Sunday, 11 March 2018

کام کرنے کی صلاحیتیں

ہمارے معاشرے میں تعلیمی عمل کو زندگی کا حصّہ سمجھنے کے بجاۓ ایک دس، بارہ یا سولہ سالہ ہیبت ناک کاروائی بنا دیا جاتا ہے-  جس کے نتیجے میں بچوں کی فطری صلاحیتیں ختم ہو جاتی ہیں اور کچھ نافذ کردہ مہارتیں اور نظریات ان کی شخصیت کا حصّہ بن جاتے ہیں جو انہیں ایک خود مختار انسان بننے کی بجاۓ ایک غلامانہ سوچ رکھنے والا بے اختیار فرد بنا دیتے ہیں جس کے نزدیک پاکستان میں جو اچھا ہے وہ سب ناممکن اور پاکستان سے سب ممکن ہوتا ہے-  اور جو ہمیشہ دوسروں پر انحصار کرتا ہے اور دوسروں کو اپنی ناکامی کا ذمّہ دار ٹھراتا ہے- 

اسکی وجوہات میں سب سے بڑا حصّہ والدین کا ہے اور اسکے بعد اسکولنگ سسٹم کا ہے- جو بچوں کو کچھ اچھا کرنے نہیں دیتے بلکہ حوصلہ شکنی کرتے ہیں-  ڈراتے رہتے ہیں-  پھر تعلیم کے نام پر ہزاروں لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں لیکن زندگی گزارنے کے ہنر سکھانے پر ایک روپیہ اور ایک منٹ بھی صرف کرنا فضول سمجھتے ہیں-  اسکولوں کے لمبے لمبے اوقات ویسے ہی طلباء کے لئے عذاب ہو جاتے ہیں-  چوبیس گھنٹوں میں سے اگر آٹھ گھنٹے اسکول، دو گھنٹے مدرسہ اور دو گھنٹے ٹیوشن پڑھیں گے تو کب سوئیں گے اور کب کھیلیں گے-  اور کب اپنی عمرکے مطابق شوق پورے کریں گے- اور پھر تمام مضامین میں سو میں سے سو نمبرز بھی آنے ہیں- 

حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ امریکہ کی طرح بچوں کو تیرہ چودہ سال کی عمر سے ہی کچھ کچھ گھنٹوں کے لئے جاب کا عادی بنانا چاہئے تاکہ انہیں کام کر تجربہ ہو، لوگوں سے معاملات طے کرنا آسکیں، محنت کی عظمت کا اندازہ ہو، پیسہ کی اہمیت کا اندازہ ہو کہ کتنا مشکل ہوتا ہے دولت کمانا جسے والدین ایک اسکول اونر اور پرنسپل کو امیر کرنے پر خرچ کر دیتے ہیں- اسکے علاوہ بھی اسکے بے شمار فائدے ہیں-  

اور یہ کوئی مغربی طرز زندگی نہیں بلکہ خود ہمارے ملک میں کتنے بچے بغیر پڑھے لکھے مزدوریاں کر رہے ہوتے ہیں-  باہر ملکوں میں ایسے طلباء کو کریڈٹس دئیے جاتے ہیں انکی رپورٹ کارڈ میں- جبکہ ہمارے ہاں ایسے بچوں کو طعنے دئیے جاتے ہیں کہ پڑھنے میں دل نہیں لگتا اس لئے یہ کام کا بہانہ کر رہا ہے-  اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اس طرح صرف بیٹھ بیٹھ کر کورس کی کتابیں رٹنے کے نقصانات کتنے ہیں- ایک ٹین ایجر کا دل رسمی اور تھوپی گئی پڑھائی میں نہیں لگتا- اسے ایڈونچر چاہئے ہوتا ہے- چھوٹے چھوٹے خود کئے ہوۓ کاموں میں کامیابی کا احساس چاہئے ہوتا ہے- اس عمر کے بچے اپنی پہچان چاہتے ہیں- اور جب یہ سب انکو مل جاۓ تو تھوڑے عرصے بعد نارمل انسان بن کر زندگی کے مختلف شعبوں میں سنجیدگی سے حصّہ لیتے ہیں- اور اگر بچوں کو انکی عمر اور فطرت کے مطابق ماحول نہ ملے تو پھر وہ بڑے ہو کر الٹی سیدھی حرکتیں کرتے ہیں جیسے کہ اکثر انعامی شوز میں دیکھنے میں آتا ہے کہ تیس، چالیس، پچاس اور کبھی تو اس سے بھی زیادہ عمر کے لوگ ذرا سی گاڑی، سونا اور چھوٹے چھوٹے انعام کے چکّر میں احمقانہ حرکتیں کر کے بچوں کی طرح خوش ہورہے ہوتے ہیں- لگتا ہے پاکستان کی ساری سوشل سرگرمیاں صرف سٹوڈیوز تک محدود ہو گئی ہیں- 

الله سبحانہ و تعالیٰ نے انسان کو یعنی مردوں اورعورتوں دونوں کو مشقت کرنے والا بنایا ہے اور انکی فطرت میں جستجو رکھی ہے-  جب یہ فطرت پر پابندی لگائی جاتی ہے تو پھر اسکا غلط استعمال شروع ہوجاتا ہے-  خواتین اپنی جستجو کا دائرہ خاندان اور پڑوسیوں کر گھریلو حالات جاننے تک محدود کر دیتی ہیں- جبکہ لڑکے معاشرے کے غلط افراد کے ایکشن پلان کا حصّہ بن جاتے ہیں-  اس میں نشہ، لوٹ مار، چوری ڈاکہ جیسی چیزیں شامل ہو جاتی ہیں-  

کراچی جیسے بڑے اور مصروف شہر میں خاص طور پر لڑکوں کے لئے کوئی ایسی جگہیں نہیں جہاں وہ کم قیمت پر سائکلنگ، سکیٹنگ، سوئمنگ، کیمپنگ. فشنگ، ہارس رائیڈنگ، وغیرہ جیسی ایکتیوٹیز کر سکیں- اور جو جگہیں ہیں ان پر امیروں کی اولادوں کا قبضہ ہے کیونکہ وہاں داخلہ اتنا مہنگا کہ کوئی مڈل کلاس افورڈ ہی نہ کر سکے-  الله سبحانہ و تعالیٰ نے ان میں جتنی توانائی بھری ہے وہ کدہر نکالیں- پھر وہ پبلک پراپرٹیز خراب کرتے ہیں، توڑ پھوڑ کرتے ہیں، لوگوں کو تنگ کرتے ہیں-  پبلک پارکس کا حال سامنے ہے-  بہت سے پبلک پارکس کو ماربل کا استعمال کر کر ہے قدرتی کے بجاۓ شاہی باغ بنا دیا گیا ہے- 

اسکے علاوہ چودہ پندرہ سولہ سال کے لڑکے کچھ نہ کچھ کام کرنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ انکی فطرت ہے- وہ صرف اور صرف بیٹھ کر کورس کو رٹنا نہیں چاہتے-  کراچی میں کیوں لڑکوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی کہ وہ چودہ پندرہ سال کی عمر سے کچھ گھنٹے کام کر کے اپنے چھوٹے موٹے خرچے خود پورے کریں-  اتنے سارے بزنسز اور آفیسز ہیں-  اتنی ساری غیر سرکاری تنظیمیں اور خیراتی ادارے ہیں جہاں اچھا معیاری کام کرنے والوں کی ضرورت ہوتی ہے-  جب لڑکے خود کام کریں گے تو مزید اور بہتر کام کرنے کے مواقع بھی خود ہی تلاش کریں گے-  اور کرسی اور اے سی والے کمرے میں کام کرنے کے خوابوں سے باہر نکلیں گے-  کیونکہ ماسٹرز کے لیول کی ڈگری لینے کے بعد تو ان نو جوانوں میں چند گھنٹے کھڑے ہو کر کام کرنے کی ہمّت بھی نہیں رہ جاتی- انکی ڈگری جتنی بڑی ہوجاتی ہے، سوچ اور ہمّت اتنی ہی چھوٹی- 

No comments:

Post a Comment