Monday, 26 May 2014

قلمی باپ

شوق کا کوئی مول نہیں-  
یعنی شوق کی کوئی قیمت نہیں ہوتی- یہ خود بخود پیدا ہوتا ہے-  اور انسان کے دل و دماغ کو اپنے قابو کرلیتا ہے-  پھر نہ انسان کسی کی سنتا ہے اور نہ کسی کو دیکھتا ہے-  نہ اسے فائدہ سمجھ آتا ہے نہ نقصان-  ہم بہن بھائیوں کے  ایک نہیں بہت سے شوق تھے-  اور ہر شوق ایک سے بڑھ ایک تھا-  بلکہ مجھے لگتا ہے کہ ہم کو ہر چیز کا شوق تھا-  شاید اسی لئے ہم کبھی بور نہیں ہوتے تھے آج کل کے بچوں کی طرح-  

امی کو ہمیں پڑھانے کا بہت شوق تھا-  اور مجھے بچپن سے پڑھنے کا بہت شوق تھا-  امی نے اپنے اس شوق کے لئے بہت قربانیاں دیں-  اور میں نے اپنے شوق کے لئے-  امی کی تمنّا تھی کہ ہم کورس کی کتابیں پڑھیں تاکہ فرسٹ، سیکنڈ، تھرڈ، فورتھ آئیں-  مجھے کورس کی کتابوں کے علاوہ سب کچھ پڑھنے کا شوق تھا جسکی وجہ سے میں فرسٹ، سیکنڈ، تھرڈ، فورتھ تو کیا اوّل، دوم، سوم، چہارم اور پنجم بھی نہیں آسکتی تھی-  تو میرے نمبر صرف اکّڑ بکّڑ بمبے بو ہوتے تھے-  کبھی اسی نوّے پورے سو تک پہنچ ہی نہیں پاتے تھے-  ہاں یہ ضرور تھا کہ نیا کورس آتے ہی میں اس میں سے کہانیاں اور اچّھی اچّھی نظمیں پہلے ہی پڑھ لیتی-  

بابا یا دادا جب بھی باہر لے جاتے تو ضرور مجھے چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی کتابیں دلاتے-  ان میں جنوں، بھوتوں، پریوں، سادھوؤں، شہزادوں اور شہزادیوں کی کہانیاں ہوتیں- نو نہال، تعلیم و تربیت اور جہاں جہاں سے جو رسائل مل جاتے بچّوں کی کہانیاں اور نظمیں ملتیں میں ضرور پڑھتی-  ایک دو مرتبہ جماعت اسلامی کے دروس میں جو کتابوں کا اسٹال لگتا تھا وہاں سے بھی کتابیں خریدیں-  ان میں سے دو "انعام اور اکرام" کی کہانی اور "رابن سن کروسو"  ٢٠٠٢ تک میرے پاس رہیں-  بڑے ہونے پر جاسوسی ڈائجسٹوں کے ناول اور عمران سیریز بھی پڑھی-  ایسی جیمز بانڈ والی کہانیاں ہوتیںکہ مزہ آجاتا--  ایک مرتبہ اسکول کے زمانے میں ہی اپنی کزنز کے ساتھ انکی ایک دوست کے گھرجانا میرے لئے رحمت بن گیا-  انکے ایک کونے میں کچھ کتابیں پر تھیں ان میں سے ایک کہانی پڑھی اور بہت پسند آئی-  مصنف کا نام دیکھا تو اشتیاق احمد لکھا تھا-  پھر دور ایک لائبریری تھی وہاں اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ جاکر اشتیاق احمد کی کتابیں لائی-  لیکن اتنی دور جانے کی ہر مرتبہ اجازت نہیں مل سکتی تھی-  اس لئے بعد میں خود ہی خریدنی شروع کردیں-  اشتیاق احمد پہلے مہینے میں دو یا تین ناول لکھتے تھے-  جو شاید چار روپے کا ایک ہوتا تھا اور اس وقت کے لحاظ سے بہت مہنگا-  جو بعد میں چھہ روپے کا ایک ناول ہو گیا تھا-  پھر انہوں نے مہینے میں چار ناول لکھنے شروع کردیے-  دو انسپکٹر جمشید سیریز، ایک کامران مرزا سیریز اور ایک شوکی سیریز-  شوکی سیریز کے آنے کے بعد میری دلچسپی باقی میں تھوڑی سی کم ہوگئی تھی-  اس کی وجہ بہت سادہ تھی-  شوکی سیریز ہم جیسے عام لوگوں کے کرداروں پر مشتمل تھا-  اور کرداروں کے نام انکے اور انکے بھائیوں کے نام پر تھے-  ان کرداروں میں ذھانت کے علاوہ کوئی خاص صلاحیتیں نہیں تھیں جیسے لڑنا بھڑنا، مقابلے کرنا وغیرہ- انکا خاص نمبر اور مہنگا ہوتا اور اس لئے اچّھا لگتا کہ اس میں یہ تینوں سیریز کے کردار اتفاق سے ایک ہی کیس کے سلسلے میں ایک جگہ جمع ہوجاتے اور دشمن کا مقابلہ کرتے-  انکے ولنز میں جیرال اور سلاٹر بڑے اچھے لگتے تھے-  انکی خاص نمبرز میں 'باطل قیامت' اور 'شیطان کے پجاری' بڑی زبردست ناولز تھیں-  نۓ ناول آنے تک میں انہی ناولز کو دن رات رٹتی رہتی-  

میرا اپنا خیال تھا کہ اشتیاق احمد کی ٹیچر ہونا چاہیے اور انکی ناولز کورس میں شامل ہونی چاہئیں-  اور یوں میں اشتیاق احمد کو اپنا قلمی باپ مانتی ہوں-  کیونکہ جتنا دین و تعلیم ان سے سیکھی- اپنے پورے زمانہ طالبعلمی میں نہیں سیکھی-  "قلمی باپ"  یہ تو کسی ناول کا نام ہو سکتا ہے-  ہا ہا ہا ہا - 

حیرت مجھے اس بات پر ہوتی کہ ایک مڈل کلاس کا میٹرک پاس شخص تہجّد کے بعد مسجد  میں بیٹھ کر اتنی سائنسی باتیں کس طرح سوچ لیتا تھا-  جبکہ ان وقتوں میں ٹی وی، وی سی آر بھی نہیں تھے اور انگریزی فلمیں اس طرح ہوتی بھی نہیں تھیں اور ہر وقت آتی بھی نہیں تھیں ٹی وی پر- 

انکی انسپکٹر جمشید، انسپکٹر کامران مرزا اور شوکی سیریز سے پہلے کے جو ناولز تھے وہ اور بھی مزے کے تھے جس میں وہ خود کو ہی ایک عام سے کردار میں پیش کرتے اور اپنی جسمانی کمزوری کے باوجود اپنی حاضر دماغی سے کامیاب کروادیتے-  ان میں سے ایک "جاسوس کہیں کا"  بڑے مزے کا تھا-  

اشتیاق احمد کی کتابوں میں سے ایک انکے اپنی زندگی پر بھی تھا جس کو پڑھ کر کوئی بھی اپنے آنسو نہیں روک سکتا-  انہوں نے لکھا تھا کہ میٹرک کے بعد وہ آگے نہ پڑھ سکے اور گھر چلانے اور باقی بہن بھائیوں کی تعلیم کے لئے ملازمت ڈھونڈنے نکلے-  سخت گرمی میں وہ ادھر سے ادھر پھرتے کام کے لئے-  آخر میں انھیں اپنے میٹرک کے سرٹفکیٹ پر سگریٹ اور ٹافیاں رکھ کر بیچنی پڑیں-  پھر مختلف حالات سے گزر کر وہ لکھنے کی صلاحیتیں کام میں لے آۓ-  کافی عرصے بعد اپنا پبلیکیشن کا ادارہ بھی بنا لیا تھا-   الله نے انکو بہت عزت عطا فرمائی-  ہر چھوٹا بڑا انکی عزت کرتا-  خاص کر جب انہوں نے ختم نبوّت کی تحریکوں میں حصّہ لینا شروع کیا-  کیونکہ عوام کو تحریکوں کے ذریعے متحرّک نہ رکھا جاۓ جو بھیڑ بکریوں کی طرح کسی کے بھی پیچھے نکل لیتے ہیں- 

امی کو بہت غصّہ آتا تھا کہ اس کو کوئی اور کام نہیں جب دیکھو اشتیاق احمد کو لے کر بیٹھی ہوتی ہے-  اور میں یہ کہتی تھی کہ ان ناولز میں برائی کیا ہے-  انکے شروع میں لکھا ہوتا تھا کہ پہلے نماز، ہوم ورک اور گھر کے کاموں سے فارغ ہوں پھر پڑھیں-  ایک حدیث بھی دی ہوتی تھی-  اور ناولز کے اندر پاکستان اور اسلام سے محبّت کی باتیں ہوتی تھیں، ادب آداب کی باتیں ہوتیں تھیں-  لوگوں سے ہمدردی کی باتیں ہوتی تھیں-  محاورے ہوتے تھے-  مزاح ہوتا تھا-  

پھر مجھے ایک خیال آیا کہ کیوں نہ شروع سے آخر تک اشتیاق احمد کے ناولز جمع کیے جائیں-  انکے ناولز کے پیچھے اگلے مہینے کے ناولز کے نام دیے ہوتے-  لہٰذا میں نے ان ناولز کی ایک کاپی پر فہرست بنانا شروع کردی-  جو میرے پاس تھے-  اور انکے سیریل نمبرز بھی ساتھہ لکھتی کہ یہ پتہ رہے کہ کون سے نمبرز کے ناولز ابھی ڈھونڈنے ہیں-  یہ سلسلہ کئی مہینوں تک چلا-  اور میرے پاس ادھر ادھر پرانی دکانوں پر تلاش کر کے کافی ناولز جمع ہوگۓ-  بالآخر ایک بہت ہی پرانی دکان کے پتہ چلا کہ انکے پاس بہت سے ناولز ہوتے ہیں بچوں کے-  الله کا شکر کہ اشتیاق احمد کے تمام وہ ناولز جو میرے پاس نہیں تھے وہاں سے مل گۓ-  تینوں سیریز کے علاوہ بھی اشتیاق احمد کی کتابیں تھیں وہ بھی میں نے خرید لیں تھیں-  اور میری اس وقت تک کی فہرست مکمّل ہو گئی-  پھر میں نے اس فہرست میں تینوں سیریز علیحدہ کیں-  اور ایک ڈائری بنالی-  میری بڑی خواہش تھی کہ اشتیاق احمد سے کبھی ملوں لیکن کبھی موقع ہی نہیں مل سکا-

امریکہ جاتے وقت میرے اپنے سامان میں انہی کتابوں سے بھرا بیگ اور میری درجنوں چوڑیاں تھیں جن میں سے کچھ میرے ہاتھ میں بھی نہیں آتی تھیں-  چھوٹی ہو گئی تھیں-  وہاں جاکر بھی اشتیاق احمد سے خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہا-  اور میری ناولز وہاں پہنچ جاتیں-  پھر یہ سنا کہ بھارت، امریکہ، اسرائیل اور خاص طور پر قادیانیوں کے خلاف لکھنے کی وجہ سے ان کی کتابوں پر پابندی لگ گئی ہے-  وہاں بھی میں جاب پر جاتے وقت ٹرین میں یہی ناولز پڑھتی تو سب دیکھتے کہ کون سی زبان کی کتاب پڑھ رہی ہوں-  انکی ناولز "باطل  قیامت" اور "وادی مرجان" نے ملک دشمن عناصر میں تہلکہ مچادیا تھا-  'باطل قیامت' تو وہی ناول تھا جس پر میں نے پہلی مرتبہ باجی کی وجہ سے انعام جیتا- یہ دونوں ناولز میں نے٣٠٠٥ کے بعد کراچی میں ڈھونڈنا شروع کیے اردو بازار سے لے کر ہر بازار میں-  اور آخر میں قائداعظم کے مزار کے پیچھے ایک دکان سے معلوم ہوا کہ انکے پاس ان دونوں کتابوں کے اور بھی آرڈرز ہیں لیکن ابھی تک آئی نہیں-  پھر میں نے تھک کر تلاش چھوڑ دی-  

٢٠٠٢ میں پاکستان آتے وقت یہ نہیں پتہ تھا کہ ٹھکانہ کہاں ہوگا-  اس لئے اپنی کتابیں وہیں کسی کے پاس امانتا رکھوادیں-  کہ بعد میں کوئی آتا جاتا ھوگا تو منگوالوں گی-  میں نے سوچا تھا کہ جس دن اپنا مستقل ٹھکانہ ہوا تو اس میں ایک لائبریری کا حصّہ بنا کر ان کتابوں کو اس میں رکھوں گی-  ٢٠٠٥ میں جب وہ ہستی کراچی آئی تو میں نے کتابوں کا پوچھا-  تو ہنستے ہوۓ جواب ملا کہ وہ تو دو سال پہلے ہم لوگ جب نیو جرسی شفٹ ہو رہے تھے تو سامان باہر رکھا تھا اوررات بھر کی بارش میں  وہ بیگ گیلا ہو گیا-  اسلئے اس نے وہ سب گاربیج کردیا تھا-  

آ آ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ !












No comments:

Post a Comment