Thursday 30 January 2014

بچوں کی تعلیم کے لئے کن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے؟



بچوں کی تعلیم کے لئے کن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے؟ کسی سے انفرادی طور پر پوچھیں یا اک بحث و مباحثے کی محفل سجا لیں- مادّی اور معنوی اشیاء کا ڈھیر گنوا دیا جاۓ گا اور اسکے جسمانی، روحانی، معاشرتی اور بین الا قوامی اثرات بیان کرتے کرتے صدیاں بیت جائیں گی- یہاں تک کہ یہ بچے بڑے ہو جائیں گے اور پھر وہ اپنے بچوں کے لئے اسی بحث کا حصہ بن جائیں گے-  اور ساری کی ساری بحث کا محور یا تو دینی محرکات ہوں گے یا پھر مغربی دنیا کی ترقی (جو پتہ نہیں کیا چیز ہوتی ہے)-

پیدائش سے لے کر بارہ سال تک کے بچوں کی تعلیم و تربیت پر جتنا زور دیا اور لگایا جاتا ہے اگر اتنا زرو بالغ ماں باپ اور  اساتذہ اپنی تعلیم و تربیت پر لگائیں تو بچے ان کو دیکھ کر ہی وہ کچھ سیکھ جائیں جو وہ اپنی چودہ سولہ سالہ تعلیم میں نہیں سیکھتے- مثال کے طور پر یہ کہ انکے والدین اور اساتذہ کو بھی کتابوں اور پڑھنے لکھنے سے دلچسپی ہے- 

بچے کو تعلیم دینے کا مقصد اسے محتاج بنانا نہیں بلکہ آزاد اور خود مختار بنانا ہے-  تاکہ کم از کم اپنی زندگی خود گذار سکے، اپنے اعمال کا خود زمہ دار ہو اور دوسروں پر کم سے کم انحصار کرے- اور اسکے لئے پڑھنے، لکھنے اور گننے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ ہنر بھی ضروری ہے- 

بچے کی دس بارہ سال تک کی تعلیم کو اگر آسان، ترتیب وار اور متوازن بنادیا جاۓ تو بچہ آگے کے مراحل خود طے کرنے لگتا ہے- 

پیدائش سے لیکر نو دس سال تک کے بچے کی تعلیم کے لئے صرف ماحول کی ضرورت ہوتی ہے- 
١- ایک ایسا ماحول جس میں مکھیوں اور مچھروں کو برا اور بلیوں، کتوں اور پرندوں کو اچھا سمجھا جاتا ہو-  
٢- ایک ایسا ماحول جہاں بچے اپنے والد اور دوسرے بالغ مردوں کو جگہ جگہ تھوکتے ہوۓ اور بالغ مرد عورتوں کو جگہ جگہ کوڑا پھینکتے ہوۓ نہ دیکھتے ہوں- 
٣- ایک ایسا ماحول جہاں اساتذہ فخر سے بچوں کو یہ بتایا کریں کہ انہوں نے آج یہ کتاب یا یہ اقتباس یا یہ حوالہ پڑھا اور یہ سمجھا- 
٤- ایک ایسا ماحول جہاں کچھ بھی نہ ہو تو استاد یا استانی مٹی پر حروف لکھہ کر پڑھنا سکھا دے، کوئلے سے لکھنا سکھا دے- درخت کے گرے ہوۓ پتوں اور زمین پر بکھرے ہوۓ کنکروں سے گننا، جمع اور تفریق کرنا سکھا دے-  یہ سوچتے ہوۓ کہ علم ہر جگہ اور ہر چیز میں ہے اور کسی جگہ اور چیز کا محتاج نہیں-
٥- ایک ایسا ماحول جہاں چلتے پھرتے بچے کو رنگ اور اشکال سکھادی جائیں-  ہلدی زرد، مرجائیں سرخ، بھنڈی سبز، مولی سفید، سٹا/چھلی پیلا، آسمان نیلا- میز، کتابیں، کھڑکیاں، دروازے  مستطیل، پلیٹیں اور پہیے گول، انڈا بیضوی، وغیرہ- 
٦- چلتے چلتے سبزی، پھل، میوہ یا کسی بھی دکان پر رکیں اور بچے کو نام سکھا دیں بلکہ اٹھا کر بھی دکھا دیں کہ یہ کیسا ہے- نرم ہے، سخت ہے، چکنا ہے، کھردرا ہے- 
٧- کھانے کے وقت اسے بتائیں کہ کس چیز کا کیا ذائقہ ہے- اچار اور لیموں کھٹے ہیں، سالن مسالہ دار ہے- چاول نمکین ہیں- گاجر میٹھی ہے- مولی تیکھی ہے- 
٩- گھر کا ایک چکر لگا کر بتادیں کہ یہ غسل خانہ ہے، یہ باورچی خانہ ہے، یہ بالکونی ہے، یہ صحن ہے، یہ برآمدہ ہے- وغیرہ 
١٠- گھر سے باہر نکلیں بچے کو بتائیں یہ عمارت ہے، یہ گھر ہے، یہ ڈاکٹر کا کلینک ہے، یہ اسکول ہے، یہ مسجد ہے، یہ ڈاک خانہ ہے- وغیرہ 
١١- فالتو اخبار، رسالے، کاغذ میں سے بچے کو تصویریں کاٹنے کے لئے دے دیں تاکہ اس کی کٹائی کی مشق ہو جاۓ- 
١٢- بازار جائیں تو بچے کے ہاتھ سے پیسے وغیرہ دلوائیں تاکہ اسے سکّوں اور نوٹوں کو پہچان ہو جاۓ- 
١٣- سفر کریں تو بچے کو سڑکوں کے نام اور راستے میں آنے والے مقامات کے بارے میں بتادیں- 
١٤- اپنے بچپن کے قصے، پیغمبروں کی زندگی، مشہور لوگوں کے واقعات  انھیں سنائیں تاکہ وہ تاریخ اور معاشرتی علوم سے واقف ہونا شروع ہوجائیں- 
١٥- گھر میں اسے پانی، بجلی، گیس کو صحیح استعمال کے طریقے بتائیں اور یہ کہ انھیں ضایع نہ کریں- 
١٦- بچے کو گھر میں ہی ہاتھہ دھونا، دانت صفائی کرنا، بستر ٹھیک کرنا، جوتے جگہ پر رکھنا، کام کاج میں ایک دوسرے کی مدد کرنا سکھائیں- 

ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کو سکھانے کے لئے ہزاروں روپے فیس دینا اور پھر ٹیوشن پر خرچ کرنا اور اسکے لئے خود کو اتنا تھکا لینا کہ دینی ذمہ داریوں اور دوسروں کے حقوق کا خیال ہی نہ رہے- چے کو جسمانی اور ذہنی طور پر بلاوجہ تھکانا- بچے کے نازک جسم پر دس دس کلو کے بستوں کا بوجھہ ڈال کر انکو بوڑھا کرنا- یہ سب ظلم ہے اور الله ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا یہ قرآن کہتا ہے-  

چھوٹے بچوں کو کم از کم نو گھنٹے نیند چاہیے ہوتی ہے- بچے کی وقت گذاری کا سامان کرنا ہے تو یہ ہزاروں روپے فیس بچا کر بچے کو تیراکی، مارشل آرٹس اور پتہ نہیں کیا کیا سکھایا جا سکتا ہے-  

الله پاکستان کے والدین اور اساتذہ کو اس ظلم سے بچانے کی ہدایت دے- آمین 











No comments:

Post a Comment