مطالعہ - اگر اچھی سوچ کے ساتھ کیا جاۓ تو امید کی راہیں کھولتا ہے- اور اکثر دوران مطالعہ انسان کو خود اپنی شخصیت کے بارے میں بہت سے راز و نیاز سے آگاہی ہوتی ہے-
کسی انسان کو اپنا ڈھائی تین سال تک کا زمانہ یاد نہیں ہوتا- وہ کیسا تھا کیا تھا اسے لوگوں کی زبانی پتہ چلتا ہے- ہم اکثر بچوں کی شخصیت کو اپنی اس عمر کی جس میں ہم ہیں، کی بنیاد پر جانچتے ہیں- اور اسے بچپن ہی میں اچھائی یا برائی کی سند دے دیتے ہیں- بڑا مشہور محاورہ ہے کہ "پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آجاتے ہیں"-
ماریا مونٹیسوری کی تحقیق کے مطابق بچے کی شخصیت اسکے ابتدائی چھہ سالوں میں مکمّل ہو تی ہے- اور اس دوران وہ بہت سے حسّاس دورانیوں sensitive periods سے گذرتا ہے- جو کہ اسکے اندر کی کام کرنے کی جستجو کا مظہر ہوتے ہیں- اور بچہ اس دورانیے میں وہ کچھ سیکھ لیتا ہے جو اسے کوئی اسکول کالج نہیں سکھا سکتے- اگر بچے کا ماحول اور اسکے ارد گرد کے بڑے لوگ مثبت ہیں تو یہ "نارمیلیٹی" Normality کہلاتا ہے- اور اس سے انحراف deviation کسی نہ کسی منفی رویے کا نتیجہ ہوتا ہے- ماریہ کے مطابق اگر بچہ نارمیلیٹی سے انحراف کرتا ہے تو اس کے واپس نارمیلیٹی پر آنے کا واحد طریقہ "کام" ہے- کام میں انہماک اور اس دوران رونما ہونے والے واقعات بچے کو مثبت رویے کی طرف واپس لے آتے ہیں-
ہمارے گھر کے رواج کے مطابق کام کا نہ ہونا بھی نارمیلیٹی سے انحراف کا سبب ہوتا ہے لہٰذا انسان کو کسی نہ کسی کام میں مصروف رہنا چاہیے-
اپنی بیٹی کی پیدائش پر تمام تر خوشیوں اور مسرّتوں اور توجہ کے باوجود مجھے اس پر انسانی فطرت کے لحاظ سے کچھ سوچنے اور اس بنیاد پر اسکی تربیت کرنے کا وقت نہیں ملتا تھا- اب تقریبا ایک سال پہلے اس کے ہاں بیٹا ہوا اور اتفاق سے اسی دوران ماریا مونٹیسوری کو پڑھنے اور کچھ اور نفسیات دانوں کو پڑھنے کا موقع ملا تو اندازہ ہوا کہ انسانی شخصیت کی تکمیل کے مراحل کیا ہوتے ہیں اور بڑے ان سے اپنے بارے میں کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں- بچے صرف بچے نہیں ہوتے اس کائنات میں زندگی کی ایک اور ابتداء ہوتے ہیں- تمام بچے جہاں بہت لحاظ سے ایک جیسے ہوتے ہیں وہیں ان میں کچھ نہ کچھ فرق بھی پایا جاتا ہے- لیکن اس فرق کو ان کی شخصیت کی پہچان بنا کر ان کو ذہنی دباؤ کا شکار بنانا ایک منفی رجحان ہے-
اذلان ٣ جون ٢٠١٣ کو پیدا ہوا- اگلے مہینے اسکی پہلی سالگرہ ہے- میں نے جب اسے پہلی مرتبہ دیکھا تو وہ چار مہینے اور گیارہ دن کا تھا- غم کے احساس تو اسے پیدا ہوتے ہی ہوگیا تھا کہ بھوک غم کی نشانی ہے اور اسے مٹانے کا طریقہ رونا ہے کہ ماں لپک کر اسکی بھوک مٹانے کا انتظام کرے گی- اسی طرح سونے کے لئے بھی اسے ماں کی گود یا کسی بھی گود یا آرام چاہیے تھا-
لیکن چوتھے مہینے میں اسے خوشی کا احساس بھی ہونے لگا تھا- ائیر پورٹ سے گھر واپسی پر سیڑھیاں چڑھتے ہوۓ وہ میری بیٹی کے کندھے پر تھا اور اس نے مجھے دیکھ کر کلکاری ماری تو مجھے حیرت بھی ہوئی اور بے انتہا خوشی بھی- پھر گھر میں داخل ہونے کے بعد بھی وہ مسلسل میری حرکتوں پر کلکاریاں مارتا رہا- اس وقت تک نہ وہ پلٹ سکتا تھا اور نہ ہی چیزیں دیکھ پر پکڑ سکتا تھا- لیکن میرا خیال ہے کہ سفر کرنے کے دوران اسکے حواس خمسہ میں ایک طرح کی تیزی آئی تھی اور بقول میری بیٹی کے وہ اسلام آباد آ کر تیز ہوگیا تھا- پھر اگلے تین ہفتوں میں رفتہ رفتہ اس نے اپنے نام پر گردن گھما کر دیکھنا شروع کردیا تھا- دودھ کے علاوہ اسے سرا لیک Cerelac، کیلا اور کچے انڈے کی زردی بھی دی جاتی جو وہ مزے سے کھاتا- اسی دوران اسے چمچے اور بول bowl کی پہچان بھی ہوگئی تھی جسے دیکھ کر وہ اندازہ لگاتا کہ اب کھانے کا وقت ہو گیا ہے اور خوشی کا اظہار کرتا- نہانے کے لئے کپڑے اتارتے وقت اور واشروم میں لے جاتے وقت اسکی خوشی دیکھنے کے قابل ہوتی- اور ہر خوشی کا اظہار وہ زور زور سے ہاتھ پاؤں ہلا کر کرتا- جسم پر پانی پڑتا تو پر سکون ہو جاتا-
ایک دن میری بیٹی اسے دن میں سرالیک دینا بھول گئی- شام تک وہ بجھا بجھا سا رہا- کافی گھنٹوں کے بعد جب شام کے وقت اسے کھانا دیا گیا تو اسکی خوشی اور جوش قابل دید تھا- اسی عرصہ کے دوران ہم نے یہ تجربہ بھی کیا کہ اگر اسے اکیلا کمرے میں چھوڑ دیا جاۓ تو وہ ادھر ادھر خالی کمرہ دیکھ کر رونے لگتا- گویا اسے تنہائی اور لوگوں کے درمیاں رہنے کا فرق معلوم ہو گیا تھا- تکیوں، کمبل اور نرم چیزوں پر لٹا دو تو مزے سے کافی کافی دیر اس پر لیٹا خوش ہوتا اور آوازیں نکالتا رہتا- اپنی نانی کی طرح ایک دفعہ کمبل میں گھس جاۓ تو مطمئن اور آرام دہ محسوس کرتا- پھر اس نے اپنے جنگل جم کی چیزوں کو چھونا اور پکڑنا شروع کردیا- بس زور کی آواز پر ڈر جاتا اور روتا-
شروع سے اسکی سننے کی صلاحیت listening skill بہت اچھی ہے- اسکو لیپ ٹاپ پر بارنی Barney کے گانے اور نعتیں سننا اچھا لگتا اور غور سے کافی کافی دیر انکی وڈیوز دیکھتا رہتا- "طلع البدر علینا" اور "محمّد نبینا" سنتے سنتے سو جاتا- یا پھر "میرا خدا ہر روز مجھے نئی خوشیاں دیتا ہے" سناتی تو شوق سے سنتا رہتا- "دل دل پاکستان" پر زور زور سے ہاتھ ہلاتا اور متکتا- جس سے اسکے شعری ذوق یا رایمنگ rhyming سے دلچسپی کا اندازہ ہوتا ہے-
پانچویں مہینے میں اس نے سیدھی جانب پلٹنا شروع کردیا- گھومنے پھرنے سے اسکی حواس خمسہ میں بھی بہتری آئی- اسے لاکھوں الفاظ اور ہزاروں لہجے سننے کو ملے- لاکھوں بصری خاکے اسکے ذہن نشین ہوۓ- اسکے جسم نے گرمی، سردی اور دوسرے موسمی تبدیلیوں کو محسوس کیا- اس نے لوگوں کو، جانوروں کو مختلف طریقوں سے حرکت میں دیکھا- ماریا مونٹیسوری کے مطابق یہ سب غیر ارادی طور پر بچے کی ابتدائی یاداشت Mneme کا حصّہ بن جاتا ہے اور اگلے سالوں میں اسکے لئے سیکھنے کے عمل میں آسانیاں پیدا کرتا ہے-
"کہ ہم نے انسان کو تکلیف (کی حالت) میں (رہنے والا) بنایا ہے"-
سورہ البلد
تجسس انسان کی فطرت کا حصّہ بھی ہے اور حسّاس دورانیے کی علامت بھی- تجسس کس طرح آگے بڑھنے اور ناممکن کو ممکن بنانے پر آمادہ کرتا ہے اور وہ اسکے لئے کتنی تکلیفیں اٹھاتا ہے- اذلان کی ڈویلپمنٹ دیکھ کر یقین آگیا- اسی مہینے اس نے پیٹ کے بل آگے کھسکنے کا طریقہ بھی سیکھ لیا- اور کشش کیا تھی آگے بڑھ کر کتاب یا موبائل کو پکڑنا- کتاب یا موبائل نظر آتے ہی وہ آگے بڑھتا اور تھک کر رک جاتا پھر آگے بڑھتا اور پھر رک جاتا- اسی میں اس نے دائیں بائیں مرنا بھی سیکھ لیا- صرف اسکی ایک چیز کو حاصل کرنے کے شوق نے اسے آگے بڑھنے کا طریقہ، دائیں بائیں مرنے کا طریقہ، ہاتھوں اور پیروں کو کھینچنے کا طریقہ تو سیکھایا ہی- ساتھ میں اس کے مسلز muscles یعنی پٹھے بھی مضبوط ہونے لگے- اور تھک کر اسے بھوک بھی خوب لگتی-
واپس کراچی جاتے وقت اسکی عمر پانچ مہینے اور بیس دن تھی- بہت سے لوگ اس عمر میں بچوں کی ذہنی نشو و نما پر نہ تو دھیان دیتے ہیں اور نہ ہی اسکی بہتری کا انتظام کرتے ہیں- بچہ یکدم کچھ نہیں سیکھتا- َاسکی چھوٹی سے چھوٹی کامیابی میں اس سے پہلے کے واقعات کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے جس کو ہم نہیں سمجھتے-
پچھلے چھہ مہینے میں اذلان نے بیٹھنا، گھٹنوں چلنا، کھڑا ہونا، چیزوں کو ادھر ادھر گھمانا سیکھا ہے- دو تین مہنے پہلے سے اس نے نان، چاول، بسکٹ وغیرہ بھی کھانے شروع کردیے- اسکو کھلونوں سے زیادہ اصل چیزوں میں دلچسپی ہوتی ہے- اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے اس پاس کے ماحول میں اپنے ماں باپ اور دوسرے بڑوں کو وہی چیزیں استعمال کرتا دیکھتا ہے کھلونوں کو نہیں- جو کہ بہت اچھی بات ہے کیونکہ اس نے بڑے ہو کر انہیں چیزوں کو استعمال کرنا ہے- وہ بتانے سے نہیں دیکھنے سے سیکھ رہا ہے- روزانہ وہ ڈریسنگ ٹیبل پر کھڑا ہوکر چیزیں چھوتا ہے پھر کوڑے دان کو ادھر ادھر کرتا ہے پھر باتھ روم میں گھس جاتا ہے- کبھی کچن، کبھی کمرے، کبھی گیلری- اسے اپنی انسانی فطرت کے مطابق کام کرنے کی آزادی چاہیے ہوتی ہے اور اس میں رکاوٹ پر اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کرتا ہے-
ابھی تین روز پہلے اسکی ایک وڈیو دیکھ کر میں حیران رہ گئی کہ گیارہویں مہینے میں اس کے اندر یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ اگر کوئی اس سے بات کرے تو اسکا جواب وہ دے سکتا ہے اور اگر دوسرے کی سمجھ نہ آۓ یا دوسرا خاموش نہ ہو تو اس سے بچنے کا طریقہ کیا ہے- اس نے کسی کو ایسا کرتے نہیں دیکھا لیکن یہ انسانی فطرت ہے وہ اپنے کام میں رکاوٹ برداشت نہیں کرتا-
کام کرنے کی آزادی نے اس کے اندر کوئی فرسٹریشن frustration نہیں پیدا ہونے دی- لہٰذا وہ ہر چیز کھاتا ہے اور خوب سوتا ہے- کیونکہ چڑچڑا پن اکثر دل کی بھڑاس کا ہی نتیجہ ہوتا ہے- جو انسان کی بھوک اور نیند پر اثر انداز ہوتا ہے-
پاکستانی معاشرہ بھی فرسٹریشن سے بھرا ہوا ہے- اس کے اندر بے جا اور غیر ضروری پابندیوں اور آزادی کے غلط استعمال کی وجہ سے بے سکونی اور فرسٹریشن پیدا ہو چکی ہے- اس معاشرے میں لطف حاصل کرنے کے طریقے مصنوعی ہیں- ماریا مونٹیسوری کے فلسفے کے مطابق نارمیلیٹی سے انحراف کا واحد طریقہ کام ہے- اس قوم کو کام پر لگانے کی ضرورت ہے- ناچ گانے، بے ہودگی اور تماش بینی پر نہیں-
No comments:
Post a Comment