Sunday, 18 February 2018

انگریزی زبان

انگریزی بھی ایک عجب زبان ہے- جب تک بچے انگریزی نہ بولیں نہ والدین کو تسلّی ہوتی ہے کہ وہ کچھ سیکھ رہے ہیں اور نہ ہی اسکول والوں کو یہ اطمینان ہوتا ہے کہ وہ کچھ پڑھا رہے ہیں-

بچوں کے لئے انگریزی سیکھنا جتنا شدید ترین مسلہ ہے- اسکولز کے لئے انگریزی سکھانا اتنا ہی بدترین مسلہ ہے- اور سکھانی بھی ہے انگریزوں کے طریقوں سے-  انگریزوں کی تو وہ مادری زبان ہے اس لئے انکے تعلیمی ادارے گرامر پرجلد اور زیادہ توجہ دینے لگ جاتے ہیں-  لیکن جن ملکوں کی مادری اور قومی زبان انگریزی نہیں وہ اس طریقے سے نہیں پڑھا سکتے-  یہ بات یہاں کسی کو سمجھ نہیں آتی- بدقسمتی سے اگر ایک اسکول کسی نہ کسی طرح اپنے طالبعلموں کو انگریزی لکھنا پڑھنا اور بولنا سکھادے توسارے کے سارے اسکول اس کے مقابلے میں آجاتے ہیں- ویسا ہی سلیبس، ویسا ہی کرکیولم، ویسا ہی کورس- 

پرائمری لیول پر پہلی اور دوسری جماعتوں میں ہی بچوں کو انگریزی میں مذکّرمؤنث، واحد جمع، الفاظ کی ضد، ہم آواز الفاظ، ہم معنی الفاظ، اسم، فعل، صفت، سب کچھ سکھانے کی کوشش کی جاتی ہے یہاں تک کہ مضمون یاد کرواۓ جاتے ہیں- اور دوسری تیسری جماعت تک پہنچتے پہنچتے اس میں درخواست، کہانیاں اور تقریریں بھی شامل ہو جاتی ہیں جو کہ اکثر بچے گھروں سے لکھوا کر لا رہے ہوتے ہیں-  اور بچوں کو کچھ سمجھ نہیں آرہا ہوتا- 

کراچی کے تعلیمی اداروں میں سال کے تین سو پینسٹھ دنوں میں سے بمشکل ڈیڑھ سو دن پڑھائی ہوتی ہوگی- پہلی اور دوسری جماعتوں میں انگریزی کے نصاب سے اگر کورس کی کتابیں اور گرامر نکال دی جاۓ تو بچوں کی زندگی بھی آسان ہو جاۓ اور انگریزی سیکھنا بھی- پہلی اور دوسری کلاس میں صرف انگلش قصّے کہانیاں، سچے واقعات پر مبنی اور معلوماتی کتابیں ہونی چاہئیں-  جیسے کہ مونٹیسوری طریقہ تعلیم میں ہر کلاس میں ایک 'بک کارنر' ہوتا ہے جہاں بہت سی کتابیں رکھی ہوتی ہیں تاکہ بچہ جس وقت دل چاہے ان کتابوں کا مطالعہ کرے-  سال کے ڈیڑھ سو دنوں میں بچے جتنی کتابیں پڑھ سکتے ہیں پڑھیں-  ساتھ ساتھ انکے الفاظ کی اسپیلنگ اور معنی یاد کرتے جائیں-  کتابیں آسان ہوں-  کہانیاں مختصر ہوں تاکہ سمجھ آجائیں اور واقعات کی ترتیب اور تسلسل سمجھ اسکے-  الفاظ عام فہم ہوں جنہیں بچے ادا کر سکیں، یاد کر سکیں اور اپنے جملوں میں استعمال کر سکیں-  پہلی اور دوسری کلاس کے تین سو دنوں میں اگر بچے سو چھوٹی بڑی کہانیاں پڑھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور ان کو سمجھ بھی جاتے ہیں تو یہ ان بیکار بے فائدہ کورس کی کتابوں سے بہتر ہے جن کو پڑھ پڑھ کر بچے فیل ہو رہے ہوتے ہیں- 

اس طریقہ تعلیم سے ان دو سالوں میں طلباء کو کیا فائدہ ہوگا- 

١) بچوں میں بیزاری سے کورس کی کتاب جو کہ سب کے پاس ایک جیسی ہوتی ہے، اسے رٹنے کے بجاۓ مطالعے کا شوق بڑھتا ہے اور وہ نئی نئی کتابیں ڈھونڈنے لگ جاتے ہیں-  

٢) اسی شوق میں بچے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لئے بغیر کس نصیحت اور ڈانٹ ڈپٹ کے زیادہ سے زیادہ کتابیں پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں-  

٣) تفہیم کے پہلے درجے میں بچے جتنی زیادہ کتابیں پڑھتے ہیں اتنا ہی انکے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ بہت سے الفاظ بار بار ہر کتاب میں دہراۓ گۓ ہوتے ہیں جننہیں وہ آہستہ آہستہ اپنی گفتگو میں استعمال کرنے لگتے ہیں- اور جو الفاظ نۓ ہوتے ہیں تو تحریر کو سمجھنے کے لئے بچے بار بار ان کا مطلب پوچھتے ہیں- 

٤) تفہیم کے دوسرے درجے میں الفاظ کے ساتھ ساتھ اسم، فعل، صفت، مذکّر مؤنث، واحد جمع، الفاظ کی ضد، ہم آواز الفاظ، ہم معنی الفاظ، جملوں اور زمانوں کی ترکیب بھی غیر شعوری طور پر انکے دماغوں میں جذب ہو رہی ہوتی ہے-  ماضی، حال اور مستقبل کے جملوں کا استعمال غیر ارادی طور پر انکو سمجھ آنے لگتا ہے- 

٥) تفہیم کے تیسرے درجے میں کردار اور حالات و واقعات کا تسلسل اور ترتیب سمجھ آنے لگتی ہے-  جس سے آگے جماعتوں میں کردار سازی اور مختلف انداز تحریر تخلیق کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے- 

٦) بچے جب کوئی دلچسپ کتاب پڑھتے ہیں یا کوئی انوکھی معلومات انھیں ملتی ہے تو وہ ضرور اسے دوسروں سے شیئر کرتے ہیں- اور یہ عمل اگر ایک تسلسل کے ساتھ ہو تو کمیونیکیشن اسکلز یا انداز بیاں بہتر سے بہتر ہوتی جاتی ہیں-  

٧) مختلف موضوعات کی کتابوں کے ذریعے بچوں کا رابطہ پوری کائنات سے جڑ جاتا ہے-  اور انکی امیجینیشن یا تخیلاتی صلاحیتیں یا سادہ الفاظ میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں اجاگر ہوتی ہیں-  وہ کتابیں جن جن ملکوں اور علاقوں میں لکھی گئی ہوتی ہیں ان میں ان علاقوں کے قدرتی مناظر کی عکّاسی کی گئی ہوتی ہے-  اور اکثر میں پھرملکوں ملکوں گھومنے پھرنے کا جذبہ ابھرتا ہے-  

٨) بچوں میں انسانی ہمدردی اور سوچ کی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے-  بچے سوچنے لگ جاتے ہیں کہ دنیا کے سارے انسان ہماری ہی طرح ہیں- ان میں خوشی، غمی، دکھ، کامیابی، ناکامی جیسے جذبات ایک ہی طرح محسوس کئے جاتے ہیں- انکے بھی عقائد ہیں- یہ بھی تہوار مناتے ہیں-  ان کے بھی خاص رسم و رواج ہیں- 

٩) قصّے کہانیوں اور سچّے واقعات میں بچوں کو اخلاقیات کا درس بھی خود بخود ملتا جاتا ہے-  اور اچھی بری خصوصیات والے کرداروں کی صفات انہیں انگریزی میں سمجھ آنے لگتی ہیں-  ان میں تعریفی اور تنقیدی انداز بیان کا فرق واضح ہوتا ہے- 

١٠) سب سے بڑا فائدہ اس طریقہ میں یہ ہے کہ بچے خوشی خوشی کتابیں پڑھتے ہیں- بغیر کسی ڈانٹ ڈپٹ، لیکچر اور نصیحتوں کے- 

اس عمر کے بچوں کی تحریری صلاحیتوں کے معاملے میں بھی بہت زیادہ بوجھ ڈالنے سے احتیاط برتنی چاہئے-  زیادہ سے زیادہ یہ کریں کہ انہیں کوئی پیراگراف نقل کرنے کے لئے دے دیں جس سے انکی آئی ہینڈ کوآرڈینیشن بہتر ہوتی ہے-  اسپیلنگ ٹیسٹ لے لیں-  جملے لکھوا لیں- ڈکٹیشن لے لیں- اور اس سے زیادہ کرنا ہو تو تھوڑے بہت آسان ترین سوال جواب اور کسی ایک چیز کے بارے میں تین چار جملے لکھوا لیں-  سب انگریزی میں- اس سے زیادہ کی صلاحیت بچے میں خود نظر آۓ گی اور وہ اسکا اظہار بھی کرے گا-  البتّہ جن باتوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے وہ یہ ہیں کہ کاپی پر مارجن ضروری ہو-  تاریخ لکھے-  لائن پر لکھے- فل اسٹاپ اور دیگر قوائد کا خیال رکھے- وغیرہ وغیرہ 

اسی طرح پہلی اور دوسری کلاس تک امتحانات سے گریز کرنا چاہئے-  اتنے چھوٹے بچوں کو امتحانات کے چکّروں میں ڈال کر کیا حاصل ہوتا ہے-  سواۓ اس کے کہ وہ تعلیم سے بیزار ہو جاتے ہیں-  فیل ہونے کا خوف ان پر سوار رہتا ہے-  فرسٹ آجائیں تو پھر تو ہر سال یہی پوزیشن چاہئے امّاں ابّا کو-  کم سے کم مضامین ہوں- اور کم وقت میں پڑھاۓ جائیں-  ہوم ورک آسان ہو اور کم ہو-  

ماہر تعلیم اور تعلیم کے شعبے سے وابستہ تمام افراد کی ترجیحات مغربی نصاب سے متاثر ہو کر فانکس، گرامر اور دوسرے مروجہ طریقوں کا نفاذ نہیں بلکہ ایسا طریقہ تعلیم وضع کرنا ہونا چاہئے جس سے یہ زبان با آسانی سمجھ اسکے- اور بچوں کے معصوم ذہنوں پر بوجھ کم سے کم ہو-  

No comments:

Post a Comment