بچوں میں اردو یا انگریزی زبان کے الفاظ کی جوڑ توڑ سمججھنے کے لئے اور یہ ذہن نشین کرنے کے لئے کہ کون سا لفظ کن الفاظ سے ملکر بناتا ہے 'سپیلنگ بی' یا 'الفاظ کی ہجوں کا کھیل یا مقابلہ' ایک بہت پرانا لیکن بہترین طریقہ ہے- اسی طریقے کا تحت ہمارے بچپن میں ہمیں پڑھنا بھی سکھایا جاتا تھا- یہ طریقہ صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ دنیا کے بہت سے ملکوں میں سالوں سے اختیار کیا جاتا رہا ہے اور آج بھی مقبول ہے-
آج کل جس قسم کا تعلیمی نصاب تیار کیا جاتا ہے اس میں کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لکھائی پڑھائی پر زور دیا جاتا ہے اور بچوں کو بچوں کے بجاۓ بڑوں کے موضوعات اور اگلے سے اگلے درجوں کے اسباق پڑھنے اور سمجھنے کے لئے دے دیے جاتے ہیں- جو کہ بچوں کے لئے شدید ذہنی دباؤ اور پریشانی کا باعث تو بنتا ہی ہے لیکن ساتھہ ساتھہ انکے روحانی اور نتیجتا جسمانی نظم و ضبط میں بگاڑ بھی پیدا کرتا ہے اور بچے اس کا اظہار بدتمیزیوں، جھوٹ، ضد اور نافرمانی کی صورتوں میں کرتے ہیں-
بچوں میں پیدائش کے بعد عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ قدرتی طور پر ایک قسم کا روحانی نظم و ضبط بھی پروان چڑھ رہا ہوتا ہے- اس نظم و ضبط کے تحت وہ اپنے ارد گرد کے ماحول کو پرسکون دیکھنا چاہتے ہیں، ہر شے تک پہنچنے کی جستجو کرتے ہیں- چیزوں کو چھونے اور چکھنے کے نتیجے میں اپنے تجربات سے جو اچھا یا برا سیکھتے ہیں اسی سے ان کی ذہنی پرورش ہوتی ہے- لیکن یہ نظم و ضبط ارد گرد کے ماحول سے بہت زیادہ متاثر بھی ہوتا ہے- ماحول کے عناصر میں بے ترتیبی انکی شخصیت میں غیر ذمہ داری، بیزاری اور کاہلی پیدا کردیتی ہے جسکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچہ اپنے ماحول سے مایوس اور غافل ہوتا چلا جاتا ہے- جبکہ ماحول میں ترتیب اور جمالیات بچے کو نہ صرف ذہنی سکون فراہم کرتی ہے بلکہ ذہنی اور جسمانی طور پر اسکی شخصیت متوازن رہتی ہےاور وقت کے ساتھہ ساتھ اسے ناپسندیدہ اور مشکل حالات میں جینے کے سلیقہ بھی پیدا کرتی ہے- لہذا ابتدائی نصاب تیار کرتے وقت بچے کی روحانی تربیت کا بھی خیال رکھنا چاہیے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب بچے کا تعلیمی ماحول اسکی عمر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو-
جہاں تک الفاظ کی ہجے اور جوڑ توڑ کا تعلق ہے تو یہ ترکیب بچے کے لئے پریشانی کا باعث نہیں بنتی کیونکہ بچے کا مزاج چھوٹی عمرمیں چیزوں کی جوڑ توڑ کا ہی ہوتا ہے- اس ترکیب کی ابتداء ان الفاظ سے کرنی چاہیے جو حروف کی مکمل اشکال سے بنتے ہیں- اور اس کا طریقہ بھی تصوراتی نہیں بلکہ حقیقی ہونا چاہیے- مطلب یہ کہ بچے کو اسم خیالی/ معنوی یعنی آرزو، ارادہ، آزردہ، روزہ دار قسم کے الفاظ دینے کے بجاۓ وہ الفاظ دیے جائیں جنھیں وہ عام زندگی میں دیکھ، چھو، چکھہ، سن اور محسوس کرسکتے ہوں یا انکی تصویر دکھائی جا سکتی ہو- جیسے کہ آم، آڑو، اروی، ادرک، زردی، اذان، آواز، درد، دوا، دن، رات، درزی، درزن، دودھ، دروازہ، داغ، ڈال، اون، ورق، داڑھ، ڈوری، ڈورا وغیرہ- اور پھر اسباق کی ترتیب کی مناسبت سے اس ترکیب کو آگے درجات تک بڑھانا چاہیے- یہی طریقہ انگریزی زبان کے الفاظ کے لئے بھی ہونا چاہیے- فرق صرف اتنا ہے کہ انگریزی زبان کے الفاظ میں حروف الگ الگ اور مکمل ہی لکھے جاتے ہیں لہذا ابتداء کے لئے تین یا چار حرفی الفاظ کی 'سپیلنگ بی' ہونی چاہیے اور پھر اس سلسلے کو پانچ، چھہ اور کئی حرفی الفاظ تک آگے بڑھانا چاہیے-
اس کا طریقہ کار شروع میں اس طرح کا ہونا چاہیے کہ جن الفاظ کی ہجے سکھانا درکار ہو اسکی تصویر بھی بچے کو دکھائی جاۓ- اسکے لئے تین انچ مربع کے کارڈز بنا کر انکے ایک طرف تصویر بنائی یا چپکائی جاۓ اور دوسری طرف وہ لفظ لکھ دیا جاۓ تاکہ بچہ پلٹ کر دیکھ سکے- بعد میں اسے پلٹ کر دیکھنے کی ضرورت نہیں رہے گی کیونکہ اسے حروف یاد ہو چکے ہوں گے-
نیچے دی گئی تصویروں میں سے پہلی تصویر پر ایک طرف چیزوں کی تصویر ہے اور دوسری تصویر میں ان کے پیچھے کی جانب لکھے گۓ حروف اور نام ہیں-
No comments:
Post a Comment