے شروع ہونی چاہیے-  اگر اسے تجربہ نہ ہو-  ورنہ پچیس تیس ہزار سے کم پر کسی ٹیچر کو ہاں نہیں کرنی چاہیے- 

ایویں سکلز  Extra Skills 
١٩٨٥ میں اپنے باس سے کیلکیو لیٹر کو بغیر دیکھے استعمال کرنا سیکھا تھا-  ایسے کھٹا کھٹ انگلیاں چلتی تھیں میری سب دیکھتے رہ جاتے-  یہ لمبی لمبی کیلکیو لیشنز منٹ میں کر دیتی تھی-  ٹائپنگ آتی ہے-  پروف ریڈنگ آتی ہے-  ڈرائنگ، پینٹنگ، کلگرفی بچپن سے کرتی آئی ہوں-  جیولری بنانا، میک اپ پیکنگ، سموسہ اور چکن رول تو مجھ سے اچھے کوئی بنا ہی نہیں سکتا-  ملازمت کروں تو پیسہ بھی ملنا چاہیے-  بلاوجہ رضاکارانہ خدمات میں کوئی دلچسپی نہیں-  حالانکہ بہت کی ہیں-  لیکن پاکستان میں کچھ بھی کر کے صرف پچھتایا جا سکتا ہے-  کیونکہ جونہی لوگوں کو آپ کے پاکستان سے محبّت اور کام کرنے کے جذبے کا پتہ چلتا ہے وہ سمجھ جاتے ہیں کہ آپ ہی وہ بے وقوف مچھلی ہیں جس کی انھیں تلاش تھی-  اور ادھر آپ نے چوں کی نہیں اور ادھر انکا چینی کا پانی sugar coating اترنا شروع ہوا نہیں-  اس سے تو بہتر ہے کہ میں اپنی نیند پوری کرلوں-  یا کچھ پڑھ لوں یا گھوم لوں-  

پہلی مئی سے میں بریک پر ہوں-  ایک ایسے ملک میں جہاں ہر کوئی پریشان دکھائی دیتا ہے اور پریشانی میں برگر اور پیزے کھا رہا ہے اور برانڈڈ کپڑے اور جوتے پہن رہا ہے-  میں مستیاں کر رہی ہوں-  کھاتی پیتی ہوں-  جی بھر کے سوتی ہوں-  پڑھتی ہوں-  ملّی نغنے سنتی ہوں- عجیب عجیب کھانے پکے پکاۓ مل جاتے ہیں خوشی اور شکر سے کھاتی ہوں-  جیسے کہ شملہ مرچ اور آلو کا سالن، بند گوبھی اور شملہ مرچ کا سالن، بند گوبھی اور آلو کا سالن، انڈے اور آلو کی بنی ہوئی کوئی چیز،  نہاری کے نام پر مرغی کا قیمہ جیسی کوئی چیز، چکن قورمہ کے نام پر چکن قیمہ جیسا کوئی سالن، وغیرہ وغیرہ-  میں سوچتی تھی کہ دنیا میں صرف میں ہی برا کھانا پکاتی ہوں-  لیکن یہاں تو مجھ سے بھی بڑے بڑے ماہر پڑے ہوۓ ہیں-  








لکھے پڑھے ہوتے اگر

"نٓ۔ قسم ہے قلم کی اور ان کی جو لکھتے ہیں" 
سورہ القلم 

"پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے-
 جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا"
 سورہ العلق 

" (الله) نہایت مہربان- اسی نے قرآن کی تعلیم فرمائی-
اسی نے انسان کو پیدا کیا- اسی نے اس کو بولنا سکھایا"-
 سورہ الرحمان 

گاؤں اور دیہاتوں میں رہنے والے ستّر فیصد کا مسلہ تعلیم نہیں-  کیونکہ انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑ جانا-  انکے جو مسلے ہیں اس سے باقی ٢٩ فیصد کو کوئی سروکار نہیں کیونکہ آخر کو وہ پڑھے لکھے تہذیب یافتہ لوگ ہیں کوئی جاہل نہیں کہ ڈگری حاصل کر کے اور گاؤں دیہاتوں کے مسلے حل کرتے پھریں-  اور دینی لوگوں کا من و سلویٰ تو اوپر سے آتا ہے-  آخر کو الله اور دولتمندوں کے عطیات پر ایمان بھی کوئی چیز ہے کہ ہیں-  

رہ گۓ کچھ لوگ تو ان کی اردو کی ہجے دیکھ دیکھ کر ان کی ذہنی صلاحیتوں اور تعلیم سے لگاؤ کا اندازہ ہو جاتا ہے- 

منع  - منا 
تعویذ - تویز 
معذرت - مازرت 
اذان  - آذان 
مذاق - مزاق 

اسی قسم کے اور بہت سے الفاظ ہیں جو توڑ مڑوڑ کر لکھے جاتے ہیں-  کاش پڑھے لکھوں کے لئے بھی فوج تعلیم بالغاں کا پروگرام شروع کرے-