Friday 4 April 2014

Casa Dei Bambini - House of Children - بچوں کا گھر (revised)

ماریا مونٹیسوری سے میرا پہلا کتابی تعارف ستمبر ٢٠١٢ میں ہوا- اور مجھے شوق ہوا کہ انکے بارے میں مزید معلومات حاصل کروں- لہٰذا میں نے مونٹیسوری سرٹیفکیٹ اور ڈپلومہ کورسز کرنے کی ٹھانی-  الله سبحانہ و تعالی نے میری خواہش کے مطابق حالات پیدا کردیے- پچھلے انیس مہینے کی جد و جہد اور مشکلات کے بعد مجھے خوشی ہے کہ میرا وقت ضایع  نہیں ہوا- انکی زندگی کے بارے میں پڑھتے وقت مجھے بار بار اپنی امی اور چھوٹے ماما یاد آۓ- اور ایسا لگا جیسے امی اور چھوٹے ماما شاید ماریا مونٹیسوری کی بچھڑی ہوئی بہن اور بھائی ہوں- 

"بچوں کا گھر" - یہ اٹلی کی پہلی خاتون ڈاکٹر ماریا مونٹیسوری کی فکر کا عملی نمونہ اور دنیا کا پہلا مونٹیسوری ادارہ تھا-  بالکل ایسے ہی جیسے پاکستان علامہ اقبال کی فکر کی عملی تصویر-  یا شیخ ھمزہ یوسف کی فکر حقیقت  بنی زیتونہ کالج کی صورت میں- 

اس گھر کی بنیادیں ماریا مونٹیسوری نے اپنے تعلیمی فلسفے  اور تحقیق  پر رکھیں- اور وہ تھا، "بچے (کی سوچ) کے پیچھے چلیں لیکن ایک رہنما کی طرح"- بچے کو یہ نہ بتائیں کہ اسے کیا کرنا ہے-  یہ دیکھیں کہ بچہ کیا چاہتا ہے- اسکی حرکات و سکنات کا مشاہدہ کریں- اور جہاں ضرورت محسوس ہو کہ بچہ خود کو نقصان پنچاۓ گا، صرف اس وقت مداخلت کریں- بچے کا دماغ پیدائش کے وقت خالی سلیٹ کی طرح نہیں ہوتا- اس پر آوازوں، جسمانی حرارت اور ذائقہ کے بہت سے نقوش ماں کے پیٹ کے اندر ہی محفوظ ہو چکے ہوتے ہیں-  البتّہ اس میموری میں پیدائش سے چھ سال کی عمر تک ایک سپر کمپیوٹر کی طرح ایک سیکنڈ میں ہزاروں لاکھوں کے حساب سے معلومات محفوظ کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے- جو کہ بری طرح تباہ ہو جاتی ہے اگر بیرونی عوامل غیر قدرتی طریقے سے اثر انداز ہوں- اس گھر کے قیام کا بنیادی مقصد بچوں کو ان منفی اور غیر قدرتی عوامل سے بچانا تھا جو گھر کے ماحول میں موجود ہوتے ہیں اور اسکی تعلیم و تربیت اور شخصیت کی تکمیل میں رکاوٹ بنتے ہیں- اور وہ عوامل تھے بے جا پابندی، کام نہ کرنے کے مواقع اور احساس کمتری اور دوسروں پر انحصار اور حقیقی دنیا سے دوری- 

١- بے جا پابندی- ایک انسان ہونے کی حیثیت سے بچہ پابندی پسند نہیں کرتا-  وہ چیزوں کو چھونا چاہتا ہے- چیزوں پر اپنی مرضی سے تجربات کرنا چاہتا ہے- اٹھاتا ہے، رکھتا ہے، پھینکتا ہے، گھماتا ہے-  ایک چیز کو دوسری چیز کے اندر ڈالتا ہے- اگر یہ آزادی اسے دے دی جاۓ تو اسے اسکول جانے سے پہلے کی عمر میں، بغیر کورس کی کتابوں اور اساتذہ کے لیکچرز کے، خود ہی قدرتی طریقے سے مادّے کی قسموں، مختلف اشیاء کی ساخت، جسامت، ہیّت اور استعمال کے بارے میں معلومات حاصل ہو جاتی ہیں- اور یہ سارے تجربات نہ صرف اسکی ابتدائی یاداشت کا حصّہ بن جاتے ہیں بلکہ اسکی حواس خمسہ کو ڈویلپ بھی کرتے ہیں-  بدقسمتی سے یہ آزادی اسے گھر پر میسّر نہیں ہوتی- لہٰذا اسکے لئے "بچوں کا گھر" جیسے ادارے کا قیام ضروری تھا-  

٢- کام نہ کرنے کے مواقع - بچہ کام کرنے کی فطرت کے ساتھہ پیدا ہوتا ہے-  اور زندگی میں دوسروں کی محتاجی سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ بچے کی اس فطرت کو اعتماد بخشا جاۓ اور اسکی مدد بھی کی جاۓ اور پذیرائی بھی- پیدائش کے بعد جیسے جیسے اسکے حواس خمسہ ڈویلپ ہوتے ہیں وہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے، بولنے سے بھی پہلے، کام کرنے کے طریقے نقل کرنا شروع کردیتا ہے-  بڑوں کی طرح کھانا کھانا، بوتل چھوڑ کر گلاس سے پانی پینا، پنسل ہاتھ میں لیکر کسی بھی چیز پر لکھنے کی صورت میں ہاتھہ چلانا، وغیرہ- بد قسمتی سے گھر پر بچوں کو ہر کام کرا کرایا مل جاتا ہے یا اسکے لئے نوکر رکھ دیے جاتے ہیں جس سے آہستہ آہستہ بچے کے کام کرنے کی فطرت کاہلی  تبدیل ہو جاتی ہے اور اگر اس پر بر وقت توجہ نہ دی جاۓ تو یہی کاہلی اور بیزاری اس کی شخصیت کا حصّہ بن جاتی ہے-  

٣- احساس کمتری- بچہ احساس کمتری یا احساس برتری جیسے احساسات سے عاری ہوتا ہے-  لیکن گھر پر کمتری اور دوسروں پر انحصار کرنے کا احساس آہستہ آہستہ اسکے ذہن میں پرورش پاتا ہے- اور اسکی وجہ یہ ہوتی ہے کہ گھر کا ماحول، اشیاء اور فرنیچر بڑوں کے مزاج اور جسامت کی مناسبت سے ہوتے ہیں-  بچے کو گلاس اٹھانا ہو یا فرج سے کھانا چاہیے ہو یا کوئی کھلونا چاہیے ہو یا کپڑے پہننے ہوں یا جوتے-  وہ مکمّل طور پر بڑوں کی مدد کا محتاج ہوتا ہے- اور پھر یہ محتاجی اسکی شخصیت کا حصّہ بن جاتی ہے- جس گھر میں بچے ہوں وہاں چیزیں اوپر اٹھا کر رکھ دی جاتی ہیں یا تالے میں کہ بچے توڑ نہ دیں- جس سے بچے کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کے لئے نقصان دہ ہے اور دوسرے اس پر بھروسہ نہیں کریں گے

٤- حقیقی دنیا سے دوری - بچہ اپنی پیدائش سے چھ سال کی عمر تک حواس خمسہ کے بغیر چیزوں کے وجود سے ناآشنا ہوتا ہے- بچوں کو اکثر ایک غیر حقیقی اور خیالی دنیا میں بڑا کیا جاتا ہے-  اسے پریوں، جنوں، بھوتوں کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں جنھیں بچے نہ تو دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی انکی آواز سن سکتے ہیں- ان کرداروں سے متعارف کرایا جاتا ہے جن کا اس دنیا میں کوئی وجود نہیں جیسے کہ سپر مین وغیرہ- ان واقعات کو انکے ذہنوں میں بٹھایا جاتا ہے جو انسان سے ممکن نہیں یا کم از کم انسانوں کی اکثریت سے ممکن نہیں- جیسے کہ جادو، یعنی کسی پر کا ایک چھڑی کے زور پر حالات بدل دینا یا کسی آدمی کا ہوا میں اڑنا اور سیکنڈ میں چھلانگ لگا کر ایک ملک سے دوسرے ملک میں پہنچ جانا ہے- کارٹونز دکھاتے ہیں جو ایک محرک تصویر کی صورت  اور پری- پروگرامڈ- کھیلنے کے لئے بچوں کو محدود اسلوب کے پری-پروگرامڈ کھلونے دے دیے جاتے ہیں- جس سے انکی لسانی، ذہنی اور حسی نشو و نما رک جاتی ہے- بچہ بڑے ہو کر زندگی میں ایک غیر مرئی مخلوق کی آمد کا منتظر رہتا ہے جو اسکی زندگی بدل دے گی اور اسکو یہ خیال نہیں آتا کہ وہ خود بھی کچھ کر سکتا ہے-  اسکے ساتھ ہی وہ آس پاس کے حقیقی انسانوں اور ماحول کو غیر حقیقی اور غیر اہم سمجھتا ہے- 

"بچوں کا گھر"  
اٹلی کے غریب اور مسکین بچوں  کے لئے جنّت کا ٹکڑا تھا کیونکہ یہ بچوں کی جسامت اور ذہنی سطح کی مناسبت سے ترتیب دیا گیا تھا -  

ظاہری یا مادّی انتظامات 
 ١- "بچوں کے گھر" میں ایک ہال نما کمرہ تھا جس میں بچوں کو گھٹن کا احساس نہ ہوتا اور وہ کمرہ انہیں ایک کائنات کی طرح لگتا جس میں انکی دلچسپی کے سامان  موجود تھا-  ادارے کا ماحول بالکل گھر جیسا تھا-  مونٹیسوری کا خیال تھا کہ بچے جب گھر جائیں تو انھیں ادارے اور گھر میں کوئی فرق نہ محسوس ہو اور وہ گھر میں ایک فرد کی حیثیت سے ہاتھہ بٹا سکیں-  ادارے کے اندر اور باہر کی دیواروں کا رنگ اور حالت گھر جیسی تھی-  اس پر کوئی کارٹونز نما تصاویر نہ تھیں-  نہ ہی بہت زیادہ اور تیز رنگوں کا استعمال نہ کیا گیا تھا-  کیونکہ یہ بچوں کے مزاج میں تیزی اور اشتعال کے سبب بنتے- 

٢- باتھ روم/غسل خانہ میں کموڈ اور واش بیسن بھی بچوں کے سائز کے تھے تاکہ وہ خود اپنی صفائی کرسکیں- 

٣- باورچی خانہ میں تمام چیزیں بچوں کے سائز کی تھیں تاکہ وہ خود پلٹیں، گلاس، چمچے لیں اور خود اپنا کھانا پینا کے انتظام کرسکتے- 

٤- کھڑکیاں اتنی نیچی اور چوڑی تھیں کہ بچے بغیر کسی بڑے کی مدد کے بغیر باہر کا نظارہ کرسکتے- 

٥- ایک چھوٹا سا باغ تھا جہاں بچے مٹی، گھاس، پھول، پودوں، درختوں، پرندوں، آسمان، سورج اور موسم کا مشاہدہ بھی کرتے اور چھوٹے موٹے تجربات بھی- 

٦- شلیف اتنے سائز کے تھے کہ بچے  بغیر کسی بڑے کی مدد کے خود ہی چیزیں لے لیتے- شیلفز پر تمام سامان کھلا ہوا رکھا تھا-  تاکہ بچوں میں یہ احساس پیدا ہو کہ بڑے ان پر چیزوں کے بارے میں بھروسہ کرتے ہیں-  

٧- میز کرسیاں بچوں کے سائز کی تھیں- بچے انہیں خود ہی کھسکاتے  یا ادھر سے ادھر لےجاتے- 

٨- ہال میں کچھ حصّہ کھلا چھوڑا ہوا تھا تاکہ بچے دل چاہنے پر لیٹ، بیٹھ اور کھیل کود کرسکتے- 

٩- کھلونوں کے بجاۓ ہر چیز اصلی صورت میں اور قابل استعمال تھی تاکہ بچوں میں خود اعتمادی پیدا ہو کہ وہ بھی بڑوں کی طرح کام کرسکتے ہیں- 

١٠- ادارے میں عام زندگی میں استعمال ہونے والی تمام اشیاء موجود تھیں -  تاکہ بچوں میں یہ احساس پیدا نہ ہو کہ وہ چھوٹے ہیں اور کسی چیز کو استعمال نہیں کرسکتے کیونکہ یہ بڑوں کی ہیں- 

١١- ہر بچے کی انفرادی دراز تھی جس میں وہ اپنی پسند کا کام اور چیزیں رکھتے-  ہر بچے کی اپنی کھونٹیاں تھیں جن پر بچے خود اپنا کوٹ، جیکٹ وغیرہ ٹانگتے -  ایک جوتوں کا ریک تھا جس پر سب بچے جوتے موزے اتار کر خود رکھتے-  

١٢- ہال میں ایک کونا کتابوں کے لئے تھا لائبریری کے جیسا اور ایک کونا یا الگ حصّہ یا کمرہ آرٹ کے لئےتھا- 

١٣- ادارے میں اتنا سامان اور کشش موجود تھی کہ بچے کو خالی بیٹھنے یا بلا وجہ بھاگنے دوڑنے اور چیزوں کو توڑنے پھوڑنے کا وقت نہ ملتا- ماریا کے  مطابق اس طرح  رفتہ رفتہ بچوں کی شخصیت میں مصروف رہنے کا عنصر بڑھتا ہے- اس سے ایک اور فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بچہ اپنے لئے کام کے مواقع پیدا کرتا رہتا ہے اور بچے کا جسم تھکن اور مزاج بیزاری کی طرف راغب نہیں ہوتا- 

١٤- ادارے میں پالتو جانوروں کو رکھنے کے انتظامات بھی تھے جن سے بچے جانوروں کا خیال رکھنا سیکھتے- 


روحانی تربیت کے انتظامات 
 روحانی تربیت کے انتظامات 
١- ماحول میں نظم و ضبط-  بچے فطری طور پر ماحول میں نظم و ضبط دیکھنا چاہتے ہیں-  لہٰذا ادارے کی تمام چیزیں ایک ترتیب کے ساتھہ اپنے اپنے حصّوں میں موجود تھیں-  چیزیں صاف ستھری تھیں- تاکہ  بچوں کو ماحول میں نظم و ضبط اور صفائی ستھرائی دکھائی دے جسے وہ نظروں کے ذریعے ذہن میں بسا سکیں- 

٢- وقت کی اہمیت اور دوسروں کا احساس- بچے جہاں سے جو چیز اٹھاتے وہیں رکھتے اور صحیح حالت میں رکھتے-  اس سے ان کے اندر یہ احساس پیدا ہوتا کہ دوسرے بچے جب وہ چیزیں استعمال کریں تو انھیں مشکل کا سامنا نہ ہو-  اور یہ کہ چیزیں جگہ سے اٹھا کر جگہ پر رکھنے سے وقت بھی بچتا ہے اور دوسروں کے لئے بھی آسانی پیدا ہوتی ہے- بعد میں یہی احساس وقت کی پابندی کی شکل اختیار کر لیتا ہے- 

٣- ادارے میں کسی بھی قسم کی مقابلہ بازی، امتحانات اور انعامات کی لالچ اور سزا کا خوف نہ تھا-  ماریا کے مطابق  بچہ اس قسم کے کسی بھی اخلاقی دباؤ کے بغیر اپنے سیکھنے کا عمل جاری رکھہ سکتا ہے- انکے خیال میں بچوں کو صرف اور صرف کام کرنے کے عمل کو اپنی کامیابی سمجھنے کی عادت ہونی چاہیے-  نہ کہ پری پروگرامڈ نصاب کے رٹے رٹاۓ نتیجے کو جس کے پیچھے لالچ اور خوف جیسی منفی محرّکات شامل ہوں- مونٹیسوری کا مقصد بچے کو زندگی کے لمبے امتحان کے لئے تیّار کرنا ہے نہ کہ چھوٹی چھوٹی سالانہ آزمائشوں میں ڈال کر اسکے ذہن اور شخصیت کو برباد کرنا- 

٤- آزادی، خود مختاری اور خود اعتمادی-  ادارے میں بچوں کو اجازت تھی کہ وہ جس وقت چاہیں اپنی مرضی کے میٹریل پر کام کر سکیں اور ان پر یہ پابندی بھی نہ تھی کہ کتنے وقت میں کرنا ہے اور کتنی مرتبہ کرنا ہے- اس سے ایک تو ان کی کام کرنے کی فطرت کا تقاضہ پورا ہو جاتا ہے- دوسرے انکے اندر کچھ اسکلز کی مہارت پیدا ہوجاتی ہے جو عام زندگی کو پرسکون اور آسان بنانے کے لئے ضروری ہیں- اور انکا چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے بڑوں پر انحصار کم سے کم ہوتا چلا جاتا ہے- اور اس سے ان کے اندر خود اعتمادی بھی پیدا ہوتی ہے اور چھوٹی چھوٹی کامیابیوں پر خوش ہونے کا احساس بھی- 

٥- ماریا مونٹیسوری چھہ سال تک کی عمر کے بچوں کی تعلیم و تربیت میں اساتذہ کے کردار کو سقراط کی تعریف کے مطابق "مڈوائف / دائی" تک محدود رکھنے کی قائل ہیں-  ادارے میں اساتذہ کا کردار ایک مددگار جیسا تھا جسے ایمرجنسی میں طلب کیا جاتا ہے-  یا اس وقت جب بچے کا دل چاہے اور وہ خود کسی بڑے کی توجہ کا طالب ہو-  یا بھر اس وقت جب بچے کو کسی نقصان کا خدشہ ہو- ورنہ بچوں کا بچوں کے ساتھہ میل جول اور سلوک انکی روحانی، اخلاقی، ذہنی اور جسمانی تربیت کے لئے کافی ہے-  البتّہ استاد یا استانی کو ایک بہترین ظاہری اور اخلاقی شخصیت کے طور پر بچوں کے سامنے پیش ہونا چاہیے- 

No comments:

Post a Comment