Sunday, 18 February 2018

اساتذہ کی پیشہ وارانہ مہارت یا پروفیشنلزم

استاد کسے کہتے ہیں؟  

کیا ایک ایسا شخص جو طالبعلموں کو یہ کہے کہ کل گھر سے خود پڑھ کر آجانا- تو جو طالبعلم خود گھروں سے اور ٹیوشن سے پڑھ کر آئیں اور پاس بھی جو جائیں تو انہیں وہ ذہین طالبعلم کہہ کر تعلیم کا سہرا اپنے سر سجا لے اور اچھا ٹیچر کہلاۓ- اور جن طالبعلموں کے گھروں پر کوئی انکی مدد کرنے والا نہیں اور وہ ٹیوشن بھی افورڈ نہیں کر سکتے انہیں سزا ملے- اس بات کی کہ انکے والدین کیوں تعلیم یافتہ نہیں یا اتنے امیر کیوں نہیں کہ کوئی ٹیوٹر رکھوادیں- 

کیا ایک استاد یا استانی کی پیشہ وارانہ صلاحیتیں صرف ایک بی ایڈ اور ایم ایڈ کی ڈگری کی حد تک ہوتی ہیں؟  اسکے علاوہ اس میں کوئی اور خصوصیات نہیں ہونی چاہئیں؟ کیا ہمارے ہاں استادوں کو بتایا جاتا ہے کہ ڈگری کے علاوہ ان میں کون کون سی اسکلز ہونی چاہئیں؟

جس استاد یا استانی کو یہ احساس جو جاۓ کہ وہ پہلے انسان ہے بعد میں استاد یا استانی-  تو سب سے پہلے اسے اپنی شخصیت پر توجہ دینی چاہئے-  ایک استاد بےایمان، خائن،  لالچی، کام چور اور خودغرض نہیں ہو سکتا-  اگر اسے احساس ہے کہ اس کا کام بچوں کو "صفائی نصف ایمان ہے" کی تلقین کرنا ہے تو وہ جگہ جگہ پان اور گٹکا تھوکتا اور کوڑا پھیلاتا نہیں پھرے گا-  چھینکتے اور کھانستے وقت اسکے ہاتھ میں ٹشو تو ہوگا جسے وہ منہ اور ناک پر بھی رکھے گا-  ہواؤں میں چینکتا اور کھانستا نہیں پھرے گا-  ایسے چلے گا کہ جوتوں سے آواز نہ نکلے-  منہ بند کر کے کھانا کھاۓ گا-  کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ بھی دھو لے گا-  جہاں سے اٹھے وہاں چیزیں بہتر ہوچکی ہوں-  اسکی شخصیت سے لے کر جہاں جہاں وہ جاۓ گا ایک ترتیب، تہذیب اور نظم و ضبط نظر آۓ گا-  وقت کا پابند ہوگا-  اس کے طالبعلم اسے دیکھ کر گھڑی اور وقت کی اہمیت کا اندازہ لگا لیں گے-  ایک آدمی یا عورت جو اپنے طالبعلموں کے لئے انکی پسندیدہ شخصیت ہو- 

استاد کا تعلق علم سے ہوتا ہے تو ایسا لگے بھی تو کہ وہ ایک علم دوست شخص ہے- جس کی باتوں سے کتابوں کی خوشبو آتی ہے-  اور طالبعلموں کو یہ محسوس ہو کہ طالبعلم ہونا اتنی بڑی سعادت ہے کہ انکا استاد ابھی تک خود کو طالبعلم ہی تصوّر کرتا ہے اور علم کی کھوج میں لگا رہتا ہے-  جو طالبعلموں کو فخر سے سال میں دو کتابوں کے نام تو بتا سکے جو اس نے شوق سے پڑھی ہوں- اسے یہ فکر ہونی چاہئے کہ میرے طالبعلموں نے مجھے کتنی مرتبہ لائبریری میں دیکھا اور کتنی مرتبہ میرے ہاتھ میں کوئی کتاب دیکھی-  اور یہ کورس کی کتابیں نہیں ہونی چاہئیں-  بلکہ کورس کی کتابیں ہونی ہی نہیں چاہئیں-  

استاد کا تعلق طالبعلموں سے ہوتا ہے لہٰذا اسے علم کے ساتھ ساتھ علم کی طلب کرنے والوں کا دوست بھی ہونا چاہئے-  نہ کہ انہیں خوف دلانے والا ایک ظالم شخص-  طالبعلموں کو یہ محسوس ہو کہ انکا استاد امید کی وہ کرن ہے جس کے پاس انہیں بہت سے مسلوں کا حل اور کامیاب زندگی کا راستہ مل جاۓ گا- استاد کو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اس کے طالبعلموں میں سے کون بڑے ہو کر کیا بنے گا-  لہٰذا اسے تو زندگی کے مشاہدات اور تجربات اور زندگی کی مجموعی مہارتوں کا منبع ہونا چاہئے-    

رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے فرمایا 
اعمال کا دارو مدار نیّتوں پر ہے-  

نیّت اچھی ہو تو کام آسان ہو جاتے ہیں-  اساتذہ کو اپنا احتساب خود کرنا چاہئے کہ وہ اسکول میں کتنا وقت کیسے گزارتے ہیں-  کیا وہ وقت پر آتے جاتے ہیں یا صرف آنے جانے کی ہی فکر ہوتی ہے-  کلاس کے تیس پینتیس منٹ کے وقت میں وہ یہ سوچتے ہیں کہ کیا پڑھانا اور لکھانا ہے یا وقت ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں-  ان پر کسی انچارج اور پرنسپل کی نہیں بلکہ خود انکے اپنے ضمیر کی نظرہونی چاہئے-  پڑھانا پیشہ نہیں مشن ہونا چاہئے-  اور مشن میں سلیبس اور کرکیولم نہیں بلکہ اخلاص نیّت، محنت اور مسلسل مہارت حاصل کرنے کی تگ و دو کام آتی ہے-  اور اس تمام محنت کی جزا کی امید والدین یا اسکول انتظامیہ سے نہیں بلکہ الله سبحانہ و تعالیٰ سے رکھنی چاہئے-  

بنیادی تعلیم کاروبار نہیں ہے- جس کا مقصد تعلیمی مرحلے کے پہلے دس سال-  لہٰذا کم از کم بنیادی تعلیم کے شعبے سے متعلق اساتذہ کو اسے عبادت اور ذمّہ داری کی نظر سے ہی دیکھنا چاہئے-  ٹیوشن اور کوچنگ کا کاروبار چلانے کے لئے اسکولز اور کالجز کے تدریسی عمل میں خرابیاں پیدا کرنا-  سراسر بدعنوانی ہے-  پڑھانے اور سمجھانے کے بجاۓ انہیں تیّار کردہ نوٹس بیچنا-  سراسر بے ایمانی ہے-  

لیکن اساتذہ بھی کیا کریں-  وہ بھی اسی گلے سڑے معاشرتی نظام کی پیداوار ہیں-  کسی اور کی تعلیم و تربیت کی فکرکیا کریں گے-  سب نہیں لیکن اساتذہ کی اکثریت پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے محروم ہی نہیں بلکہ صلاحیتوں کے احساس محرومی سے محروم اوراحساس جرم سے بھی محروم ہے-  اساتذہ کی تربیتی ادارے، حکومت، تعلیمی بورڈز بھی اس سلسلے میں بے بس اور لاچار ہیں-  اور یہ سب ایک کاروباری سلسلے کے سوا کچھ نہیں-  

کوئی تعلیمی چینل بھی تو نہیں جو اساتذہ کو پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی تربیت دے سکے-  اور انہیں انکے انسان ہونے کا احساس دلاسکے-  

No comments:

Post a Comment