Wednesday, 5 February 2014

بچوں کی فطرت کے تقاضے

ساری دنیا جس قسم کے نظام کا شکار ہو چکی ہے- چاہے اسے کفر کہیں، دجال کا پھیلایا ہوا جال کہیں، گلوبلائزیشن کہیں،انسانوں کی غفلت کہیں، اللہ کی حکمتوں میں سے ایک حکمت کہیں، مسلمانوں کی آزمائش کہیں، یا کچھ اور-  اس کے اثرات میں سے ایک یہ بھی ہے ساری دنیا میں بچوں کی تعلیم کا سلسلہ ایک ہی سوچ کی پیداوار لگتا ہے اور اس سوچ میں اکثر دینی لوگ بھی غیر ارادی طور پر اور کسی بری نیّت کے بغیر شامل ہیں- اور وہ سوچ ہے بچوں کے ذریعے معاشرے میں تبدیلی لانا اور بچوں کو کچھ خاص عادات اور خاص قسم کی باتوں کا عادی بنانا- اور یہ آزاد خیال اورترقی پسند لوگوں کی طرف سے بھی ہوتا ہے-اور دینی گھرانوں کی طرف سے بھی- اسکول ہوں یا مدارس، ان کا مقصد خواندگی اور چیزوں کے بارے میں جاننے اور سیکھنے کی صلاحیتوں کو فروغ دینا نہیں بلکہ اپنے اپنے عقائد اور فکر کو بچوں پر نافذ کرنا ہوتا ہے- یہ بچوں پر بہت بڑا ظلم ہے-  

وہ بچے جنہوں نے ابھی چاند، سورج، ستاروں، پھولوں اور سمندر کی لہروں کو نہیں دیکھا ہوتا، تتلیاں اڑتے نہیں دیکھی ہوتیں، کشتی کی سیر نہیں کی ہوتی، رنگ برنگی مچھلیوں کی تیرتے نہیں دیکھا ہوتا، اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر مزے مزے کے کھیل نہیں کھیلے ہوتے،بلبلے بنا بنا کر ہوا میں نہیں اڑاۓ ہوتے- کاغذ کی تھیلیوں کو منہ سے پھلا پھلا کرپھاڑا نہیں ہوتا- درختوں سے کیریاں اور امرود نہیں توڑے ہوتے،گھاس پر ننگے پیر نہیں دوڑا ہوتا، پرندوں کی آوازیں نہیں سنیں ہوتیں، آس پاس چلنے پھرنے والے جانوروں کو اپنے ہاتھ سے کھانا نہیں کھلایا ہوتا، ان کے ساتھ کھیلا نہیں ہوتا، ان سے لطف نہیں لیا ہوتا، ان کے بارے میں معصوم ذہنوں میں پیدا ہونے والے سوالات کا انبار نہیں لگایا ہوتا، اپنے خیالات کا اظہار نہیں کیا ہوتا- ان بچوں کو کبھی گھر اور کبھی اسکول کے کمروں میں بند کر کے ان اجسام اور ان مخلوقات کی ساخت رٹنے کے لئے دے دی جاتی ہے- انکے کام رٹاۓ جاتے ہیں- بغیر کسی تجربات سے گزرے ہوۓ معصوم ذہنوں کو لکھنے کے لئے موضوعات دے دیے جاتے ہیں- اور پابندی لگادی جاتی ہے کہ اپنے الفاظ میں لکھیں-  حالانکہ ان بچوں کو تو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اپنے الفاظ کیا ہوتے ہیں، اپنے خیالات کسے کہتے ہیں-  یہ تو سرکس کے یا پھر پالتو جانوروں کی طرح سکھاۓ گۓ جملوں پر تعریفیں سمیٹنے کے عادی ہوتے ہیں- 

انگریزی ادب، انگریزی گرامر، اردو ادب، اردو گرامر، ریاضی، معاشرتی علوم، جغرافیہ، تاریخ، اسلامیات، سائنس، کمپیوٹر - بہت سے اسکولوں سے آرٹ/ڈرائنگ تو ختم ہی کر دی گئی ہے-  باقی رہے یہ گیارہ مضامین تو ان کے کھونٹوں سے بندھا بچہ ایک ایسا بیل بن جاتاہے جس نے تقریبا سولہ سترہ سال اپنے بڑوں کی خواہشات اور خوابوں کی کھیتی پر اپنی محنت  کے ہل چلا کر اس کو آباد رکھنا ہوتا ہے- ورنہ الله ان سے ناراض بھی ہو جاتا ہے  اور جہنّم میں بھی ڈال دیتا ہے- 

اور یہ بڑے خود گدھے بن کر ، ساری دنیا سے خود غرض بن کر، حرام حلال کو ایک طرف ڈال  کر،اس بچے کے لئے چارہ خرید خرید کر لاتے ہیں- 

کبھی کبھی تو سلیبس دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید یہ بچا اگلے سال کسی جاب کے لئے اپلائی کرے گا اور اس کی تیّاری کروائی جارہی ہے- 

جیسے ہی پاکستان میں تعلیمی نظام بدلنے کی بات ہوتی ہے اور نتیجہ میں کسی نصاب سے اسلام یا قرآن کا کوئی سبق نکال دیا جاتا ہے تو سب سے بڑا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ یہ نصاب اسلام کے خلاف اور ملک کو سیکیولر بنانے کے لئے ہے- ایک شور سا مچ جاتا ہے کہ بچوں کو بے دین بنایا جا رہا ہے-  حالانکہ یہ وہی کورس ہوتا ہے جو مغربی دنیا میں پڑھایا جا رہا ہوتا ہے اور کروڑوں کی تعداد میں دنیا بھر کے مسلمان بچے مغربی ممالک بھیجے جاتے ہیں اس علم کو سیکھنے کے لئے-  اگر اس میں غیر دینی نظریات ہیں بھی تو وہ تو کورس میں نہ ہونے کے باوجود بھی ان کی زندگی کا حصّہ رہیں گے کیونکہ وہ لوگوں اور مسلمانوں کی زندگیوں میں رچ بس گۓ ہیں- ان کا تعلق کورس کی کتابوں سے نہیں ہے- اور جب تک کتابیں کورس کی صورت میں رہیں گی، نہ تو تعلیم کبھی خاص و عام کے لئے ایک ہو گی اور نہ ہی اس سے شرح خواندگی میں اضافہ ہو گا- بلکہ یہ اسی طرح دو مقاصد کے لئے استعمال ہوتی رہیں گی- پہلا مقصد معاشرے کو فساد اور بلاوجہ کی بحث میں الجھاۓ رکھنا اور دوسرا مقصد بچوں کو بچپن میں اتنا بوڑھا کردینا کہ سولہ سترہ سال کی تعلیمی قید با مشقت کے بعد صرف اس قابل رہ جائیں کہ کوئی ملازمت تلاش کر کے روٹی کپڑا مکان حاصل کر سکیں- اور جو تھکن اتارنے کے لئے وقت ملے اسے اداکاروں، گلوکاروں اور کھلاڑیوں کے زندہ بتوں کو پوجنے کی نذر کردیں-حالانکہ یہ کبھی کبھی کے فارغ اوقات میں لطف کے سامان ہوتے ہیں، زندگی کا مقصد نہیں- دوسروں کی دریافت اور ایجادات کو اتنا رٹیں کہ خود ان میں کوئی تحقیقی صلاحیت باقی نہ رہے- 

غلامی اور قید سے بد تر ہے یہ زندگی- کہ کم از کم غلامی میں انسان کو احساس ذلت اور قید میں آزادی کی خواہش تو ہوتی ہے-  

کاش کہ ہمارے ہاں بچوں کو تبدیل کرکے انکے ذریعے تبدیلی لانے کے بجاۓ بچوں کے لئے خود کو تبدیلی لانے کی رسم چل نکلے-  بچوں کو یہ سکھانے کے بجاۓ کہ ڈگری یافتہ ہونے کے بعد دنیا تمہیں سلام کرے گی، بچوں کو خود سلام کریں اور انھیں دوسروں کو سلام کرنا سکھائیں- بچوں کو ایک ایسا بت بننے کے خواب دکھانے کے بجاۓ جو کروڑوں انسانوں کی توجہ کا مرکز ہو، جسے دنیا پوجے اور اپنا وقت، پیسہ، توانائی اس بت پر لگاۓ ، ایسا ہنر اور ایسے طریقے سکھائیں جس سے دنیا فیض پاۓ، مالی طور پر بھی، اخلاقی طور پر بھی اور روحانی طور پر بھی- 

بچوں کو انکی زندگی جینے دیں، آزادی کے ساتھہ، خوشیوں کے ساتھہ- اس وقت تک، جب تک وہ خود فطرت کے تقاضوں کے مطابق اپنے بچپنے سے تھک کر بڑے ہونے کی خواہش نہ کریں-  





2 comments: