Friday, 24 January 2014

Introduction to Urdu Grammar in Elementary Classes - اردو قواعد


جو بھی زبان جس زمانے میں بولی گئی وہ کسی قاعدے کے تحت بولنا شروع نہیں کی گئی- قاعدے تو ہر زبان کے اہل علم لوگوں نے دریافت کیے- صرف بولنے کے لئے تو کسی زبان کے قاعدے قوانین سیکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی-  اس کی ضرورت ہوتی ہے تحریری صلاحیتوں کے لئے-  کچھ بھی لکھنے کے لئے یہ جاننا ضروری ہوتا ہے کہ تقریر کا کون سا حصہ کہاں آۓ گا تاکہ پڑھنے والے کو بات سمجھ آجاۓ-  خط، درخواست، دعوت نامہ، رسید، مضمون، کہانی، تشریح، وضاحت، نظم - یہ سب ہی تحریر کی مختلف شکلیں ہیں- لیکن بچہ ان سب تو شاید پڑھنا تو جلدی سیکھ لے لیکن خود سے لکھ نہیں سکتا جب تک ان تمام قسم کی تحریروں کے کم از کم بیس پچیس نمونے دیکھ اور پڑھ نہ لے-  بچوں کو قواعد سکھانے کا کیا مطلب ہے؟  زبان تو بچہ پیدا ہوتے ہی آس پاس کے ماحول سے سیکھنا شروع کر دیتا ہے-  اگر ڈھائی تین سال کی عمر میں اسکول جانا شروع کردے تو پھر حروف تہجی اور نہ صرف الفاظ بنانا بلکہ مرکبات اور جملے بنانا بھی سیکھ لیتا ہے-  پہلی دوسری جماعت میں بھی ذخیرہ الفاظ اور پڑھنے لکھنے کی صلاحیت پر ہی زور دینا چاہیے- بچے کے اندر یہ سمجھ کہ فلاں لفظ اسم ہے تو فلاں فعل ہے جب شروع ہوتی ہے جب وہ بہت سی کہانیاں اور نظمیں سن اور پڑھ چکا ہو اور ان میں بیان کے گۓ واقعات کی سمجھ بھی ہو- اس وقت اگر اسے تقریر کے حصے سکھاۓ جائیں تو اس کے ذہن میں اتنے الفاظ جمع ہو چکے ہوں گے کہ وہ با آسانی مثالیں سمجھ بھی سکتا ہے اور دے بھی سکتا ہے-  تیسری جماعت کا بچہ آٹھہ یا نو سال کا ہوتا ہے-  یہ ہو سکتا کہ کوئی بچہ چھ سات سال کی عمر میں ہی قواعد سمجھ لے- لیکن ہر بچے سے یہ توقع رکھنا اور پھر اسے ایک معیار بنا دینا درست نہیں- خالی خولی تعریفیں اور مثالیں رٹوانے سے کوئی فائدہ نہیں- 

تیسری جماعت تک پہنچتے پہنچتے بچے کو کارڈز کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ وہ کافی حد تک پڑھنا لکھنا سیکھ چکا ہوتا ہے اور کارڈز کے ذریعے پڑھنا یا جملے بنانا اسے اپنی رفتار میں رکاوٹ محسوس ہوتا ہے- جو کہ ایک اچھی علامت ہے-  اس عمر کے بچے کو قواعد سکھانے کے لئے البتہ ایک فہرست بنا کر دی جا سکتی ہے- اور فہرست کے لئے مختلف رنگوں کی چارٹ شیٹ کو استعمال کیا جاسکتا ہے- مثال کے طور پر اسم کے لئے گلابی، فعل کے لئے نیلے اور صفت کے لئے سبز-  بچہ رنگوں کے حوالے سے انھیں یاد رکھہ سکتا ہے-  اس درجہ پر اسم، فعل اور صفت کی پہچان کافی ہے- 


بچے کو سکھانے کے لئے یہی تعریف کافی ہے کہ اسم ہر چیز کے نام کو کہتے ہیں-  اور آس پاس کی سینکڑوں چیزوں سے اسکو مثالیں دی جا سکتی ہیں- پانی، فرش، دیوار، کتاب، ہاتھ، منہ، دروازہ، کھڑکی، برتن، آئینہ، جوتے، الماری، میز، کرسی، لڑکی، لڑکا، بچے وغیرہ- اسم کو بہت سی قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے-  مثلا اسم ذات، اسم علم، اسم  جامد، اسم خیالی/ معنوی، اسم مجموعہ، اسم معرفہ، اسم نکرہ، اسم مصدر، اسم مشتق، اسم  ضمیر،اسم اشارہ، اسم صفت،اسم آلہ،  اسم صوت، اسم ظرف، وغیرہ- انسان، آزادی، گاۓ، لکھائی،  لکھنا، قینچی، مصور، یہ، وہ، میاؤں میاؤں ، قائداعظم، کتاب، گروہ - یہ سارے اسم بچہ پڑھ تو سکتا ہے لیکن ان کی قسموں کا تعین نہیں کر سکتا- لہذا بہتر ہے کہ اس درجے میں بچے کو یہی بتایا جاۓ کہ اسم کیا ہوتا ہے- 

اس تصویر میں دائیں جانب والی فہرست میں اسم عام اور بائیں جانب والی فہرست پر اسم خاص ہیں- 


عربی زبان کی طرح اردو میں بھی مصدر سے کئی فعل بنتے ہیں- مثال کے طور پر 'آنا' مصدر ہے اور اس سے بننے والے فعل کتنے ہو سکتے ہیں- 
آنا  آ  آؤ  آئیے   آئیں آیا  آئی   آۓ   آئیں
آگیا  آگئی  آگۓ 
آچکا  آچکی  آچکے  آچکو   آچکوں آچکیں
آتا   آتی  آتے  آتیں  آرہا  آرہی  آرہے آرہیں
آۓ گا   آۓ گی   آئیں گے    آئیں گی
آسکا   آسکو   آسکی   آسکے  آسکوں  آسکیں
آسکتا  آسکتی  آسکتے   آسکتیں

اسی طرح 'پڑھنا' مصدر ہے اور اس سے بننے والے فعل ہیں
پڑھنا  پڑھ  پڑھو  پڑھیں  پڑھیے  پڑھا  پڑھی  پڑھے  پڑھیں
پڑھ لیا   پڑھ لی   پڑھ لئے  پڑھ لیں
پڑھ چکا  پڑھ چکی  پڑھ چکے  پڑھ چکو   پڑھ چکوں   پڑھ چکیں
پڑھتا  پڑھتی  پڑھتے  پڑھ رہا  پڑھ رہی   پڑھ رہے   پڑھ رہیں
پڑھے گا  پڑھے گی  پڑھیں گے   پڑھیں گی  پڑھو گے
پڑھ سکا   پڑھ سکی   پڑھ سکو   پڑھ سکے   پڑھ سکیں    پڑھ سکوں
پڑھ سکتا  پڑھ سکتی   پڑھ سکتے    پڑھ سکتیں

پہلی یا دوسری جماعت کا بچہ ان تمام افعال کو پڑھ تو سکتا ہے لیکن اس کے لئے یہ بات سمجھنا کہ یہ سب فعل ہیں اور ان میں کون سے زمانے پاۓ جاتے ہیں کافی مشکل ہو سکتا ہے- لہذا فعل سکھانے کا طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ مصادر کی ایک فہرست تیار کر کے بچے کو دی جاۓ کیونکہ مصدر میں کوئی زمانہ نہیں پایا جاتا- اور اس درجہ میں زمانہ جاننے کی ضرورت بھی نہیں-  اور اسکو اتنی تعریف بتادی جاۓ کہ کوئی بھی کام جو تم کرتے ہو وہ فعل ہوتا ہے- جیسے کہ آنا، جانا، لکھنا، پڑھنا، بھاگنا، چڑھنا، کھانا، پینا، کھیلنا، وغیرہ- اکثر بچوں کو دس بارہ جملے دے دیے جاتے ہیں کہ ان میں فعل ڈھونڈیں- ان جملوں میں فعل مختلف زمانوں کا اظہار کررہا ہوتا ہے جیسے کہ ماضی، حال، مستقبل، استمراری، امر وغیرہ-  اکثر بچے فعل کی اس تقسیم کو سمجھ بھی نہیں پاتے- لہذا یا تو ایک وقت میں ایک ہی زمانہ سکھائیں اور اسی کی اچھی طرح مشق کرائیں اور پھر دوسرے زمانے پر جائیں- یا پھر مصدر کے ذریعے ہی سکھائیں-  اور بچے کے اگلے درجے میں پہنچنے کا انتظار کریں- 



بچے جب بولنا شروع کرتے ہیں اس سے بھی پہلےغیرارادی اورغیر شعوری طور پر صفت کو جانتے ہیں لیکن اس کی تعریف سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں-  چھوٹا سا بچہ بھی نیا، بڑا، میٹھی، زیادہ، رنگین چیزوں کو پسند کرتا ہے اور اسی کا مطالبہ کرتا ہے-  حالانکہ اسے یہ سمجھ نہیں ہوتی کہ وہ 'صفت' کی بنیاد پر چیزوں کو پسند کر رہا ہے-  سات آٹھہ سال کا بچہ البتہ تھوڑی سی کوشش سے جلد ہی صفت کا مطلب جان سکتا ہے- مثال کے طور پر ایک کھلونا گاڑی بچے کے سامنے رکھیں اور اس سے کہیں کہ اس کے بارے میں بتاؤ کہ یہ کیسی ہے-  اور ایک صفحے پر وہ الفاظ لکھتے جائیں- فرض کریں بچے نے کہا کہ یہ گاڑی سفید ہے، چھوٹی ہے، صاف ہے، نئی ہے-  اس طرح چار صفات یعنی 'سفید، چھوٹی، صاف اور نئی' کاغذ پر لکھ لیں اور بچے کو بتائیں کہ یہ چاروں الفاظ یا کلمات صفت ہیں کیونکہ یہ گاڑی کا نام یا کام نہیں بلکہ اس کے بارے میں بتاتے ہیں کہ یہ کیسی ہے- اسی طرح بچے سے پوچھیں کہ تمہارا گھر کیسا ہے اور وہ ان الفاظ کو کاغذ پر لکھ سکتا ہے- بچے کو کچھ اور چیزیں دے کر اس کی مشق کروائی جا سکتی ہے- اکثرعملی کتابوں میں ایک تصویر بنی ہوتی ہے اور اسکے ارد گرد کچھ سطریں بنی ہوتی ہیں جن پر بچوں کو اس تصویر کے بارے میں لکھنا ہوتا ہے-  اسی طرح وہ تصویر کی صفات بھی لکھہ سکتے ہیں- 








No comments:

Post a Comment