Sunday, 18 May 2014

متوازن غذا اور پر سکون زندگی کے اصول

"اے اہل ایمان جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو عطا فرمائیں ہیں ان کو کھاؤ اور اگر الله ہی کے بندے ہو تو اس (کی نعمتوں) کا شکر بھی ادا کرو"-
 سوره البقرہ 

"اور جو حلال طیّب روزی الله نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ اور الله سے جس پر ایمان رکھتے ہو ڈرتے رہو"-
 سورہ المائدہ 

"تو جس چیز پر (ذبح کے وقت) الله کا نام لیا جائے اگر تم اس کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہو تو اسے کھا لیا کرو"-
 سورہ الانعام 


"اور جس چیز پر الله کا نام نہ لیا جائے اسے مت کھاؤ کہ اس کا کھانا گناہ ہے اور شیطان (لوگ) اپنے رفیقوں کے دلوں میں یہ بات ڈالتے ہیں
 کہ تم سے جھگڑا کریں اور
 اگر تم لوگ ان کے کہے پر چلے تو بےشک تم بھی مشرک ہوئے"- 
 سورہ الانعام 


رسول الله صلی علیہ وسلّم کی احادیث کے مطابق، 
"جب بھوک لگے تب کھانا کھاؤ"
"پانی تین سانس میں پیو"

سوال یہ ہے کہ ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ دن میں آٹھہ، نو، دس، گیارہ گلاس پانی پیو- لیکن یہ نہیں بتاتے کہ یہ آٹھ، نو، دس، گیارہ گلاس پانی کتنے سائز کے گلاسز میں پینا ہے-   پانی  مختلف مقدار میں پیا جاتا ہے لہٰذا ہر کوئی تین سانس میں پانی کیسے پی سکتا ہے-  

اس کا سیدھا سادہ سا جواب یہ ہے کہ انسان کی صحت کے لئے ایک وقت میں اتنا پانی کافی ہوتا ہے جسے وہ تین سانس میں پی سکے-  اسی مقدار کو ہر انسان، چاہے وہ بچہ ہو یا بڑا، اپنی جسامت اور پیاس کے مطابق دن میں کئی بار پی سکتا ہے-  اس سے سانس بھی نہیں رکتا پانی پیتے ہوۓ اور پھندا بھی نہیں لگتا-  اس بات کا یقین رکھیں کہ رسول الله صلی علیہ وسلّم کی باتوں میں ساری انسانیت کے لئے فائدہ ہے-  اور انہوں نے کوئی بات بلاوجہ نہیں کہی-  

اکثرکھانے کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وقت پر کھاؤ-  اور اسکے لئے تین، چار یا پانچ میل meals تجویز کے جاتے ہیں-  کبھی کہتے ہیں تین سبزیاں اور دو پھل اور تھوڑا گوشت کھاؤ-  کبھی یہ کھاؤ وہ نہ کھاؤ-  ان تمام تحقیقات کے نتیجے میں انسان صرف پریشان ہو سکتا ہے کہ کیا کھاۓ اور کیا نہ کھاۓ-  کچھ لوگ صبح ثقیل ناشتے کے عادی ہوتے ہیں اور پھر دوپہر اور شام میں بھی مرغن کھانے کھاتے ہیں-  کچھ لوگ ہلکے ناشتے کے عادی ہوتے ہیں اور انھیں وقفے وقفے سے بھوک لگتی رہتی ہے-  کچھ لوگ ہمیشہ من پسند کھانے کھانا چاہتے ہیں، بہت سوں کو چٹ پٹے کھانوں کی اور بہت سوں کو صرف گوشت کھانے کی عادت ہوتی ہے-  غرض کہ ہر شخص اگر ان تحقیقات پر عمل کرے تو پاگل ہوجاۓ کہ شاید وہ صحیح متوازن غذا نہیں کھا رہا لہٰذا بیمار ہے-  

لیکن رسول الله نے ایک قابل عمل اصول بتا دیا کہ کھانے کا اصل وقت وہ  ہے جب انسان کو بھوک لگی ہو-  اور ایک کہاوت کے مطابق "مزہ کھانے میں نہیں بھوک میں ہوتا ہے"-  بھوکے کو چٹنی بھی قورمہ بریانی لگتی ہے-  اور جنکے پیٹ بھرے ہیں انکو ہر کھانے میں نقص نظر آتا ہے-   بچوں اور بڑوں کی بھوک کے اوقات اور تقاضے فرق ہوتے ہیں-  بچوں کو کھیل کود اور بے انتہا اور بلاوجہ کی تعلیم کی وجہ سے بھوک زیادہ لگتی ہے اور انھیں بھوک کے وقت کھانا نہ ملے تو انکی بھوک مرجاتی ہے اور وہ چڑچڑے ہوجاتے ہیں-  بڑوں کی بھوک انکی محنت اور مشاغل کے حساب سے ہوتی ہے-  لوگ سائنسی تحقیقات اور ڈاکٹرز کے مشورے پر ادھر سے ادھر بھاگ رہے ہوتے ہیں اور کبھی کچھ کھانا شروع کردیتے کبھی کچھ-  کھاتے بھی ہیں تو یہ سوچ کر کہ  پتہ نہیں کیا اثر کرے گا-   لہٰذا رسول الله کی بات زیادہ قابل عمل نظر آتی ہے-  

اکثر صحت و تندرستی اور ایک چمکدار شخصیت کے لئے مختلف غذائیں تجویز کی جاتی ہیں-  مختلف طریقے بتاۓ جاتے ہیں- حالانکہ اسکے لئے صرف اوپر والی احادیث کے مطابق عمل کرنا اور خوش اور شکر گذار رہنا شرط ہے-  ڈاکٹرز کے مطابق متوازن غذا میں روزانہ سبزیاں، پھل، گوشت، چکنائی، دودھ وغیرہ ہونا چاہیے-  جو کہ آج کل کے دور میں ایک مشکل کام ہے-  عام لوگوں کی تنخواہ دس، پندرہ بیس سے پچیس ہزار تک یا پھر تیس چالیس ہزار تک  ہوتی ہے-  لوگوں کے بجٹ میں زیادہ حصّہ بچوں کے اسکولوں کالجوں کے خرچے کا ہوتا ہے-  اسکے بعد اگر وہ کراۓ کے گھر میں رہتے ہیں تو کرایہ آجکل پندرہ ہزار سے کم تو کہیں نہیں ہے وہ بھی گندے اورعجیب قسم کے علاقوں میں-  ورنہ تو اس سے زیادہ ہی ہوتا ہے-  پھر آۓ دن لوگوں کے شادی بیاہ، سالگرہ، روزہ کشائی، سوئم، چہلم، برسی، میلاد، مجلسوں وغیرہ کے خرچے-  مجھے لگتا ہے لوگ اپنے گھر کے بجاۓ دوسروں کے گھر زیادہ کھا رہے ہوتے ہیں-  اور وہ بھی ایک ہی طرح کے کھانے یعنی بریانی، چکن تکّہ یا روسٹ، قورمہ، نان، شرمال، حلیم، وغیرہ-  اور پھر آلودگی اور گندگی کی وجہ سے جو بیماریاں ہوتی ہیں ان کے علاج پر خرچہ- 

اچھی صحت کے لئے نیند اور پرسکون ماحول بھی بہت ضروری ہے  اور وہ کس کو نصیب ہے-  دس سال تک کے بچوں کے لئے نو گھنٹے اور پچاس سال سے اوپر حضرات کے لئے کم از کم سات  آٹھ گھنٹے کی نیند ضروری ہے-  اسکے ساتھہ ایک ماحول جس میں صفائی ستھرائی ہو-  چیخ و پکار نہ ہو-  شور شرابا نہ ہو-  کیا ہمارے گھروں میں ایسا ماحول ہوتا ہے-  ملازمت کے دوران جتنا شدید ذہنی دباؤ کا ماحول ہوتا ہے کہ نہ پانی، نہ صفائی، نہ کھانے کی جگہ, نہ بیٹھنے کی جگہ، زیادہ سے زیادہ کام کا بوجھ-  پھر مستقبل کی فکر، حالات کا خوف-  صحت اچھی ہو تو کیسے-  

پرسکون زندگی کے اصول یہ ہیں- 


١) بھوک لگے تب کھائیں- 

٢) کھانا حلال ہو تاکہ دل مطمئن رہے کہ الله کی نافرمانی نہیں ہو رہی-  کیونکہ دل کو سب سے زیادہ اطمینان اسی بات سے پہنچتا ہے کہ الله کی نافرمانی نہیں ہو رہی-  اور غلطی سے حرام کھالیں تو الله سے براہ راست معافی مانگ لیں-  ادھر ادھر فتوے تلاش کر کے علماء کو آزمائش میں ڈالنے کی ضرورت نہیں-

٣) کھانے میں شک ہو کہ آیا یہ حرام ہے یا گندگی سے پکا ہے تو پھر چھوڑدیں-  کیونکہ رسول الله صلی علیہ وسلّم کی حدیث کا مفہوم ہے کہ 
"جو چیز تمہیں شک میں ڈالے اسے چھوڑ دو"-  کیونکہ اسلام کا مقصد ہی دل کو اطمینان بخشنا ہے-  اور دوسری بات یہ کہ جب سب لوگ مشکوک چیزیں چھوڑ دیں گے تو مشکوک چیزوں کا کاروبار خود بخود ٹھپ ہو جاۓ گا-  اور اسکے لئے کسی حکومت اور قانون کو گالیاں دینے کی ضرورت  بھی نہیں پڑے گی-  خود بخود اصلاح کا راستہ کھولتی ہے یہ حدیث- 

٤) کھانے پینے میں جس حد تک ممکن ہو سنّت کے طریقے اپنائیں-  اور اس کے لئے معلومات ہر جگہ سے مل سکتی ہیں اور ان پر کسی فرقے میں اختلاف نہیں ہے- 

٥) متوازن غذا کے ساتھہ ساتھ ذہنی اور جسمانی آرام بھی ضروری ہے-  لہٰذا نیند کا خیال رکھیں اور ساتھ ہی اپنے کام سے کام-  دوسروں کی زندگی میں غیر ضروری مداخلت یا غلط طریقے سے کی گئی مداخلت بھی ذہنی پریشانی کا سبب بنتی ہے-  کیونکہ انسانی لاشعوری طور پر بے چین ہو جاتا ہے-  سورہ مزمّل کی آخری آیات پڑھیں تو اس میں یہی ذکر ہے کہ اتنا قرآن پڑھو جتنا آسانی سے پڑھا جاسکے-  کیونکہ بیزاری سے عبادت کروانا اسلام کا مقصود نہیں-  اسی طرح ایک حدیث کے مطابق، اگر بھوک لگی ہو تو پہلے کھانا کھا لو اور پھر آرام سے نماز پڑھو-  مقصد وہی، کہ عبادت کے ذریعے سکون حاصل ہو نہ کہ بوجھ لگے- اور اس طریقے پر دل کو مطمئن کرلیں کہ یہ الله اور اسکے رسول کی تجاویز ہیں-  


"تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے کہ تم اور تمہارے ساتھ کے لوگ (کبھی) دو تہائی رات کے قریب اور (کبھی) آدھی رات اور (کبھی) تہائی رات قیام کیا کرتے ہو۔ اور الله تو رات اور دن کا اندازہ رکھتا ہے۔ اس نے معلوم کیا کہ تم اس کو نباہ نہ سکو گے تو اس نے تم پر مہربانی کی۔ پس جتنا آسانی سے ہوسکے (اتنا) قرآن پڑھ لیا کرو۔ اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں اور بعض  الله کے فضل (یعنی معاش) کی تلاش میں ملک میں سفر کرتے ہیں اور بعض  الله کی راہ میں لڑتے ہیں۔ تو جتنا آسانی سے ہوسکے اتنا پڑھ لیا کرو۔ اور نماز پڑھتے رہو اور زکوٰة ادا کرتے رہو اور  الله  کو نیک (اور خلوص نیت سے) قرض دیتے رہو۔ اور جو عمل نیک تم اپنے لئے آگے بھیجو گے اس کو الله  کے ہاں بہتر اور صلے میں بزرگ تر پاؤ گے۔
 اور الله سے بخشش مانگتے رہو۔ بےشک الله بخشنے والا مہربان ہے"- 

 سورہ مزمّل 

٦) ایک ہفتے میں انسان کم از کم اکّیس میلز کھاتا ہے-  یعنی سات دن تک صبح کا ناشتہ، دوپہر کا کھانا اور رات کا کھانا-  کچھ دن میں پانچ وقت کھاتے ہیں، کچھ چار وقت اور کچھ صرف دو وقت-  بابا کی طرح-  جو صبح کے ناشتے کے بعد مغرب کے وقت کھانا کھاتے ہیں-  

خیر ان اکیس کھانوں کو متوازن غذا کے لحاظ سے ترتیب دینا اتنا مشکل نہیں-  بس یہ ضرور یاد رکھیں کہ کھانے میں طاقت اور غذائیت الله کے حکم سے آتی ہے-  ایک کھانا کسی کو صحت دیتا اور دوسرے کے پیٹ میں درد کر سکتا ہے-  اور ہر چیز روزانہ کھانا بھی لازمی نہیں- ہمارے رسول، اہل بیت اور صحابہ کرام صرف کجھوروں پر بھی گزارا کر لیتے تھے-  

اکثر لوگ بہت کچھ کھا رہے ہوتے ہیں لیکن صحت بخشنے والی چیزوں کو کہ دیتے ہیں کہ یہ مہنگی ہیں-  زیتون کا تیل olive oil چار سو پانچ سو کا آتا ہے اور ہفتے میں ایک یا دو مرتبہ کسی سلاد پر ڈال کر کھائیں تو تین چار مہینے چل جاتا ہے-  اسی طرح جو بھی ڈریسنگ dressings اور ساسز sauces لیں وہ تین چار سو سے زیادہ کی نہیں ہوتی- پھل روزانہ کھانے ضروری نہیں-  ہفتے میں ایک یا دو دن موسمی پھل کھا لیں کافی ہیں-  البتّہ ایک حدیث کے مطابق پھلوں کے چھلکے دروازے کے باہر نہ ڈالیں کہ آپکے پڑوسی کے بچے حسرت کریں کہ انکو کیوں یہ پھل میسّر نہیں-  ہوسکے تو انکو احسان کے طور پر نہیں بلکہ تحفے کے طور پر تھوڑا حصّہ بھیج دیں-  رسول الله کی باتیں لوگوں کو اذیّت سے بچانے  اور امن قائم کرنے کے لئے ہیں- 

اگر پیسے بھارتی فلموں کے بجاۓ متوازن غذا پر خرچ کریں تو دل کو سکون بھی ملے گا اور جسم کو صحت-  

کھانے کی فہرست ان کو دیکھ کر ترتیب نہ دیں جو ایک وقت میں پانچ پانچ ہزار کا کھانا کھا کر سمجھتے ہیں کہ وہ ماڈرن ہو گۓ ہیں یا انکی عزت بڑھ گئی ہیں معاشرے میں-  اپنی زندگی کی نعمتوں کا خود لطف اٹھائیں-  اگر غیر ضروری اخراجات کم کر لیں اور لوگوں کی پسند نا پسند کے مطابق زندگی گزارنا چھوڑ دیں تو زندگی بہت آسان، خوشگوار اور مزیدار ہو سکتی ہے-  

٧) متوازن غذا افورڈ کرنے کے لئے اپنےغیر ضروری خرچے کم کریں-  بچوں کو سرکاری اسکولوں میں ڈالیں اور حکومت پرزور ڈالیں کہ انکی حالت ٹھیک کرے-  اسطرح فیس اور ٹیوشن کا پیسہ بچے گا-  صرف ضروری تقریبات میں جائیں-  ہر تقریب میں نۓ کپڑے جوتے ضروری نہیں-  

٨)  جو کچھ بھی کھائیں اسکے بعد الله کا شکر ضرور ادا کریں کیونکہ الله نے فرمایا ہے کہ 

"اگر تم شکر کرو گے تو میں تم کو اور زیادہ دوں گا" 


 ٩) ممکن ہو تو اپنے کھانے میں دوسرے کو شریک کر لیں یا اس کے لئے کوئی ایسا طریقہ اپنائیں کہ دوسرے کو مفت خوری کی عادت بھی نہ پڑے اور اسکی عزت بھی رہ جاۓ اور طلب بھی پوری ہوجاۓ-  اور اسکو یہ احساس دلا دیں کہ یہ اسکے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے لئے مدد کی جارہی ہے لہٰذا وہ اس پر تکیہ کر کے نہ بیٹھ جاۓ- 

١٠) سونے سے پہلے اپنے گناہوں اور دوسروں کے لئے بھی معافی اور رحمت کی دعا کریں الله سے-  اس سے بھی دل اطمینان پاتا ہے-  ١٩٩٩ میں چھوٹے ماما نے ایک خط لکھا تھا مجھے، حسب عادت مختصر ترین-  اس میں سلام، دعا اور خیریت کے بعد ایک واقعہ لکھا تھا جو آج تک مجھے یاد ہے اور الله اسکی جزا ماما کو اربوں کے حساب سے ملے-  واقعہ یہ ہے- 


ایک صحابی تھے جنھیں دیکھ کر رسول الله اپنے ساتھ بیٹھے صحابیوں سے فرماتے کہ وہ دیکھو جنّتی جارہا ہے-  ایک صحابی کو کچھ تجسس ہوا کہ دیکھیں آخر معاملہ کیاہے-  وہ صحابی ان دوسرے صحابی کے  پاس جاتے ہیں اور کسی عذر کی وجہ سے انکے گھر دو تین دن ٹھہرنے کی اجازت لیتے ہیں-  تین دن کے بعد وہ اپنے میزبان سے کہتے ہیں کہ میں نے ایک عذر کو بہانہ بنایا تھا آپکے ساتھہ رہنے کے لئے-  اور اسکی وجہ یہ تھی کہ رسول الله آپ کو دیکھ کر فرماتے تھے کہ وہ دیکھو جنّتی جارہا ہے-  میں جاننا چاہتا تھا کہ وہ کون سے اعمال ہیں جن کی وجہ سے آپ کو یہ مقام ملا- لیکن میں نے آپکو ایسا کوئی خاص عمل کرتے ہوۓ نہیں دیکھا جو ہم سب نہ کرتے ہوں-  ان میزبان صحابی نے فرمایا کہ بے شک آپ نے ٹھیک کہا-  میں ایک کام اور کرتا ہوں کہ سونے سے پہلے الله سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لیتا ہوں اور اس بات کی بھی کہ اگر میں نے کسی کے ساتھ برائی کی ہے-  پھر ہر اس شخص کے لئے معافی طلب کرتا ہوں جس نے میرے ساتھ کوئی برائی کی ہے-  اور انکو معاف کر کے سو جاتا ہوں-  

بے شک معافی مانگنا اور معاف کردینا دل کو اطمینان دیتا ہے اور دل کا اطمینان صحت بخشتا ہے- 

پرانے زمانے میں کھانوں کے طریقے  اور اندگی کے اصول آج جیسے نہیں تھے- آج کی طرح ہر وقت چکن، بریانی، میکرونی اور برگر نہیں کھاۓ جاتے تھے-  ہمارے گھر میں کھانے کا اصول تھا-  امی دوپہر کے وقت چاول بناتی تھیں-  کچھڑی، تہاری، مٹر چاول، دال چاول، وغیرہ-  اور شام کو روٹی ہوتی-  دوپہر کا کھانا ہم ایک بجے تک کھا لیتے تھے اور شام کا کھانا مغرب کے وقت-  سواۓ اس کے گھر میں کوئی مہمان آیا ہو-  ان طریقوں میں فرق نہیں آتا تھا-  میرا نہیں خیال کہ ہمارے گھر میں کبھی کھانا ضائع ہوا ہوگا-  دیر تک امی نے کبھی نہیں سونے دیا-  چھٹی کے دن بھی صبح آٹھ جاتے-  فورا ناشتہ کرتے-  ہم سب سویرے کے اٹھے ہوتے تھے اس لئے دوپہر میں امی سب کو سلاتی تھیں-  میرے اور میرے چھوٹے بھائی کے علاوہ سب دوپہر میں سو جاتے تھے-  وہ چپ چاپ کھیلتا اور میں کہانیوں کی کتابیں پڑھتی-  سہہ پہر میں سب آٹھ کر چاۓ کے ساتھ کچھ نہ کچھ کھاتے-  کبھی پاپڑ تلتے، کبھی بسکٹ، کبھی کچھ اور-  رات کو عموما جلدی سو جاتے-  بقول امی کے، ہم پانچوں بہت اچھے بچے تھے کہ انکے اصولوں کے ساتھہ چلتے- 

بڑے ہونے کے بعد اور جابز کرنے کے دوران ہم ضرور بے ترتیب ہوگۓ تھے-  

پھر ہماری اولادوں نے ہمیں واپس امی کے طریقے کی اہمیت سکھائی-  پچھلے بارہ تیرہ سال میں شاید ہی ایک یا دو شادیاں اٹینڈ کی ہوں گی-  ایک میں تو لان کا ہی سوٹ پہن لیا تھا-  بیٹی کو زیادہ گھر پر ہی پڑھایا لہٰذا میں اور وہ، دونوں بلاوجہ کی پریشانیوں سے بچے رہے اور وہی پیسہ ہم نے اپنی دوسری خواہشوں پر خرچ کیا-  بیٹی کو شادی میں جہیز کے نام پر کچھ بھی نہیں دیا، بیڈ روم سیٹ بھی نہیں، اور نہ ہی اسکا مطالبہ ہوا-جو ایک بہت بڑی نیکی ہے-  جو کچھ خرچ ہوا بس اسکی پسند سے اسکی شادی کے طریقوں پر ہوا- 

مطلب یہ کہ انسان کو خوشیاں اور سکون زمانے کے پیچھے چلنے سے نہیں بلکہ اپنے حالات کے مطابق اپنے طریقے پر چلنے سے ملتی ہیں-    







No comments:

Post a Comment