فیل ہونا نقل کرکے پاس ہونے سے بہترہے- اور فیل ہونے سے بہتر یہ طریقے ہیں جو آزمودہ بھی ہیں اور آسان بھی- بچوں کو اگر اس بات کی ترغیب دی جاۓ گھر اور اسکولوں میں تو نقل کے رجحان کو بہت حد تک روکا جا سکتا ہے-
اسکول کالجز کے طلباء میں نقل کا رجحان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اور اب تو بہت سے والدین، طلباء اور خود اساتذہ اور اسکول منجمنٹس بھی اسے کوئی اخلاقی جرم نہیں سمجھتے- اور اکثر والدین خود اسکی ترغیب بھی دے رہے ہوتے ہیں کہ اپنے دوست سے پوچھ لینا- دوستوں میں دوستی کی شرط بھی یہی ہوتی ہے کہ امتحان جیسی مشکل میں ساتھ دینا -
نقل کے رجحان کی وجوہات بہت ساری ہیں-
١) ہائی اسٹینڈرڈ تعلیم کے نام پر بچوں پر انکی عمر اور ذہنی اور جسمالی صلاحیت یا قابلیت سے زیادہ سلیبس کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے اور بچوں کی ذہانت کو جانچنے کے لئے ان کو مشکل مشکل سوالات اور مشقیں یاد کروائی جاتی ہیں- جبکہ وہ اپنے بڑوں اور اساتذہ کو کبھی اتنا پڑھتے لکھتے نہیں دیکھتے-
٢) جلدی کورس ختم کرانے کے چکّر میں تدریس کے غیر معیاری اور مشکل طریقے استعمال کئے جاتے ہیں- جب بچوں کو کچھ پڑھنے، لکھنے اور یاد کرنے میں مشکل ہوتی ہے تو وہ نقل کا سہارا لیتے ہیں-
٣) اساتذہ کا طلباء اور تعلیم سے بیزار رویہ ہونا- طلباء کے سوالات کے جوابات نہ دینا- ان سے روکھے پھیکے انداز میں بات کرنا- انکے مشاغل اور شخصیت میں دلچسپی نہ لینا-
٤) بچوں کو اپنے فیل ہوجانے کا خوف، بدنامی کا خوف- پابندیوں کا خوف-
٥) آۓ دن کے ٹیسٹ اور امتحانات کی وجہ سے سوالات جوابات کے رٹے لگانا جس کی وجہ سے ذہنی صلاحیتوں اور یاداشت پر برا اثر پڑتا ہے-
٦) ایک جیسا کورس اور ایک جیسے امتحانات کے پیپرز-
٧) گھروں میں نظم و ضبط اور گھر کے افراد کے درمیان تعاون کی کمی- گھروں میں تعلیمی ماحول کا نہ ہونا- گھروں میں غیر اخلاقی ماحول-
بچوں میں نقل کے رجحان کو کیسے روکا جا سکتا ہے-
١) پہلے تو اوپر بیان کی گئیں وجوہات کا سدّباب کیا جاۓ-
٢) دوسرے یہ کہ بچوں کو اسکول میں اس طرح مشقیں اور سوالات کرنے کی عادت ڈالی جاۓ کہ انکے جوابات ایک دوسرے سے مختلف ہوں- ایک مرتبہ بچے کو انفرادیت کی عادت پڑ جاۓ تو پھر وہ نقل کرنے کے بجاۓ اپنے ہی کسی طریقے کی طرف دھیان دیتا ہے جو اسے منفرد بنانے- انگلش اور اردو میں حروف سے الفاظ اور الفاظ سے جملے بناتے وقت ہر بچے سے مختلف الفاظ اور جملوں کا تقاضہ کیا جاۓ- مضمون، خط اور درخواست کے لئے ایک ہی جیسے عنوان کے بجاۓ ہر بچے کو مختلف عنوان دئیے جائیں- حتیٰ کہ اگر ممکن ہو تو امتحانات کے پیپرز بھی ہر بچے کے مختلف ہوں یا پھر سوالات آگے پیچھے کردئیے جائیں-
٣) بچوں کو اکثر اردو اور انگلش کے سوالات کے جوابات، الفاظ، جملے، مضمون، خط، درخواست اور گرامر یاد کرنے کو دے دی جاتی ہے- بڑوں کو یہ بات کیوں نہیں سمجھ آتی کہ بچوں کو نہیں پتہ کہ ان سب چیزوں کو یاد کیسے کیا جاتا ہے- انہیں بتانا پڑتا ہے- خود اس طریقے کو کر کے بچے کو سکھانا ہوتا ہے کہ دیکھو ایسے یاد کیا جاتا ہے- پہلے اسپیلنگ کو پانچ دس مرتبہ دیکھ کر پڑھو اور پھر پانچ مرتبہ بغیر دیکھ کے کہو اور پھر ایک مرتبہ لکھو اور دیکھو صحیح ہے کہ نہیں- شروع میں بچے کو الجھن ہوتی ہے پریشانی ہوتی ہے لیکن پھر وہ عادی ہو جاتا ہے- تھوڑے عرصے بعد بچے کو اتنی محنت نہیں کرنی پڑتی اور جلد اسپیلنگ یاد ہو جاتی ہے- بلکہ اگر بچے کی اس صلاحیت کی حوصلہ افزائی کی جاۓ تو وہ بغیر خود ہی شوق سے الفاظ اور جملے اور مختلف چیزیں یاد کر کر کے سناتے رہتے ہیں-
٣) بچوں کا سلیبس ہمیشہ انکی عمر اور ذہنی استعداد کے مطابق ہونا چاہئے اور طریقہ کار آسان اور جلد سمجھ میں آنے والا ہونا چاہیے- بچوں کو کورس کی کتابوں کا عادی نہیں بنانا چاہئے- بلکہ اسے کھلے مطالعے کی عادت ڈالنی چاہئے- تاکہ اسکے مطالعے کا شوق پروان چڑھے اور رٹے رٹاۓ جملوں پر انحصار کم سے کم ہوتا جاۓ-
٤) بچے کو کلاس میں اور گھر میں کام کرتے وقت اگر صحیح طریقے سے رہنمائی کی جاۓ اور اسکے ساتھ بیٹھ کر اسکے کام کو آسانی سے کرنے میں مدد کی جاۓ تو بچے وہ کام یا موضوع اس دن یا وقت کے حوالے سے یاد رکھتے ہیں- اور اسکا حوصلہ بڑھتا ہے-
٥) بچوں میں اگر شروع سے یہ عادت ڈال دی جاۓ کہ جو بات یا موضوع تمہیں سمجھ آگیا ہے اسے کم از کم دو اوربچوں کوسکھائیں- تو اس سے ایک تو بچے کی خود اپنی دہرائی ہو جاتی ہے دوسرے اس میں دوسروں کی مدد کا جذبہ پروان چڑھتا ہے- اور سب سے بڑھ کر کم عمری میں ہی تدریسی صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں-
بچوں کی شخصیت کا انحصار بچپن کے تجربات پر ہوتا ہے- اس لئے معاشرے اور ماحول کو بچوں کے لئے محفوظ، خوشگوار اور خوبصورت بنانا ہر با شعور فرد کا فرض اور اسکو قائم رکھنا حکومت کی ذمّہ داری ہے-
مجھے اس موضوع پر مضمون مل جاے گا۔۔اگر آپ کے پاس ہوگا۔۔
ReplyDelete