Friday, 16 May 2014

My Job Interview ملازمت کے لئے انٹرویو

ملازمت کے لئے انٹرویو بھی ایلیمنٹری اسکول کے امتحان کی طرح خطرناک اور بلاوجہ ہوتا ہے-  اسی لئے میری زیادہ تر جابس بغیر یا بہت ہی معمولی انٹرویو سے ممکن ہوئیں-  یہ بھی الله کا خاص کرم تھا مجھ پر-  کیونکہ جہاں صحیح والا انٹرویو لیتے ہیں وہاں مجھے جاب نہیں ملتی-  چہرہ دیکھ کے سمجھ جاتی ہوں کہ یہ مجھے نہیں رکھیں گے-  

پاکستان میں ملازمت کے معیار پر پورا اترنے کے لئے جن خصوصیات کی ضرورت ہوتی ہے وہ تو مجھ میں ہیں نہیں- 

بلاوجہ یس سر، یس میم، میں کر نہیں سکتی-   

بلاوجہ ایک تنخواہ پر چار پانچ لوگوں کے کام کرنا مجھے اچھا نہیں لگتا-  میں اپنی مرضی سے کرتی ہوں وہ اور بات ہے-  لیکن اسے ملازمت کی شرط سمجھا جاۓ یہ مجھے گوارا نہیں- 

بلاوجہ ملازمت کے دوران دوستی، محبّت اور نیکی کے نام پر تعلقات بڑھانا میری عادت نہیں- ویسے بھی پاکستان میں یہ خصوصیات نہیں مچھلی پکڑنے کے کانٹے ہیں جن کے شر سے بچنے کے لئے تربیت لینا ضروری ہے-  

اور یہ تینوں چیزیں اس معاشرے میں ملازمت کے لئے ضروری ہیں-  کوئی اصول، کوئی قاعدہ، کوئی قانون، کوئی اخلاقی جواز نہیں-  آپ مجبور ہیں تو ان شرائط پر پورا اتریں ورنہ کسی کافر ملک میں جائیں یا پھر بھیک کے لئے ایدھی یا سیلانی-  یا پھر بھوکے مریں-  

اور مجھے سمجھ نہیں آتا کہ اگر میں یہاں ملازمتوں کی کم از کم ترجیح پوری کر بھی لیتی یعنی ماسٹرز کر بھی لیتی تو اس سے کیا ہوتا- پاکستان میں ملازمتوں اور تعلیم کا تعلق ہے کیا؟  یہاں کون سا بی اے، ایم اے میں ملازمتوں سے  متعلق چیزیں سکھائی جاتی ہیں-  بچپن سے صرف تعریفیں رٹوائی جاتی ہیں اور اسی کے عادی ہوتے ہیں-  ملازمت دینے والے بھی تعریف ہی چاہتے ہیں-  تعلیم کے شعبہ میں ایم اے سے زیادہ تو یہ چالاکی کام آتی ہے کہ کس طرح کم سے کم تنخواہ پر بچے بھرے جا سکتے ہیں-  پڑھانا تو ٹیوشن کا کام ہوتا ہے-  مالکان اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق اپنے کاروبار چلاتے ہیں- 

خیر یہ تو یہاں کی وہ بے کار باتیں ہیں جس پر کوئی بھی آواز اور قلم نہیں اٹھاۓ گا-  کیونکہ ان مسائل پر آواز اٹھانے کے لئے پیسہ نہیں ملتا-  کاش میرے پاس اربوں ڈالرز ہوتے تو میں بھی کروڑوں روپے دے کر ایک دو لکھاریوں کے قلم خرید لیتی-  لیکن کوئی بات نہیں-  الله امی اور بابا پر اربوں رحمتیں اور برکتیں نازل کرے کہ انہوں نے مجھے لکھنا پڑھنا سکھادیا-  میں خود بکے بغیر جو دل چاہے لکھ سکتی ہوں-  

واپس آتی ہوں ملازمت کے لئے خصوصیات کی طرف- 

یاداشت Memory
یاداشت میری بہت کمزور ہے-  گھر والے مجھ سے بہت تنگ تھے-  باجی کہتی تھیں آکر چاۓ پی لو اور میں "ابھی آئی" کہہ کر فون رکھ دیتی-  راستے میں امی کے گھر کی طرف مڑ جاتی اور وہاں چاۓ پی رہی ہوتی-  باجی انتظار کر کر کے امی کے ہاں فون کرتیں تو خیال آتا کہ ارے مجھے تو وہاں جانا تھا-  اپنی بیٹی کو بھی اکثر کہ دیتی کہ میں کچن میں یا دوسرے کمرے میں جارہی ہوں اس کام سے، اگر وہاں جا کر بھول جاؤں تو مجھے یاد دلادینا کہ کس کام سے ادھر آئی تھی-  اپنی یاداشت تیز کرنے کے سارے طریقے اپنا کر دیکھ لئے، دعائیں کرلیں، سبزیاں کھائیں، پھل کھاۓ، اومیگا تھری کھائی، کوئی فرق نہیں پڑا- جی جی جی ، اب کسی اطراف سے یہ سننے کو ملیں گی کہ "گناہ کی زیادتی یاداشت کو کمزور بناتی ہے"-  اور بقول باجی کے "زیادہ کھانا یاداشت کو کمزور کرتا ہے"-  بھئی اب انسان کے پاس کچھ کرنے کو نہیں ہے تو کیا کھانا بھی نہ کھاۓ- 

خیر میں نے صبر کرلیا ہے کہ جس طرح الله نے بابا کی یاداشت اس عمر میں بہتر کردی ایک دن میری یاداشت بھی بہتر ہو جاۓ گی-  امتحانات بڑی مشکل سے دیے تھے-  ہر سال پاس ہوجاتی تھی الله کا شکر ہے یہ بھی-  جس قسم کے اساتذہ آج ہیں ایسے ہی یا اس سے کچھ کم اس وقت بھی تھے-  لہٰذا اسلامی تعلیمات کا اور امی کی تربیت کا لحاظ کرتے ہوۓ کہہ دیتی ہوں کہ استاد بہت محترم ہوتا ہے ہمیشہ انکی عزت کریں-  اور ان کا احسان مانیں-  

ذہانت Intellectual Capabilities
 ذہین میں کبھی بھی نہیں رہی-  یہ بھی الله کا شکر ہے-  کیونکہ ذہین لوگوں سے بہت سے توقعات وابستہ ہو جاتی ہیں-  اور وہ ان توقعات کے دباؤ تلے دبے رہتے ہیں-  بے چارے-   ایک مرتبہ اشتیاق احمد کی ناول کا خاص نمبر پڑھا تو اسکے آخر میں سوال تھا کہ منصف کی پسند کا جملہ اس میں سے ڈھونڈ کا نکالیں-  میں ستّر مرتبہ بھی ناول پڑھتی تو نہیں نکال سکتی تھی-  لہٰذا میں نے باجی سے کہا کہ آپ یہ ناول پڑھیں کام میں کر لوں گی-  انہوں نے ایک دفعہ پڑھا اور وہ جملہ بتادیا-  میں نے وہ بھیج دیا مصنف کو اور زندگی میں پہلی مرتبہ میرا نام جیتنے والوں میں آگیا اور رقم جیتنے والوں میں تقسیم ہوگئی-  جملہ تھا "مشرک پار لگ بھی کس طرح سکتے ہیں"-  سن ٢٠٠٣ میں گھر بیٹھے بیٹھے آخری تین سپارے خود ہی حفظ کر لئے تھے-  اب ان میں سے اکثر سورتیں بھول گئی ہیں-  سورہ یٰسین بھی کتنی دفعہ یاد کی ہے پھر بھول جاتی ہوں-  جی ہاں جی ہاں، مجھے پتہ ہے قرآن کو بھول جانے والا قیامت کے دن اندھا اٹھایا جاۓ گا-  تو میں کوئی جان بوجھ کر بھولتی ہوں-  اور اگر میں نے اس بات کی ٹینشن لے لی تو جو  تھوڑی سورتیں یاد رہ گئی ہیں وہ بھی بھول جائیں گئی-  لیکن مجھے  ایمان مجمل اور مفصّل یاد ہیں-  اور صرف ایمان مفصّل سنانے پر تو مجھے ایک جاب بھی مل گئی تھی-  باہر- یہاں نہیں-  
  
ویسے بھی مجھے کبھی جینیس genius یعنی ذہین بننے کا شوق نہیں رہا-  ایک دو مرتبہ کوشش کی لیکن ایسی فیل ہوئی کہ مفعول ہو گئی مطلب ہےکہ معقول ہوگئی- ہماری ایک ٹیچر تھیں فزکس کی، مس سارا، انہوں نے ایک دفعہ کہا تھا کہ "انسان کو اسکی ذہانت دھوکہ دے سکتی ہے محنت نہیں"-  لہٰذا تب سے میں نے ذہانت کے بجاۓ محنت پر توجہ دینا شروع دی-  اتنی توجہ دی کہ محنت بھی پریشان ہوگئی اور اس نے مجھے بدلے میں مجھے تھکانا شروع کردیا-  

بہرحال ناموافق حالات کا سامنا کرتے کرتے بڑی ہو ہی گئی-  لیکن مسلہ ہوتا ہے ملازمت کے لئے انٹرویو یا گفت و شنید کے وقت-  اب اس وقت  اتنے کم وقت میں اتنی جلدی برین پراسیسنگ کیسے ہو سکتی ہے کہ میرے جیسا کوئی فٹافٹ اتنی ساری معلومات میں سے کوئی ایک نکتہ تلاش کر گے فورا جواب دے دے- مجھے تو نہ کل کی بات یاد نہیں رہتی ہے نہ پرسوں کی اور نہ اس سے پہلے کی-  بار بار تو چیزیں پڑھتی اور یاد کرتی رہتی ہوں-  اب الله کی مرضی-  نہ ہو نہ سہی-  رزق تو الله کے ہاتھ میں ہے-  آج تک تو بھوکا نہیں رکھا سواۓ میری اپنی ڈائٹنگ پروگرام کے- وہ بھی کبھی کبھی-  

اور ویسے بھی ہمارے ملک میں انٹرویو دینا-  ایسے ایسے سوال کرتے ہیں کہ بندہ پہلے ہی سوچ لے کہ میں دنیا کا ناکارہ ترین انسان ہوں اور ان کا احسان ہوگا جو مجھے ملازمت دے دی- اسی لئے بہت کم ملازمت پر رہی-  کیونکہ کام کا تقاضہ کچھ اور ہوتا ہے اور ملازمت دینے والوں کا کچھ اور-  

 مشاہدہ Observation
مشاہدہ میرا دس فیصد سے بھی کم ہے-  جو دو آنکھیں ہیں اس سے صرف سامنے کی چیزیں نظر آتیں ہیں-  پیچھے کیا ہو رہا ہے اس سے میرا تعلق نہیں-  باقی الله خود بچا لیتا ہے-  یہ میں نے کیسے حساب لگایا-  اگر میرے سامنے سو لوگ کھڑے ہوں اور پانچ منٹ بعد مجھ سے انکے بارے میں پوچھیں تو میں شاید دو تین کے بارے میں ہی یہ کہہ سکوں کہ انہوں نے کپڑے پہن رکھے تھے، کس رنگ اور ڈیزائن کے یہ نہیں پتہ-  شاید کسی کی مونچھیں بھی ہوں اور کسی نے جوڑا بنایا ہوا تھا بالوں کا-  میری بیٹی کو پتہ ہے اس لئے وہ کچھ پوچھتی بھی ہے تو کہہ دیتی ہے کہ "لیکن آپ کو کیا یاد ہوگا، آپ نے کون سی توجہ دی ہوگی"-  اور صحیح بھی ہے-  حدیث میں آتا ہے کہ "اسلام کا حسن یہ ہے کہ لا یعنی باتوں کو ترک کردو"- 

ایک دفعہ بنک کی ملازمت کے لئے پیڈ ٹریننگ paid training لے رہی تھی دو ہفتوں کی-  تو ایک دن انہوں نے ایک پرچہ دیا اس پر بنک روبرز robbers کی تصویریں تھیں اور دس سیکنڈ بعد وہ واپس لے لیا-  اور سوال پوچھے-  اب میں دس سیکنڈ میں تصویریں ہی دیکھ سکی جو کسی لڑکی کی تھیں-  تصویروں کے نیچے لکھا نام پڑھنے کا وقت ہی نہیں ملا کہ معلوم ہوتا کہ وہ ایک آدمی تھا کسی عورت کے روپ میں-  تو یہ تو حال ہے میرے مشاہدے اور ذہانت کا-  لیکن انہوں نے جاب سے نہیں نکالا-  خوش قسمتی سے مجھے جس کی جگہ رکھا تھا اس نے ایک ہفتہ چھٹی بڑھوالی تھی-  تو میں سارا دن کرسی پر گھوم گھوم کر گزارتی اور دن میں دو مرتبہ کھانا پینا کرتی-  کوئی پاکستانی ہوتا تو مجھے کسی اور جگہ لگا کر خون پسینہ ایک کردیتا-   

تعلیم Education
جس قسم کا ایم اے کر کے یہاں سے لوگ نکلتے ہیں اور انھیں پندرہ سے پچاس ہزار تک کی نوکریاں فٹ سے مل جاتی ہیں، اس سے تو بہت اچھی ہے-   
انٹرمیڈیٹ، سی گریڈ-  پاکستان میں سی گریڈ لے لیا بڑی بات ہے-  جیومیٹری مجھے سمجھ نہیں آتی تھی-  الله جانے کب اور کیا پڑھا کر جاتی تھیں-  ٹرگنومیٹری کی ٹیچر ہمیشہ پریگننٹ ہوتیں تھیں لہٰذا چھٹیاں بہت کرتی تھیں-  مجھے تو انکی شکل بھی یاد نہیں صرف یہ یاد ہے چشمہ پہنتی تھیں-  فزکس اور کیمسٹری کے تجربات کر تو لیتی تھی پر یہ آج تک معلوم نہ ہو سکا کہ انکا مقصد تھا کیا-  اور یاد کرتی رہتی ہوں کہ وہ کب میری زندگی میں کام آۓ-  ہنہ، بلاوجہ وقت اور پیسہ ضائع ہوا امی بابا کا-  کوئی ایک ریاضی یا سائنس کا فارمولا یاد نہیں-  بس جو ٹیوشنز پڑھا پڑھا کر سیکھا وہ کچھ کچھ آتا ہے کہ پتہ نہیں وہ بھی بھول گئی ہوں- 

پچھلے سال ایم سی آئی سے مونٹیسوری سرٹیفکیٹ کیا-  کروانے والوں نے جھوٹ بولا کہ اسکے بعد آپکی تنخواہ زیادہ ہو جاۓ گی-  اتنا مہنگا کورس اور پھر محنت، میری ہڈیاں پسلیاں ٹوٹ گئیں اور پھر ساتھ میں جاب-  ٹیچر ظالم پاکستانی تھیں لہٰذا انھیں ہر چیز غلط لگتی تھی- خود اپنی تعریفیں کرتی رہتی تھیں-  اس میں بھی ٤٨ فیصد نمبر آۓ- 

ویسے عجیب بات ہے-  پاکستانی سسٹم سے پڑھو تو ناکامی اور ذلّت ملتی ہے اور وقت اور پیسہ بھی برباد ہوتے ہیں-  باہر کے سسٹم سے پڑھو تو کچھ فائدہ ہوتا ہے - وہ بھی باہر-  
پی ایم سی سے مونٹیسوری ڈپلومہ کیا-  بارہ مہینے کا کورس چار ماہ میں- کیونکہ باہر کے طریقے سے کیا اس لئے -  پریزنٹیشن میں ٦٥ فیصد، تحریری امتحان میں ٧٤ فیصد، پورٹ فولیو میں ١٠٠ فیصد اور اسائنمنٹ میں ٩٢ فیصد نمبر آۓ-  بس فائنل کا رزلٹ آنا باقی ہے-  
نیویارک سے اکیوپیشنل اسٹڈیز Occupational Studies میں اسوسی ایٹ Associate کیا تو چار بار ڈینز لسٹ Dean's List میں اور ایک مرتبہ پرذیڈنٹ لسٹ President List میں نام آیا-  

جی جی جی جی، مجھے پتہ ہے اب یہ سننے کو ملے گا کہ ایسا ہی ہے تو باہر جائیں-  یہاں کیوں ہیں-  مطلب کہ خبردار اگر ہماری کیچڑ کو کچھ کہا تو-  ہم تو اسی کیچڑ میں رہیں گے آپ کو کیچڑ پسند نہیں تو بھاگیں کہیں اور-  

 کام کا تجربہ 
باہر جس جگہ کام کیا آج تک لوگ یاد کرتے ہیں اور دعائیں دیتے ہیں-  
یہاں جس جگہ کام کیا (ابھی تک دو جگہ)-  خود کو ملامت کرتی ہوں کہ کیوں کیا-  یہاں محنت کر کے کیا ملا-  انکو مجھ سے سستے کام کرنے والے مل گۓ-  ہڈیاں پسلیاں میری ایک ہوئیں-  میرے گھر والے بھی مجھ سے یہی سوال کرتے ہیں جسکا جواب میرے پاس نہیں-  

میں کسی کنوئیں کا مینڈک نہیں کہ بس جی یہی آتا ہے اور کچھ نہیں کر سکتی-  ہر حلال کام کر سکتی ہوں-  اور پچھلی جگہ تو میں نے ماسی کے لئے بھی اپلائی کیا تو انہوں نے انٹرویو کے لئے بلایا- ماسی کے لئے"اوور کوا لیفائیڈ over qualified " قرار دے دیا- اور باقی پوزیشنز کے لئے نان سوٹیبل  non-suitable.   ہاں ہاں، سنجیدگی سے-  کیونکہ میرے حساب سے بارہ یا پندرہ ہزار ماسی کی تنخواہ ہونی چاہیے-  جتنا کام ان سے لیا جاتا ہے اور ساتھ میں باتیں بھی سنائی جاتی ہیں-  ٹیچر کی تنخواہ بیس ہزار سے شروع ہونی چاہیے-  اگر اسے تجربہ نہ ہو-  ورنہ پچیس تیس ہزار سے کم پر کسی ٹیچر کو ہاں نہیں کرنی چاہیے- 

ایویں سکلز  Extra Skills 
١٩٨٥ میں اپنے باس سے کیلکیو لیٹر کو بغیر دیکھے استعمال کرنا سیکھا تھا-  ایسے کھٹا کھٹ انگلیاں چلتی تھیں میری سب دیکھتے رہ جاتے-  یہ لمبی لمبی کیلکیو لیشنز منٹ میں کر دیتی تھی-  ٹائپنگ آتی ہے-  پروف ریڈنگ آتی ہے-  ڈرائنگ، پینٹنگ، کلگرفی بچپن سے کرتی آئی ہوں-  جیولری بنانا، میک اپ پیکنگ، سموسہ اور چکن رول تو مجھ سے اچھے کوئی بنا ہی نہیں سکتا-  ملازمت کروں تو پیسہ بھی ملنا چاہیے-  بلاوجہ رضاکارانہ خدمات میں کوئی دلچسپی نہیں-  حالانکہ بہت کی ہیں-  لیکن پاکستان میں کچھ بھی کر کے صرف پچھتایا جا سکتا ہے-  کیونکہ جونہی لوگوں کو آپ کے پاکستان سے محبّت اور کام کرنے کے جذبے کا پتہ چلتا ہے وہ سمجھ جاتے ہیں کہ آپ ہی وہ بے وقوف مچھلی ہیں جس کی انھیں تلاش تھی-  اور ادھر آپ نے چوں کی نہیں اور ادھر انکا چینی کا پانی sugar coating اترنا شروع ہوا نہیں-  اس سے تو بہتر ہے کہ میں اپنی نیند پوری کرلوں-  یا کچھ پڑھ لوں یا گھوم لوں-  

پہلی مئی سے میں بریک پر ہوں-  ایک ایسے ملک میں جہاں ہر کوئی پریشان دکھائی دیتا ہے اور پریشانی میں برگر اور پیزے کھا رہا ہے اور برانڈڈ کپڑے اور جوتے پہن رہا ہے-  میں مستیاں کر رہی ہوں-  کھاتی پیتی ہوں-  جی بھر کے سوتی ہوں-  پڑھتی ہوں-  ملّی نغنے سنتی ہوں- عجیب عجیب کھانے پکے پکاۓ مل جاتے ہیں خوشی اور شکر سے کھاتی ہوں-  جیسے کہ شملہ مرچ اور آلو کا سالن، بند گوبھی اور شملہ مرچ کا سالن، بند گوبھی اور آلو کا سالن، انڈے اور آلو کی بنی ہوئی کوئی چیز،  نہاری کے نام پر مرغی کا قیمہ جیسی کوئی چیز، چکن قورمہ کے نام پر چکن قیمہ جیسا کوئی سالن، وغیرہ وغیرہ-  میں سوچتی تھی کہ دنیا میں صرف میں ہی برا کھانا پکاتی ہوں-  لیکن یہاں تو مجھ سے بھی بڑے بڑے ماہر پڑے ہوۓ ہیں-  








No comments:

Post a Comment