مسلہ یہ ہے کہ تعلیم کے بجٹ پر دن رات اعتراض کرنے والی قوم کو تعلیم کی فکر کتنی ہے؟ انکے نزدیک تعلیم کا مقصد اور حاصل کیا ہے؟
کیا انکے نزدیک تعلیم کا مقصد بچوں میں علمی اور تحقیقی اور زندگی گزرنے کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا اور سخصیت کو سنوارنا ہے یا ڈگری لیکر ملازمت کے لئے خوار ہونا؟
پچھلے چند سالوں میں علمی طور پر جس زبان کا سب سے زیادہ بیڑہ غرق ہوا ہے وہ ہے "اردو" زبان-
چار پانچ زبانوں کے الفاظ پر مشتمل ایک وسیع زبان- جس کو اردو کے اہل زبان نے لاوارث چھوڑا- لبرلز نے اسے حقیر جانا- اور اب سوشل میڈیا اسکو ڈبونے کے در پے ہے-
اہل زبان نے اردو کو کافی عرصے سے "طنز و مزاح، جگت بازی اور چٹکلوں" کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا تھا-
لبرلز ویسے ہی اس میں بھارتی ہندی کا تلفّظ اور لہجہ شامل کر دیتے ہیں- کیونکہ یہ فیشن میں ہے- خاص کر اگر تعلق کراچی سے یا شو بز سے ہو- اچھی اردو بولنا انکے لئے شرمندگی والی بات ہوتی ہے-
رہ گیا سوشل میڈیا- تو سوشل میڈیا والوں نے تو الفاظ کی ایسی شکل بگاڑی ہے کہ انکے حروف ہی بدل دئیے- یہ صرف کام چلاتے ہیں- کام اچھا یا خراب ہونے سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی-
اپنے بچوں کو اس جہالت سے بچانے کے لئے کوئی جدید مغربی طریقوں کی ضرورت نہیں-
سیدھے سیدھے دو بہترین طریقے سالوں سے رائج تھے اور وہی کافی تھے- ہماری امّی زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھیں- لیکن گھر میں وہ ہم کو انہی دو طریقوں سے پڑھاتی تھیں- اور آگے ہم نے بھی جس جس کو ان دو طریقوں سے پڑھایا اسے فائدہ ہوا-
١) الفاظ کی ہجے ٢) املا
یاد رکھیں کہ بچوں یا بڑوں کی خواندگی یعنی پڑھنے لکھنے کی صلاحیت کو بہتر بنانے کے لئے صرف روزانہ کے تیس منٹ کافی ہیں- یعنی نوّے منٹ یا ڈیڑھ گھنٹہ روزانہ میں بچہ اردو، عربی اور انگریزی سیکھ سکتا ہے- لمبے چھوڑے الٹے سیدھے طریقوں سے صرف وقت ضائع ہوتا ہے- نہ اسکا امتحان لینے کی ضرورت ہے- نہ ایکسٹرا ورک کی- صرف ایک تسلسل چاہئے اور ایک آسان نصاب- جس میں کورس کی کتابیں شامل نہ ہوں-
١) الفاظ کی ہجے- یعنی ایک لفظ میں کون کون سے حروف ہیں- اس سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ کچھ ہم آواز حروف یاد ہو جاتے تھے کہ کون سا حرف کس لفظ میں ہے- اور اس طریقے کی ضرورت پہلی سے تیسری چوتھی جماعت تک پڑتی ہے- اسکے بعد اسکی ضرورت نہیں پڑتی-
مثلا.... س، ص، ث ذ، ض ا، ع ت، ط ہ، ھ، ح گ، غ، خ، ک، ق
منع، طعنہ، صورت، سورة، سیف، صیف، مثال، مصالحہ، تعلق، حلوہ، گزرنا، ذرّہ، ذرا، ذہین، زیادہ، عزت، ذلّت، زمانہ، صلہ، سلسلہ، ثلاثہ، ثالث، بعد، باد، زہر، ظہر، زھرہ، ذخیرہ، بغل، بگل، بہل، بهل، بھالہ، بحال، بہرحال، لہٰذا، بالکل، تارا، طاری, سہرا، صحرا، بیت، بیعت، بعید، بید
اور ایسے ہی کتنے الفاظ ہیں جو آجکل غلط لکھے جارہے ہیں کیونکہ پڑھے اور بولے غلط جارہے ہیں- کیونکہ اسکولز میں کچھ سکھایا نہیں جاتا اور گھروں میں فرصت نہیں-
بچے کو روزانہ پانچ الفاظ کی ہجے یاد کرادیں تو ہفتے ہیں پینتیس، مہینے میں ڈیڑھ سو اور سال میں تقریبا دو ہزار الفاظ کی ہجے یاد کروائی جاسکتی ہے جو کہ ایک اچھا خاصہ الفاظ کا ذخیرہ ہے-
ابتدائی مراحل میں اگر ان الفاظ سے شروع کیا جاۓ جن میں حروف مکمّل شکل میں موجود ہوتے ہیں تو بچوں کے لئے آسان بھی ہوتا ہے اور انہیں تعلیم سے بیزاری نہیں آتی- لیکن والدین اور اسکول جلدی جلدی سکھانے کے چکّر میں یہ عمل انکے لئے مشکل بنادیتے ہیں- حالانکہ میٹرک تو وہ دس سال بعد ہی کریگا اور وہ بھی پچاس سال پرانے کورس پر-
جو پرائیویٹ اسکولز دیںگے وہ "امپورٹڈ" ہوگا- جس پر بھروسہ کرنا حماقت ہے-
مثال کے طور پر مندرجہ ذیل تقریبا دو سو الفاظ...
آ آج آپ آم آر اب آس اب اٹ اڑ اس ان اے اف دب در دس دف دل دم دن دو دی دے ڈٹ ڈر ڈس ڈش رب
رت رٹ رج رچ رخ رد رس رش رک رگ رل رن رو رہ ری رے زچ زد زر زک زم زن وا وہ
آدم آرا آری آرے ارے اڑا اڑی آڑے اڑو آڑو ادا ادب ارب اذن ارم اوٹ اور اوس اون اوہ داب داد دار داغ دال دام درد
درج درس دری دوا دور دوڑ دوش ڈاک ڈال ڈرا ڈرو ڈوب ڈور ڈول ذات ذرا رات راج راز راگ رال رام ران راہ ردا
روا روح روک روگ رول روم روی رزم رزق زاد زار زرد زوج زود زور وار واہ ورد ورق ورم وزن
آداب آرام آزاد آزار آواز اداس اذان اڑان ادرک اردن اردو اروی اودا اودی اودے اوڑھ دادا دادی داڑھ داور دراز درزی درزن
دروغ دودھ دوری دورے دورہ دوڑا دوڑے دوڑی ڈورا ڈوری ڈورے راوی رازی وزہ روزے رواج زردی زردہ زردے زوال وارث
وارد وادی واری وارو وداع وردی وردہ
آزاری آوارہ ادراک ادوار ادارہ ادارے ادارت ارادہ ارادی ارادے ارواح ازواج اڑادی اڑادو اڑادے اوزار اوراق اوزان روزوں دوروں دوڑوں روزوں وزارت وزراء
زرداری اداروں ارادوں آوازوں
رازداروں زرداروں اوزاروں آہ و زاری رازداری
روزہ داروں
٢) املا یا ڈکٹیشن- یعنی بغیر دیکھے- صرف سن کر الفاظ یا جملے یا مضمون لکھنا-
اس عمل کا پہلا اقدام ہوتا ہے پڑھنا- اگر بچے کو صحیح طریقے سے الفاظ یا جملے پڑھاۓ گۓ ہیں تو وہ لکھے گا بھی صحیح-
املا لکھنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بچے کی سننے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ یاداشت بھی بہتر ہوتی ہے- اور یہ املا ایک طریقہ کا ٹیسٹ ہی ہوتا ہے جو کہ امتحانات سے بدرجہ بہتر ہوتا ہے اور بہتر نتائج دیتا ہے-
امتحانات کا مقصد تو بچوں کو ایک ذہنی تشدّد سے گزارنا ہے- ایک خوف سارا سال ان پر طاری رکھنا-
اگر والدین کو اپنے بچوں سے ہمدردی ہے اور انکی مستقبل کی کوئی فکر ہے تو انہیں خود اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرنا ہوگا-
دنیا اسی طرف جا رہی ہے- پاکستان میں جو اس وقت صورتحال پیدا کی گئی ہے سیلاب لا لا کر- یہاں تو لوگوں کو دو وقت کی روٹی اور دو جوڑی کپڑے کے لالے پڑے ہیں- جوتے تک نہیں پہننے کے لئے- اب تعلیم کو کون پوچھے گا؟