Friday 3 April 2020

پھول اور خوشبو جیسے لوگ

میری نانی بہت سیدھی سادھی خاتون تھیں-  اپنے زمانے کی ٩٩ فیصد خواتین کی طرح گھر سے تنہا اور بلاوجہ نکلنے کی عادت نہیں تھی انہیں-  حیا اور پاکیزگی کی علمبردار-  نانا کے زندگی میں ایک مرتبہ ڈولی والے نے ایک گلی آگے چھوڑ دیا تو پریشان ہو گئیں کہ یہ کہاں چھوڑ گیا-  اسی لئے کبھی ہمارے ساتھ گھومنے پھرنے نہیں گئیں کہ پتہ نہیں وہاں کون ہوگا-  

ہمّت اتنی تھی کہ نانا کے انتقال کے بعد ساری زندگی انکی محبّت میں گزار دی-  عصر وقت اکثر مناجات پڑھتیں تو نانا سے بھی مناجات کی طرح گفتگو کرتیں- باجی بتاتی ہیں کہ ١٩٧١ کی جنگ میں جب سائرن بجتا تو نانی امّی سارے بچوں کو لے کر بیڈ کے نیچے گھس جاتیں اور سب کو کہتیں کہ کپڑا منہ میں رکھ لو-  دعائیں کرتی رہتیں-  

محبّت اتنی کہ اپنی اولادوں اور پھر انکے بچوں کے لئے بھی پریشان ہو جاتیں-  چوٹ نہ لگ جاۓ-  گر نہ جاۓ- کوئی لے نہ جاۓ-  کھو نہ جاۓ-  سو گیا کہ نہیں-  جاگ گیا کہ نہیں-  کھانا کھا لیا کہ نہیں-  اسکول سے آگیا کہ نہیں-  دیر کیوں ہو گئی-  طبیعت خراب تو نہیں-  دوا کھلادی دی کہ نہیں-  ہزاروں فکروں میں گھری ہوتیں لیکن تمام فکریں دوسروں سے متعلق-  

عزت اتنی تھی کہ انکے صبر، حیا اور سمجھداری کی وجہ سے محلّے والے ادب کر تے تھے-  خود تو محلّے میں جاتی نہیں تھیں-  خواتین ہی آتی تھیں کہ بچے کے سر پر ہاتھ رکھ دیں تو اسے شفاء مل جاۓ گی-  یا گھریلو حالات ٹھیک ہونے کی دعا دے دیں-  وغیرہ وغیرہ-  سوشل نہیں تھیں اور نہ ہی بلاوجہ باتیں کرنے کی عادت-  اس لئے کام کی بات ختم ہوتے ہی محلّے والیوں کو گھر بھیج دیتیں-  خواتین بھروسہ کرکے اپنی امانتیں بھی رکھوا جاتیں-  

نانی امّی کے بچپن کے زمانے کے کھانے بڑے سادے ہوتے تھے-  اس وقت لوگ پراٹھا یا روٹی اچار، مختلف قسم کی چٹنیوں اور آم سے بھی کھا لیا کرتے تھے-  سفید چاول بچ جائیں تو دوسرے وقت اس میں دودھ چینی ڈال کر کھا لیتے-  روٹیاں بچ جاتیں تو انکو دال اور مصالحہ میں ڈال کر گھٹالہ بنا لیا جاتا- سوجی کے حلوے کے ساتھ پوریاں، سویّاں، میٹھا پراٹھا چاۓ کے ساتھ-  سالن پکانا ضروری نہیں سمجھا جاتا تھا-  گوشت میں آلو گوشت ہی مشہور تھا جو کہ شادیوں میں پکتا تھا تندور کی روٹیوں کے ساتھ پیش کیا جاتا تھا-  یا اسکے علاوہ شامی کباب-  اور مہمان اکثر رشتہ دار ہی ہوتے تھے جو چند گھنٹوں کے لئے نہیں آتے تھے بلکہ رکا کرتے تھے ایک دو دن-  تو انکے لئے بھی کوئی تکلّفات نہیں ہوتے تھے-  جو گھر میں روز پکتا تھا وہی مہمان بھی کھاتے-  


اس وقت فقیر لوگ چند محلّوں کا انتخاب کرتے اور یا تو دوپہر ورنہ اکثر مغرب کے وقت سدا لگاتے-  پتہ ہے کیوں؟  کیونکہ پہلے رات کا کھانا مغرب کے وقت تک پکایا اور کھا لیا جاتا تھا-  اور جو بچ جاتا تو وہ مانگنے والوں کو دے دیا جاتا-  کیونکہ فرج تو ہوتے نہیں تھے اس زمانے میں-  

نانی امّی کو اپنے چپل اور اپنا دوپٹہ بہت عزیز تھا کہ کوئی ادھر سے ادھر نہ کردے صفائی میں-  اس لئے ہر وقت دھیان رکھتیں انکا-  بس میں انکو اس معاملے میں بہت تنگ کرتی تھی کہ انکی چپلیں دروازے پر رکھ کر آجاتی تھی اور پھر وہ امّی سے شکایت کرتی تھیں-  اور مجھے ڈانٹ پڑتی تھی- 

نانی امّی کو گھڑی دیکھنی نہیں آتی تھی-  وقت کا اندازہ وہ دھوپ سے لگاتیں-  اگر دھوپ سیڑھیوں تک آگئی تو ایک بجا ہے اور اگر دھوپ دیوار تک آگئی تو تین بجے ہیں-  اسی حساب سے انکو بچوں کے اسکول کالج سے آنے کا پتہ چلتا تھا-  لہٰذا وہ دھوپ کا بہت خیال رکھتیں-  

١٩٨٢ میں شعبان میں جب انکا انتقال ہوا تو ہم بچوں سمیت سب روزانہ قرآن پڑھتے-  اورچالیسویں تک ہم گھروالوں نے ہی چالیس قرآن ختم کر لئے تھے-  

شروع شروع میں تو سخی حسن جاتے تھے انکی قبر پر-  پھر ہم سب اپنی اپنی زندگی میں مگن ہو گۓ-  اور بس شعبان میں ہی نانا، نانی، دادا، دادی کی نیاز دلا دیتے-  کیونکہ نانا کا انتقال بھی شعبان میں ہوا تھا-  بس بڑی خالہ کا ایک نوکر تھا جو مرتے دم تک اس قبر کا دھیان کرتا رہا- پھر اسکے بعد وہیں کے کسی شخص نے خیال رکھنا شروع کردیا جسے پیسے دے دیے جاتے-  

چند سال پہلے میں نے نانی کی قبر کو ڈھونڈنا شروع کیا-  وہ قبرستان اتنا بھر گیا ہے کہ قبر ڈھونڈنا مشکل ہوگیا-  ہر شعبان میں کوشش ہوتی کہ شاید نانی کی قبر مل جاۓ-  ڈھونڈتے ڈھونڈتے مغرب ہو جاتی-  لیکن کامیابی نہیں ہوتی تھی-  اور گلاب کے پھول اورعرق گلاب دوسری قبروں پر ڈال کر واپس آنا پڑتا-

پچھلے سال شعبان میں بھی اس امید کے ساتھ قبرستان گئی-  اور مغرب سے چند منٹ پہلے ناکامی کے ساتھ واپس آرہی تھی تو گیٹ تک چلتے چلتے میں نے دعا کی کہ یا اللہ اس مرتبہ تو دکھا ہی دیں نانی کی قبر-  گیٹ پر پہنچ کر میں نے ایسے ہی پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک گلی نظر آئی-  جی میں آیا کہ اس گلی کو بھی دیکھ ہی لوں-  میں واپس پلٹ کر اس گلی کے کونے تک گئی تو دیکھا وہاں ایک شخص کھڑا تھا-  اس نے اشارے سے پوچھا کس کی قبر تلاش کر رہیں ہیں-  میں نے کہا اپنی نانی کی-  انکا نام محمودہ بیگم ہے-  اس نے کہا انکے شوہر کا نام محمود حسن رضوی ہے-  میں کہا ہاں-  تو اس نے مجھے اشارے سے اپنی والی سائیڈ پر بلایا اور کہا کہ یہ رہی قبر-  وہ قبر ٣٧ سال کے بعد بھی ویسی ہی تھی-  سواۓ اسکے کہ اسکے آس پاس قبریں ہی قبریں تھیں-  اس دن مجھے یقین آیا کہ اگر تڑپ ہو تو دعائیں چند سیکنڈز میں اس طرح قبول ہوتی ہیں-   

اس آدمی نے بتایا کہ اسے پیسے ملتے ہیں ماہانہ اور وہ قبر کا خیال رکھتا ہے-  میں نے اسی سے اور گلاب کے پھول منگواۓ اور قبر کے کنارے بیٹھ کر سورہ الفاتحہ، چند آیات سورہ البقرہ، چاروں قل اور درود شریف پڑھا-  اور واپس جانے کی کی-  اور چلتے چلتے احساس ہوا کہ ایک خوشبو ساتھ ساتھ چل رہی ہے-  میں نے اپنے ہاتھ سونگھے کہ شاید گلاب کے پھولوں یا عرق گلاب کی ہے-  لیکن یہ مخلتف خوشبو تھی-  تیز-  اور وہ قبرستان کے گیٹ تک میرے ساتھ رہی-  اور پھر ساتھ چھوڑ گئی-  

میں نے امّی اور باجی سے اس بات کا ذکر کیا- تو انہوں نے پہلی بات یہی کہی کہ نہایت صابر اور حیا دار تھیں-  

ایسے ہوتے تھے خوشبو اور پھولوں جیسے لوگ-  جن سے رحمتیں گھر میں برستی تھیں-  

لیکن پھر ہم نے ترقی کرنی شروع کردی- 

اور اب پھولوں اور خوشبوؤں جیسے لوگ ڈھونڈے سے نہیں ملتے- 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ میرے ان تمام بزرگوں کو جو انتقال فرما چکے ہیں-  انکی مغفرت فرمائیں اور وہ نور اور خوشبو کے ساتھ قیامت کے دن اٹھاۓ جائیں-  آمین